• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ڈسکہ دھاندلی بھی اور ووٹنگ مشین بھی ؟۔۔محمد اسد شاہ

ڈسکہ دھاندلی بھی اور ووٹنگ مشین بھی ؟۔۔محمد اسد شاہ

اس سال فروری میں پنجاب کے شہر ڈسکہ میں قومی اسمبلی کی ایک نشست پر ضمنی انتخاب ہوا ۔ یہ نشست گزشتہ تقریباً دو دہائیوں سے مسلم لیگ نواز جیتتی آ رہی ہے ۔ حتیٰ کہ جنرل پرویز کے دور میں بھی یہاں سے مسلم لیگ نواز کو شکست نہیں دی جا سکی ۔ یہاں سے مسلم لیگ نواز کے ایم این اے افتخار حسین شاہ کی اچانک وفات کے بعد ضمنی انتخاب ہوا تو موجودہ حکومت نے مسلم لیگ نواز کے مقابل اپنا امیدوار بھی میدان میں اتارا ۔ پولنگ والے دن جب نتائج آنا شروع ہوئے تو توقع کے عین مطابق ہر اسٹیشن سے مسلم لیگ نواز جیت رہی تھی ۔ جب آخری 20 پولنگ اسٹیشنز کا نتیجہ آنا رہ گیا تو اچانک نتائج آنا بند ہو گئے ۔ وہاں کے پریذائیڈنگ آفیسرز اور دیگر عملہ غائب ہو گیا ۔ دنیا حیران و ششدر ۔ دوسرے دن وہ سب پریذائیڈنگ آفیسرز اچانک ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ سے برآمد ہوئے اور جو نتائج انھوں نے پیش کیے ،ان کے مطابق انھی 20 پولنگ اسٹیشنز سے تحریکِ انصاف کے ووٹ اتنے زیادہ نکلے کہ باقی سینکڑوں اسٹیشنز کے نتائج پر بھی غالب آ گئے ۔

یہ ایک حیرت انگیز واقعہ تھا ۔ حکومت نے ان غائب ہونے والے پریذائیڈنگ آفیسرز کی بھرپور پشت پناہی کی اور وزراء مسلسل بیانات جاری کر کے اس نتیجے کو تحریکِ انصاف کی عظیم فتح ، اور عمران خان کی “مقبولیت” کا پیمانہ قرار دے رہے تھے ۔ اس دن دیگر بھی ایسے بہت سے واقعات ہوئے جن سے دھاندلی اور اندھا دھند سرکاری مداخلت سامنے آئی ۔ مثلاً کئی اسٹیشنز پر وقفوں وقفوں سے فائرنگ ہوتی رہی ۔ لوگوں میں اس قدر خوف و ہراس پھیلایا گیا کہ لوگ ووٹ ڈالنے آ ہی نہ سکیں ۔ وڈیو ریکارڈنگ میں واضح ہے کہ مواقع پر موجود پولیس اہل کار فائرنگ کرنے والے غنڈوں کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہے تھے ۔ کئی اسٹیشنز پر کئی کئی گھنٹے پولنگ روکی گئی ۔ ایک نشست جیتنے کا ایسا جنون اس سے پہلے کبھی سامنے نہیں آیا تھا ۔ الیکشن کمیشن نے وہاں دوبارہ الیکشن کروانے کا حکم دیا تو تحریکِ انصاف نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا ۔ عدالت میں جب یہ ثابت ہو گیا کہ اتنے وسیع پیمانے پر ادھاندلی کی گئی کہ نتائج قابلِ قبول نہیں ہو سکتے تو عدالت نے بھی دوبارہ انتخاب کا حکم دیا ۔ دوبارہ انتخاب ہوا تو توقع کے عین مطابق مسلم لیگ نواز اپنی ہی نشست آسانی سے جیت گئی ۔ عدالتی حکم پر دھاندلی کے واقعات اور خصوصاً پریذائیڈنگ آفیسرز کے اغواء یا گم شدگی کے خلاف تحقیقات ہوئیں ۔ تحقیقات کے راستے میں بے شمار رکاوٹیں ڈالی گئیں اور بہت سے متعلقہ سرکاری ملازمین ، اور مشکوک پریذائیڈنگ آفیسرز ایسے بھی سامنے آئے جنھون نے ان تحقیقات میں تعاون نہیں کیا ۔ تقریباً 8 ماہ کی مشکل ترین تحقیقات کے بعد رپورٹ سامنے آئی تو ثابت ہؤا کہ 20 پریذائیڈنگ آفیسرز باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ غائب کیے گئے ۔

رپورٹ کے مطابق ایجوکیشن اور الیکشن کمیشن افسران ، اسسٹنٹ کمشنر ، وزیر اعلیٰ کا ڈپٹی سیکرٹری ، تحریکِ انصاف کی مرکزی راہنما فردوس عاشق اعوان بھی دھاندلی میں ملوث پائے گئے ۔ الیکشن کمیشن افسران ، ڈی آر او عابد حسین ، آر او اطہر عباسی کو دھاندلی کا ذمہ دار قرار دیا گیا ۔ رپورٹ کے مطابق پولنگ عملہ کو اغواء کر کے ، پہلے پسرور اور پھر سیالکوٹ لے جایا گیا ۔ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر فرخندہ یاسمین نے اس سلسلے میں اپنے گھر پر غیر قانونی میٹنگ منعقد کی ۔ انکوائری کمیٹی نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر اور ریٹرننگ آفیسر کی نااہلی کے باعث ڈسکہ الیکشن باقاعدہ سبوتاژ کیا گیا ۔ رپورٹ میں نااہل ڈی آر او اور آر او کو آئندہ کوئی بھی انتظامی عہدہ نہ دینے اور انتخابی ڈیوٹی سے دور رکھنے کی سفارش کی گئی ہے ۔

رپورٹ میں لکھا ہے کہ پولنگ کے روز ہونے والے غیر قانونی واقعات سے پولیس اور انتظامیہ آگاہ تھی لیکن روکنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ پولیس نے اپنی  ذمہ داریاں ادا نہیں کیں ۔ الیکشن ڈیوٹی پر مامور محکمہ تعلیم کے ملازمین بھی دھاندلی میں ملوث پائے گئے ۔ سی ای او ایجوکیشن سیالکوٹ مقبول احمد شاکر نے بھی نااہلی اور جانب داری کا مظاہرہ کیا ۔ رپورٹ میں مقبول احمد شاکر کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے ۔ فرخندہ یاسمین کے خلاف فوجداری اور محکمانہ سخت ترین کارروائی کی سفارش کی گئی ہے ۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ پولیس افسران اس دوران غیر قانونی سرگرمیوں میں پوری طرح ملوث تھے اور الیکشن پر اثرانداز ہو رہے تھے ۔ انھوں نے الیکشن کمیشن کے ضابطے توڑے ۔ پولیس افسران 20 پریذائیڈنگ آفیسرز کو آر او آفس کی بجائے کسی اور جگہ منتقل کر کے دباؤ کے ذریعے نتائج تبدیل کروانے میں بھی ملوث پائے گئے ۔ انکوائری کمیٹی نے ان تمام ملوث افراد کے خلاف انضباطی کارروائی ، اور پولیس افسران کے خلاف فوجداری کارروائی اور محکمانہ کارروائی کی سخت سفارش کی ہے ۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ مشکوک پریذائیڈنگ آفیسرز تحقیقات کے دوران صریح جھوٹ بولتے رہے ۔ البتہ سی ڈی آر رپورٹ سامنے آنے کے بعد ان پریذائیڈنگ آفیسرز نے آر او آفس کی بجائے کسی اور جگہ جانے کا اعتراف کر لیا ۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہ سب کچھ باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا ۔ اس سلسلے میں اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ کے گھر پر ضمنی انتخاب میں دھاندلی کے لیے میٹنگ ہوئی جس میں تحریکِ انصاف کی مرکزی راہنما اور تب وزیر اعلیٰ پنجاب کی “خصوصی معاون” فردوس عاشق اعوان ، وزیر اعلیٰ کا ڈپٹی سیکرٹری علی عباس ، ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ تعلیم محمد اقبال اور دیگر اہم لوگ موجود تھے ۔ پریذائیڈنگ آفیسرز کو کہا گیا کہ شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی پر بھی ووٹ ڈالنے دیا جائے ۔ عملے سے کہا گیا کہ وہ پولیس اور انتظامیہ کو “کام” کرنے دیں اور کوئی اعتراض نہ کریں ۔

یہ تو تھے انکوائری رپورٹ کے الفاظ ۔ اب ذرا دوسری طرف دیکھیے کہ تحریکِ انصاف کی پنجاب حکومت کا اس سلسلے میں کیا رویہ رہا ۔ رپورٹ میں جن سرکاری عہدے داروں کو مشکوک یا مجرم قرار دیا گیا ، ان سب کو پنجاب حکومت نے انعام کے طور پر عہدے عطاء کیے ۔ اس شرم ناک دھاندلی میں ملوث تین افسران وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے ہیں ۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب کے سپیشل سیکرٹری ہائر ایجوکیشن نعیم غوث نے پولنگ سے دو روز قبل 17 فروری 2021 کو ڈسکہ کے اس حلقے کا خصوصی دور کیا اور گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین ڈسکہ کی پرنسپل کے دفتر میں 45 پریذائیڈنگ آفیسرز کے ساتھ خصوصی میٹنگ منعقد کی۔ جب کہ یہ کام اس کے دائرہ کار میں نہیں تھا ۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ کا ڈپٹی سیکرٹری علی عباس بھی موجود تھا ۔ گریڈ 20 میں تعینات نعیم غوث ، عثمان بزدار کا قریبی آفیسر ہے جس کا تعلق بزدار کے آبائی علاقے تونسہ ضلع ڈیرہ غازی خان سے ہے ۔

علی عباس بھی گزشتہ تین سال سے بزدار کے آفس میں کام کر رہا ہے ۔ 133 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ پنجاب کے جوائنٹ صوبائی الیکشن کمشنر محمد سعید گل نے انکوائری آفیسر مقرر ہونے پر تیار کی ہے ۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ آصف حسین کے گھر پر اس “سلسلے” میں ہونے والی میٹنگ میں بھی علی عباس اور فردوس عاشق اعوان موجود تھے ۔ رپورٹ میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس سمبڑیال کو بھی ملوث قرار دیا گیا ہے ۔ ڈی ایس پی نے “ہدایات” جاری کیں کہ “حکومت کی حمایت کریں ، شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی پر بھی ووٹ ڈالنے کی اجازت دیں ، اگر فرخندہ یاسمین کا فون آئے تو اس کی ہدایات پر مکمل عمل کیا جائے ، اگر ووٹنگ کا عمل روکنے کا حکم ملے تو فوراً روک دیں ، ووٹنگ کے عمل کو سست رکھا جائے ، ڈسکہ شہر میں ووٹنگ 25 فی صد سے زیادہ نہ ہونے دی جائے ، فائرنگ کے واقعات ہوں تو پریشان نہیں ہونا ، پولیس افسران جو کچھ کرنا چاہیں ، انھیں کرنے دیں ، پولیس کی مدد سے پولنگ مقررہ وقت سے پہلے ہی شام ساڑھے 4 بجے بند کر دیں۔”

رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ علی عباس نے میٹنگ میں پریذائیڈنگ آفیسرز کو دھمکیاں دیں اور نعیم غوث سے کہا؛ “انھیں انسان بننا سکھائیں!” ورنہ ان کے تبادلے بہت دور کر دیئے جائیں گے ۔ سابق ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ ذیشان جاوید لاشاری اور اے ڈی سی جی فاروق اکمل بھی اس سلسلے میں بہت سرگرم پائے گئے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس ساری رپورٹ کو پڑھنے کے بعد ایک سوال تو ذہن میں یہ آتا ہے کہ کیا یہ سب لوگ کسی “بہت بڑے لیڈر” کی منشاء اور ہدایات کے بغیر ہی یہ سب کچھ کر رہے تھے ؟ اور دوسرا سوال یہ کہ 2018 میں آر ٹی ایس مشین کو اچانک بند کرنے اور پھر 2021 میں ڈسکہ کھلم کھلا دھاندلی کرنے والے لوگ کس منہ سے سابقہ انتخابات میں دوسروں پر دھاندلی کے الزامات لگایا کرتے تھے ؟ اور تیسرا سوال یہ کہ تحریکِ انصاف کی حکومت “دھاندلی روکنے” کا دعویٰ کر کے اب جس الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو نافذ کرنے کے لیے تڑپ رہی ہے ، اس پر کیوں یقین کیا جائے ؟ جب کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ماہرین نے اس مشین کے 74 نقائص واضح بتائے ہیں ۔ اس ووٹنگ مشین کو پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے ذریعے نافذ کروانے سے پہلے کیا عمران خان نے ڈسکہ دھاندلی والوں کو نشان عبرت بنا لیا ہے؟

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply