پہلا قدم۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

ایک وقت تھا، جب ہمارے بچے گھر سے باہر پہلا قدم رکھنے سے پہلے” گلستان”اور،، بوستان،، پڑھ لیا کرتے تھے۔ یہ گلستاں بوستاں، کہانیوں کی کتابیں تھی، نصیحت آموز اور بنیادی اخلاقی اسباق کی یاد دہانی کے لیے آسان لفظوں میں کہی گئی کہانیاں تھیں۔ بچوں کواخلاقیات کا سبق یاد کروانے کا سہل ترین طریقہ انہیں کہانی سنانا ہے۔ شیخ سعدیؒ سے لے کر پیر ِ رومیؒ تک یہی طریقہ کار بروئے کار لایا گیا۔ بچے ہوں یا بڑے، سبق لینے اور دینے کے لیے کہانیوں اور واقعات کے محتاج ہیں۔ حضرت غوث علی شاہ قلندرؒکی ،،تذکرہ غوثیہ،، اس زمانے کی کہانیوں اور واقعات پر مشتمل کتاب ہے اور ان واقعات سے سالکین طریقت اپنے لیے نصابِ فکر و زیست متعین کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے مرشد حضرت واصف علی واصفؒ اپنی محافل ِ گفتگو میں کوئی دقیق نکتہ سمجھاتے ہوئے بعض اوقات کہتے،، اچھا، اِس کے لیے پہلے آپ ایک کہانی سن لو” چنانچہ وہ کہانی اور واقعہ بیان کرنے کے بعد جب نکتہ بیان فرماتے تو ہم ایسوں کی سمجھ میں بھی ہمیشہ کے لیے آ جاتا۔

یہ” گلستان” اور “بوستان” ہمارے ہاں تربیت ِ اطفال کا ایک طے شدہ نصاب تھا، اِن کہانیوں کے ذریعے ہم اپنے بچوں کے خانۂ شعور میں یہ بات بٹھا دیتے تھے کہ ایک زرق برق لباس میں گھوڑے پر سوار مال دار شخص لازم نہیں کہ اچھا آدمی بھی ہو اور قابل عزت ہو ، اور اس کے برعکس چیتھڑوں میں ملبوس ایک عام آدمی ایمان دار ہو سکتا ہے اور قابلِ عزت ہو سکتا ہے۔ یعنی ہم بچوں کو از بر کروا دیا کرتے تھے کہ اخلاقی طاقت ہی اصل طاقت ہوتی ہے، بغیر کسی اخلاقی جوہر کے طاقت قابلِ تعریف اور تقلید نہیں ہوتی۔ ہمارے بچے زمانے کی گرم سرد میں نکلنے سے پہلے یہ سبق حفظ کر لیتے تھے کہ ایک عام آدمی بھی عظیم ہو سکتا ہے، اور یہ کہ عظمت کسی زور و زَر کی محتاج نہیں ہوتی ، اور یہ کہ عظمت کے ڈانڈے ایثار، احسان، صبر اور ضبط ِ نفس سے ملتے ہیں۔ اخلاقیات… اخلاقی اقدار اور معیار کو مقدار اور مادّے پر ترجیح دینے کا نام ہے۔ یہ بظاہر ایک چھوٹا سا کام معلوم ہوتا ہے لیکن بچوں کے اخلاقی رویوں کو متعین کرنے کے باب میں یہ ایک بہت بڑا کام ہے۔ اگر ہم بچوں کو قوم کا مستقل جانتے ہیں تو جان لیجئے کہ بچوں کے اخلاقی رجحانات کی تربیت دراصل قوم کی تربیت ہے۔

خواجہ مظہر صدیقی ٗبچوں اور بڑوں دونوں کے لیے لکھتے ہیں، غالباً یہ بڑوں کے اندر ایک بچہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ بچہ معصومیت کا استعارہ ہے، اور معصومیت ایک روحانی و الہامی کلام کی ترسیل کے لیے بطور میڈیم کام کرتی ہے۔ جس قدر ہم معصومیت کے قریب ہوتے ہیں، فطرت اور فاطر کے قریب ہوتے ہیں۔ معصومیت شاید اپنے شر کو بھول جانے کے نام ہے، جب کوئی اپنے شر سے نکل جاتا ہے تو باہر کی دنیا کے لیے وہ بے ضرر ہو جاتا ہے اور بے ضرر ہونا منفعت بخش ہونے کا پہلا مرحلہ ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں،،فقیری شروع ہوتی ہے ،بے ضرر ہوجانے سے، اور مکمل ہوتی ہے، منفعت بخش ہوجانے پر،،

خواجہ مظہرنواز صدیقی کو میں خواجہ صاحب کہتا ہوں، اور لفظ ،خواجہ، پر زور دے کر کہتا ہوں، اور یہ ہولے سے مجھے اپنا،صدیقی، ہونا یاد کروا دیتے ہیں۔ مانا کہ خواجگی مولائی صفت ہے، لیکن خواجگی اور صدیقیت میں کوئی ایسا بیر اور بیریئر بھی نہیں!! خواجہ مظہر نواز جانے کیوں ٗ خواجگی سے خائف ہیں، حالانکہ خواجگی کا لازمہ بندہ پروری اور خوئے دلنوازی سے یہ پہلے سے نوازے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسٹڈی گروپ کے نام سے ایک حلقہ قائم کر رکھا ہے، جس میں ملّاں سے لے کر لبرل تک اور نجفیو ں سے لے کرنجدیوں تک ہر مکتبہ فکر کے ادیب اور ادب پرور دوست اکٹھے ہیں۔ یہاں ایک صحت مند مکالمے کی فضا قائم ہے ، یہ بڑی مستقل مزاجی سے حلقہ چلا رہے ہیں۔ ایسی متنوع سنگت قائم کرنا اور رکھنا صوفیوں کا خاصہ ہوا کرتا ہے۔ صوفیوں کے ہاں دیکھنے میں آتا ہے کہ زاہد اور رند ہم پیالہ و ہم نوالہ ہوتے ہیں۔ ایک مخصوص اسلامی مزاج اور پس منظر رکھنے والا یہ واحد شخص ہے جو فراخ دلی سے لبرلز کے کالم بھی اپنے گروپ میں شیئر کرتا ہے، ایسی فراخ دلی خود کو روشن خیال کہلوانے والوں کے ہاں بھی دیکھنے میں نہیں آتی۔

صاحبو! ایک صوفی کا اثاثہ اخلاص ہے۔ اخلاص اپنے مزاج اور مفاد کی نفی کا نام ہے۔ اپنے مزاج کی نفی کیے بغیر ہم دوستوں کی سنگت قائم نہیں کر سکتے۔ اپنے مفاد کا قیدی اپنا دائرہ فکر و عمل کو محدود کر لیتا ہے۔ وہ زندگی میں ایسا منظر دیکھنے سے محروم ہوتا ہے جہاں اس کے کسی ممکنہ مفاد کی پرورش نہ ہو رہی ہو۔

سوئے ہوئے بچے کو پیار کرنا ایک محاورہ ہے،اور ایک صوفی کی زندگی، اِس کا عملی مظاہرہ ہوتی ہے ، وہ کیمرے کی روشنی سے بے نیاز ہو کر کام کرتاہے۔ شہرت اور تعریف و توصیف اُس کے کسی کام کا محرک نہیں ، اور تنقید اور ملامت مل کر بھی اُسے کسی عمل ِ خیر سے منحرف نہیں کرتے۔ وہ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی ایسی ہی احتیاط ، توجہ اور محبت سے کرتا ہے، جس طرح کہ بڑے سے بڑا کام۔ وہ چھوٹے اور بڑے کی قید اور قدغن سے ذہنی طور پر آزاد ہو چکا ہوتا ہے۔ خواجہ صاحب بڑے بڑے اداروں میں بھی خطابت کے جوہر دکھاتے ہیں، لیکن مجھے اِن کی وہ تقریر بہت پسند آئی ، اور یقین مانیے میں نے حد درجہ منہمک ہو کر اِن کی وہ گفتگو سنی ،جو انہوں نے خانہ بدوش جھونپڑی والوں کے بچوں کے سامنے کی تھی، غالباً صفائی کے موضوع پر بات کر رہے تھے۔ میں نے وہاں ان کے اندر کا صوفی دیکھ لیا تھا۔ صاحبو! آسان لکھنا بہت مشکل ہوتا ہے، تعلیم یافتہ سے گفتگو کرنا آسان ہوتا ہے، بے علم سے بات کرنا اور اُس کی سطح پر جا کر اُن سے مکالمہ کرنا ، اُس کے تحفظات کو خطاب کرنابے حد مشکل ہوا کرتاہے — لیکن یہ مشکل کام اُن کے لیے آسان ہوتا ہے، جو اپنے کام اللہ اور اس کے رسولؐ کی رضا کے لیے کرتے ہیں۔

عام آدمی صرف مال کی زکوٰۃ نکالتا ہے، صوفی اپنی ہر صلاحیت کی زکوٰۃ نکالتا ہے، وہ اپنے تعلقات کی زکوۃ بھی نکالتا ہے اور بڑی فراخدلی سے نکالتا ہے۔ عام دنیا دار انسان اپنے تعلقات اپنے پیسوں کی طرح سینت سینت کر رکھتا ہے ، وہ سمجھتا ہے کہ اگر اس کے تعلقات کا حوالہ کسی غریب کے کام آ جائے گا ٗ تو اِس سے اس کی توہین ہو جائے گی ، چنانچہ وہ اپنے تعلقات وہیں استعمال کرتا ہے، جہاں اُسے کل کلاں کوئی نفع ،سود سمیت میسر آسکے۔ ہمارے خواجہ صاحب مقتدر حلقوں میں اپنے تعلقات کو کسی غریب کے بال کا کام نکلوانے کیلئے بڑی فراخدلی سے استعمال کرتے ہیں، اور اللہ کا قانون ہے کہ اُس کی راہ میں جو چیز بھی خرچ کی جائے، وہ محفوظ ہوجاتی ہے اور اِس کا صلہ اس دنیا میں بھی دس گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے۔چنانچہ خواجہ صاحب کے تعلقات روز افزوں ترقی کر رہے ہیں۔ اللّٰھم زد فزد!! ملتان کے کسی دُور افتادہ گاؤں میں کسی کے ہاں راشن پہنچانا ہو،یا کسی یتیم خانے کا منقطع بجلی کا میٹر بحال کرنا ہو، خواجہ صاحب اپنے تعلقات کو جھٹ سے بروئے کار لاتے ہیں اور کام ہو جاتا ہے۔ یہ سارے کام سوئے ہوئے بچے کو پیار کرنے والے کام ہیں۔ اس لیے میں انہیں صوفی کہتا ہوں، خواہ اِن کے لواحقین و متعلقین و متوسلین کی طبع نازک پر یہ خطاب گراں ہی گزرے!

Advertisements
julia rana solicitors

صد شکر کہ بچوں کی کہانیوں کے مصنف بڑے نہیں ہوئے اور ہم اِن کے اندر کا بچہ دیکھنے میں کامیاب ہوگئے، بلکہ سچ پوچھیں تو کہانیوں کی اِس کتاب کو کل رات جب میں نے ایک ہی نشست میں پڑھا تو میرے اندر کا بچہ بھی بیدار ہو گیا، معصومیت کی مخملیں گود میرے لیے وا ہو گئی اور میں یہ کہانیاں پڑھتا پڑھتا سو گیا۔ اللہ کرے! جاگنے کے بعد میرے اندر کا بچہ کہیں سو نہ جائے،میرے اندر کا بچہ بھی میرے ساتھ جاگتا رہے ، میرے ساتھ ساتھ چلتا رہے اور میرے ساتھ مکالمہ کرتا رہے، خیر اور شر کے دوراہے پر یہ بچہ خود ہی بول کر اپنی طرف متوجہ کرکے مجھے بتا دے گا ، سیدھا راستہ کدھر ہے، انعام یافتہ لوگوں کا راستہ کون سا ہے۔ انعام یافتگان معصومیت کے پیکر ہوتے ہیں، بچہ بھی معصوم ہے… جنس اپنی جنس کو پچانتی ہے۔ جنس باہم جنس پرواز!!
آخر میں ایک اچھے شگون good omen کے طور پر بتاتا چلوں کہ خواجہ صاحب کی کتاب کا عنوان،،پہلا قدم،، مجھے مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کے شعری مجموعہ،، شب چراغ،، کے ایک شعر سے مل گیا، وہ شعر سنیے، اور سر دھنیے:
پہلا قدم ہی عشق میں ہے، آخری قدم
محرومِ عشق ہے جو اِرادے سے ہٹ گیا
یہ اسی معروف غزل کا شعر ہے ، جس کا نمائندہ شعر سالکین راہ طریقت کے لیے ایک نصاب کا درجہ رکھتا ہے:
ہم اپنے آپ میں ہی تجھے ڈھونڈتے رہے
تیرے مسافروں کا سفر گھر میں کٹ گیا
( خواجہ مظہر نواز صدیقی کی کتاب “پہلا قدم ” کی تقریب ِ رونمائی پر اظہار ِ خیال)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply