کیا یہ فکری بددیانتی نہیں ؟۔۔آصف محمود

فلسطین سے الجزائر تک ،کوئی سادہ لوح پاکستانی ، ذرا سا پریشانی کا اظہار کر دے تو یہ کندھے اچکا کر کہتے ہیںاوہ یوسٹوپڈ ! اپنے ملک کا سوچو اور دوسرے ممالک کے داخلی مسائل پر بات کرنا بند کرو۔لیکن پڑوس میں طالبان کی حکومت آ جائے تو ان کا دسمبر آگ برسانے لگتا ہے ، یہ اپنا ہی اصول بھول جاتے ہیں اور سارا دن بیٹھ کر دوسرے ملک کے مسائل پر سینہ کوبی کرتے ہیں کہ اب بے چارے افغانستان کا کیا بنے گا، یہاں تو طالبان آ گئے۔ پاکستان دانستہ خاموش رہتا ہے اور احتیاط سے کام لیتے ہوئے کہتا ہے کہ طالبان کو تسلیم کرنے کا فیصلہ عالمی برادری سے مل کر کریں گے لیکن اس کے باوجود پاکستان کو طعنے دیتے ہیں کہ یہ اندر سے طالبان کا حامی ہے ، وغیرہ ، وغیرہ اور وغیرہ لیکن امریکہ طالبان سے مذاکرات کرتا ہے اور ان مذاکرات میں افغان حکومت کو شامل کرنے کے قابل بھی نہیں سمجھتا اور براہ راست طالبان کے ساتھ مستقبل کے افغانستان کی صورت گری پر بات کرتا ہے تو یہ لوگ بیسل کے بت کی طرح خاموش ہو جاتے ہیں۔ فرانس میں حجاب پر پابندی عائد کر دی جائے تو ان کے انسانی حقوق گرمیوں کی چھٹی پر چلے جاتے ہیں لیکن طالبان حجاب لینا لازمی قرار دے دیں تو یہ دہائی دینا شروع کر دیتے ہیں اور ان کے حقوق انسانی کا مزاج برہم ہو جاتا ہے۔ فرانس کی پارلیمان برقعہ کی خریدو فروخت پر پابندی لگا دے اورکسی خاتون کو چہرہ ڈھانپنے پر جرمانے اور ایک سال تک کی قید کا قانون وضع کر دے تو یہ اسے فرانس کا داخلی مسئلہ قرار دیتے ہوئے سمجھانے آ جاتے ہیں کہ ہر ملک کو اپنی روایات اور اقدار کے مطابق قانون سازی کا حق حاصل ہے لیکن طالبان برقعہ لازم نہ بھی کریں اور صرف حجاب کو لازم قرار دے دیں تو یہ ز بانِ بے نیام لیے میدان میں آ جاتے ہیں کہ ظلم ہو گیا ، انسانیت گھائل ہوگئی اور تہذیب کے پر نوچ لیے گئے۔ فرانس کے سرکوزی صاحب کہیں حجاب کو خوش آمدید نہیں کہا جائے گا، تو اس فیصلے کا سہرا کہا جاتا ہے اور طالبان کہیں کہ بے حجابی کی اجازت نہیں دی جائے گی تواس پر یہ سینہ کوبی شروع کر دیں گے۔ طالبان کسی کو سڑک پر چار کوڑے مار دیں تو ان کے ہاں دو برساتیں اشک بہاتے آتی ہیں لیکن امریکی ففتھ سٹرائکر برگیڈ کی تھرڈ پلاٹون کی براوو کمپنی کے فوجی کارپورل جرمی مارلوک اگر ایک پندرہ سال افغان لڑکے گل مدین کو قتل کر کے اس کی انگلی کاٹ کر یادگار کے طور پر اپنے پاس محفوظ کر لے تو یہ مقامی چی گویرے منہ دوسری جانب پھیر لیتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ آزادی رائے کا تازیانہ طالبان کی کمر پر مسلسل برسایا جاتا ہے اور یہ مقدمہ کھڑا کیا جاتا ہے کہ وہ شعور انسانی کے دشمن ہیں اور اختلافی رائے برداشت کرنے کو تیار نہیں ۔لیکن فیس بک پر کہرام مچا ہے کہ کسی نے طالبان کا نام لے دیا اور اکائونٹ پابندیوں کی زد میں آ گیا۔ لوگ اب طالبان کی بجائے سٹوڈنتس کا لفظ استعمال کر رہے ہیں۔مجال ہے جو کسی نے فیس بک سے بھی شکوہ کیا ہے کہ نیک بخت یہ کیا کر رہی ہو، پیچھے تو دیکھو۔ پاکستان پر تنقید کی برسات ہوتی ہے کہ وہ افغانستان کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔لیکن بھارت جس کی افغانستان سے کوئی سرحد نہیں ملتی یہاں آ کر پائوں پھیلاتا ہے اور پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ اپنے قونصل خانے کھولتا ہے تو ایمنسٹی انٹر نیشنل تو اقوام متحدہ کو خط لکھ دیتی ہے کہ بھارت کو اس سے روکا جائے ، یہ خطرناک کام ہے لیکن احباب بھول کر بھی نہیں پوچھتے کہ بھارت کو یہاں تشریف لانے کی کیا ضرورت ہے۔ طالبان کی حکومت آ جائے تو ٹاک شوز میں لمبی لمبی بحثیں ہوتی ہیں کہ اس حکومت کی شرعی حیثیت کیا ہے لیکن کسی اور حکومت کی شرعی تو کیا اخلاقی حیثیت پر بھی سوال اٹھے تو ان کا مزاج برہم ہو جاتا ہے اور یہ اردو میڈیم لوگوں کو سمجھانے بیٹھ جاتے ہیں کہ سائیں لوکو حکومتیںاس تردد سے بے نیاز ہوتی ہیں۔حتی کہ انہوں نے کبھی یہ سوال بھی نہیں اٹھایا کہ جو کچھ ان کی اپنی سکرینوں پر ہو رہا ہوتا ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہوتی ہے۔آخر طالبان ہی نہیں ، تہتر کے آئین کے تحت وطن عزیز بھی تو اسلامی ملک ہے اورا س کا آئین بھی تو بتا رہا ہے کہ ریاست کا مملکتی مذہب اسلام ہو گا۔ طالبان افغانستان میں امن عامہ کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کر دیں تو یہ ظلم قرار پاتا ہے اور امریکی فوجی کابل ائیر پورٹ پر براہ راست لوگوں کو شوٹ کر دیں تو اسے ’’ ماب کنٹرول‘‘ جیسی اصطلاح کا کفن اوڑھا دیا جاتا ہے ۔ طالبان تمام حریفوں کو امان دے دیں اور اعلان کر دیں کہ کسی سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی پھر بھی کوئی ملک چھوڑنے کی جدوجہد میںجہاز سے گر کر مر جائے تو اس حادثے کی فرد جرم طالبان کے نام لکھی جاتی ہے لیکن امریکی فوجی نو عمر افغانوں کوقتل کر کے تحقیقاتی کمیشن کو کہیں کہ ہم نے یہ قتل تفریح کے طور پر کیا تھا تو اس ظلم پر گارجین سے ایشین ٹائم تک تو آوا اٹھتی ہے لیکن ہمارے مقامی چی گویرے اس سے یوں لاتعلق رہتے ہیں جیسے ہوا ہی کچھ نہیں۔حسن عسکری نے ترقی پسند ادیبوں پر ایک ز مانے میں گرہ لگائی تھی کہ کیفے اورینٹ میں یہ کائونٹر کی طرف منہ کر کے بیٹھتے ہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ رخ انور آج بھی کائونٹر ہی کی جانب رہتا ہے۔ عالمی عدالت انصاف کی تحقیقاتی ٹیم نے جب افغانستان میں امریکہ کے ہاتھوں جنگی جرائم کی تحقیقات کرنا چاہیں تو کیا ہوا۔( یاد رہے کہ اس تحقیقاتی عمل کا حکم عالمی عدالت انصاف کے پانچ ججوں پر مشتمل بنچ نے دیا تھا)۔ امریکہ نے ان پر پابندیاں عاید کر دیں ، ان کی نقل و حرکت محدود کر دی۔ خود امریکی صدر نے ان پابندیوں کی اجازت دی۔امریکی انتظامیہ نے عالمی عدالت انصاف کو کینگرو کورٹ کہنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ نہ صرف ان اہلکاروں بلکہ ان کے اہل خانہ تک کو دھمکیاں دی گئیں کہ اگر امریکہ کے خلاف تحقیقات کیں تو نتائج بہت برے ہوں گے۔چنانچہ یہ تحقیقات آج تک نہیں ہو سکیں کہ امریکہ کے ہاتھوں افغانستان میں کس کس نوعیت کے جنگی جرائم ہوئے۔روم سٹیچیوٹ پر امریکہ نے آج تک دستخط نہیں کیے۔ وہ عالمی عدالت انصاف کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں۔ صرف قندوز کے ہسپتال پر 3 اکتوبر 2015 کو ہونے والے امریکی حملے کی تفصیلات سامنے آ جائیں تو انسانیت شرما جائے۔45 ہلاکتوں کا اعتراف تو سی این این نے بھی کیا تھا۔لوگ جل کر یوں مرے کہ لاشیں شناخت کے قابل بھی نہ رہیں۔ مگر یہ تو صرف ایک واقعہ ہے۔ مکمل تحقیقات ہوں تو معلوم ہو کہ انسانیت کے ساتھ کیا سلوک ہوتا رہا۔ لیکن یاروں نے کبھی اس پر ایک لفظ نہیں لکھا۔ان کا منہ آج بھی کائونٹر کی طرف ہے۔ ٭٭٭٭٭

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply