• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • فرانس میں متنازعے خاکے اور آزادی اظہار رائے۔۔محمود اصغر چوہدری

فرانس میں متنازعے خاکے اور آزادی اظہار رائے۔۔محمود اصغر چوہدری

فرانس حکومت نے پیرس میں ایک مسجد کو چھ مہینے کے لئے بند کردیا ہے۔ مسجد انتظامیہ پر الزام تھا کہ انہوں نے انٹرنیٹ پر کچھ ویڈیوز جاری کی تھیں جن میں ایک فرانسیسی استاد سیموئیل پیٹی کے خلاف نفرت کا اظہار کیا گیا تھا ۔ حکومت کا خیال ہے کہ یہ ویڈیوز ہی اس قتل کا سبب بنی ہیں۔ گزشتہ ایک مہینے سے مسلمانوں کے خلاف حالات کافی کشیدہ ہیں ۔ 51 مسلم تنظیمات کی فہرست تیار کی گئی جن پر حکومت پابندی لگانا چاہتی ہے ۔پولیس نے 213  افراد کی فہرست تیار کی ہے جنہیں ان کی انتہا پسندانہ سوچ کی پاداش میں ملک بدر کرنا چاہتی ہے ۔ دوسری جانب فرانسیسی عوام کی جانب سے ملک میں موجود ساٹھ لاکھ مسلمانوں کو تعصب ، نفرت اور حکومتی عتاب کا سامنا ہے ۔چند دن پہلے فرانس میںایک فرانسیسی خاتون کی جانب سے دو مسلمان عورتوں پر چاقو سے حملہ کیا گیاہے۔ان حالات کے محرکات میں پچھلے تیس دنوں میں ہونے والے دو واقعات شامل ہیں۔

پچیس ستمبر کوپیرس میں موجود ایک پاکستانی نوجوان ظہیر حسن محمود نے گوشت کاٹنے والے ٹوکے سے پیرس میں دو فرانسیسی شہریوں کو زخمی کر دیا تھا ۔ ظہیر حسن محمود اس وقت پولیس کی حراست میں ہے اور اس پر دہشتگردی کا  مقدمہ قائم کیا گیا ہے ۔ اسی طرح 16 اکتوبر کو ایک اٹھارہ سالہ چیچن نوجوان عبداللہ نے جغرافیہ اور تاریخ کے سینتالیس سالہ استاد سیموئیل پیٹی کو قتل کر کے اس کا سر قلم کر دیا تھا ۔پولیس نے عبداللہ کاپیچھا کیا اور فائرنگ کر کے اسے ماردیا تھا ۔یہ واقعات ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب فرانس میں متنازعہ خاکے بنانے والے میگزین چارلی ہیبڈو پر2015ءمیں ہونے والے حملے کے مقدمے کی سماعت ہورہی ہے جس کے نتیجے میں بارہ افراد ہلاک ہوگئے تھے ۔اور میگزین نے پیغمبر اسلام ﷺ کے خاکے دوبارہ چھاپے۔ جبکہ سیموئیل پیٹی کا قتل اس لئے ہوا ہے کہ اس نے اپنی کلاس میں شارلی ہیبڈو کے متنازعہ خاکے دکھائے تھے۔میڈیا کا کہنا ہے کہ وہ اپنی کلاس میں آزادی اظہار رائے پر لیکچر دے رہا تھا۔

سیموئیل پیٹی کے قتل کے بعد ہزاروں فرانسیسی شہری سڑکوں پر آگئے تھے اور آزاد ی اظہار رائے کے حق میں نعرے لگائے تھے ۔ حکومت نے قتل ہونے والے استاد سیموئیل پیٹی کو شہید قرار دیکر اسے فرانس کا سب سے بڑا سول و ملٹری ایوارڈ لیجن آف آنر سے نوازا ہے۔ فرانسیسی صدر میکرون نے ان واقعات کے تناظر میں بہت سخت تقاریر کیں  اور بیان دیا کہ وہ اسلامی شدت پسندوں کو چین سے سونے نہیں دیں گے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اسلام اس وقت بحران کا شکار ہے ۔ ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ اسلامی شدت پسند ہمارے مستقبل پر حاوی ہونا چاہتے ہیں ۔ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ وہ خاکوں کے معاملے میں پسپائی اختیار نہیں کریں گے ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترکی کے صدر طیب اردوان نے انہیں ذہنی مریض قرار دیا ۔ فرانس میں پیغمبر اسلام ﷺ کے متنازعہ خاکے ایک بلڈنگ پر بھی آویزاں کر دئیے گئے ۔جس کے نتیجے میں قطر ، کویت اور جارڈن کی سپر مارکیٹس سے فرانس کی پراڈکٹس ہٹا دی گئی ہیں۔

اس وقت دنیا بھر کے مسلمان سخت ذہنی کرب میں مبتلا ہیں ،کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ سے ہر مسلمان کا ایسا قلبی و روحانی تعلق قائم ہے کہ ان کی شان میں ذرا سی گستاخی بھی برداشت نہیں کر سکتا ۔محبت رسول ﷺہمارے ایمان کا حصہ ہے ۔لیکن اگر ان دونوں واقعات کی تفصیل دیکھیں توپہلے واقعے میں ظہیر حسن محمود کا تعلق منڈی بہا والدین کے گاﺅں کوٹلی قاضی سے ہے اس کی نبی پاک ﷺ سے والہانہ محبت کا اظہار اس کی پچیس ستمبر والی ویڈیو میں ملتا ہے جس میں نعت پڑھتے ہوئے وہ اشک بار ہوجاتا ہے ۔اور ویڈیو کے آخر میں کہتا ہے کہ وہ مزاحمت کرنے جا رہا ہے ۔ لیکن دوسری جانب ظہیر کو اتنا علم نہیں تھا کہ جس میگزین کے دفتر پر وہ حملہ کرنے جا رہا ہے اس کی عمارت پچھلے پانچ سال سے وہاں سے منتقل ہوچکی ہے اور جن لوگوں پر اس نے حملہ کیا ہے ان کا اس میگزین اور خاکوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اسی طرح جس چیچن نوجوان نے استاد کا سر قلم کیا ہے اس کی عمر اٹھارہ سال ہے وہ سیموئیل پیٹی کو کبھی نہیں ملا تھا نہ ہی اس نے اس کی کبھی شکل دیکھی تھی وہ پیرس سے سو کلومیٹر دور ایک شہر میں رہتا تھا ۔ وہ سفر کر کے پیرس آیا سکول کے بچوں کو تین سو یورو دئیے اور ان سے پوچھا کہ سیموئیل پیٹی کون ہے ۔ اس کا پیچھا کیا اور اس کا سر قلم کر دیا ۔

دوسری جانب اگر ہم فرانس کی تاریخ اور ان کی ثقافت کا جائزہ لیں تو فرانس نے سیکولر اسٹیٹ بننے میں بڑی محنت اور تگ و دو کی ہے ۔فرانس نے انقلاب کے بعد بارہ جولائی 1790ءمیں چرچ سے آزادی حاصل کی اورمذہب کو ریاست کے تابع کیا ۔ 1882ءمیں سکول اور ریاست کو جدا کیا اور اور عوام پر تعلیم لازم کی ۔ سن 1905ءمیں چرچ اور ریاست کو جدا کرکے ریاست کو مکمل طور پر سیکولر ڈکلیئر کردیا۔ سن 2014ءمیں اپنے تمام سکولوں اور سرکاری اداروں میں سے مذہبی علامات تک کو غیر قانونی قرار دیا اسی لیے فرانس میں صلیب یا حجاب وغیرہ پر پابندی کا قانون لایا گیا ۔ چارلی ہیبڈو فرانس کا ایک ہفت روزہ میگزین ہے، جو حضرت عیسیٰ  علیہ السلام ، مسیحیوں کے پوپ ، مختلف سیاسی ومذہبی شخصیات کے کارٹون چھاپتا رہتا ہے ۔ فرانس چونکہ مذہب کو دیس نکالا دے چکا ہے اس لئے وہ ہمارے جذبات اور احساسات کو سمجھ نہیں سکتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی سنتے ہی ہمارے دل کی دھڑکنیں کیسے بے قرار ہوجاتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

دونوں تہذیبوں کے درمیان اتنی بڑی خلیج ہی ہے جوصرف او ر صرف مکالمے سے ہی دور ہو سکتی ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے دونوں جانب کی انتہا پسندی حالات کو اس نہج پر لے آئی ہے ۔ بطور مسلمان ہم محبت رسول ﷺ میں انتہا درجے کے جذباتی تو ہیں لیکن نبی مکرم ﷺ کی سب سے اہم تعلیمات یعنی علم مومن کی میراث ہے پر توجہ نہیں دیتے ۔ہمیں بھی اب اپنے احتجاج کا طریقہ بدلنا ہوگا ۔ بطور مسلمان ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا انتہا پسندی کے عوامل کا فائدہ ہوتا ہے یا الٹا نقصان ؟جو چارلی ہیبڈو اپنی موت آپ مر رہا تھااور جو خاکے کوئی نہیں دیکھ رہا تھا ۔ کیا انہی واقعات کے بعد تو وہ خاکے فرانس نے اپنی عمارت پر نہیں لٹکائے اور اگر کل کو وہ دیگر اخبارات پر چھاپنا شروع کر دیتے ہیں توہماری حکومتوں کی پالیسی کیا ہوگی؟۔کیا صرف دوواقعات نے فرانس میں ساٹھ لاکھ مسلمانوں کو مشکلات کا شکار نہیں کر دیا ۔ ہمیں علم کی دولت اور دلیل کے ہتھیار سے باہر نکلنا ہوگا۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اقوام عالم میں آزادی اظہاررائے کی تعریف متعین کروائے اور ایسے ہر عمل کو جرم قرار دلائے جس میں کسی بھی مذہب ، نظریہ کے پیروکاروں کی دل آزاری ہودنیا بھرمیں کسی عام شہری کی عزت و شہرت کوزک پہنچانا اور اسے بدنام کرنابھی قابل گرفتاری جرم ہے تو کیا ایسا کوئی قانون نہیں بنوایا جا سکتا کہ کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ان کے پیغمبر رحمت للعالمین ﷺ کی ذات پر انگلی اٹھانے والے کو سخت سے سخت سز ا دی جائے تاکہ کسی بھی جانب کے دہشتگردوں کی حوصلہ افزائی نہ ہو اور دنیا ایک امن کا گہوارہ بن سکے ۔

Facebook Comments