جمہوری شعور اور آزادی۔۔۔غلام رسول بلوچ

کسی قوم کے سیاسی اوبار کی ذمہ داری حکومت اور رعایا دونوں ہی پر عائد ہوتی ہے۔ جیسا راجہ ویسی پرجا، خیر یہ ایک پرانی کہاوت ہے لیکن اسی کی طرح یہ بھی کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ عوام کا قومی کردار بھی براہِ راست حکومت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر کوئی قوم طاقتور اور اخلاقِ حسنہ کی مالک ہوتی ہے تو اس کی حکومت بھی ان اوصاف کی بمعہ وجوہ حامل ہوتی ہے۔ ہمارے دورِ ماضی کی تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے افراد و قبائل پست اخلاقی، خودغرضی، تعصب و تنگ نظری اور عجب غرور کی لعنتوں کا شکار ہو کر غلامی کے پھندوں میں جکڑے گئے اور ان کی اس اخلاقی پستی کو حکومت وقت نے اپنائیت کی فضیلت و بالادستی کے روپ میں بیش از بیش تقویت پہنچائی۔

اگر دیکھا جائے تو آج بھی ہم اپنی غلامی کی بہت سی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ آج بھی ہم میں وہ تمام خرابیاں اور کمزوریاں موجود ہیں جن کو زندہ رکھنے کی دُھن میں موجودہ حکومت اپنی عمر گنوا رہی ہے۔ ہمارے یہاں آج بھی بھٹو زندہ ہے۔ اور ہم آج بھی شریف فیملی کو بے قصور اور پاکستان آرمی کو اس ملک کا خیرخواہ اور اپنے لیے نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔

اس لیے بی ۔ ڈسرائیلی کا یہ مقولہ ہم پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے کہ ہم کسی نہ کسی نظام یا ادارے کے غلام ہو کر آدمی اور اس کی اہمیت کو بھلا بیٹھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری مرکزی حکومت بہت سی بنیادی کمزوریوں کی حامل ہے۔گویا مرکزی حکومت اکثریت کی حکومت کے بجائےچوں چوں کا مُربہ ہے۔ اس کا مطلب کہ ڈسرائیلی نے جس کی طرف اشارہ کیا ہے اور جس کا منطقی نتیجہ آمریت اور دوست نوازی کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا جو بذاتِ خود حرص و ہوس، جاہ طلبی اور تعصب و تنگ نظری کا دوسرا نام ہے۔ اس بات سے یہی ثابت ہوتا ہےکہ ہمارے عوام میدانِ سیاست میں طفلِ نوخیز سے بھی ماند نہیں ہیں اور ابھی انہیں جمہوریت کا شعور بھی نہیں ہوا ہے۔ چنانچہ یہ اسی لاشعوری کا لازمی نتیجہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر آمریت کا ڈنکا بج رہا ہے۔

اس بدعت کا ہماری ملازمتوں اور سماجی زندگی کے ہر شعبہ پر جو برا اثر پڑ رہا ہے اور ہمیشہ پڑتا رہے گا، اس کا خوف ناک انجام جس مہیب صورت میں رونما ہو سکتا ہے کہ اس کے تصور سے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس مہلک بیماری کا صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے عوام کے جمہوری شعور کو بیدار کرنا، جس کے بغیر حکومت کی روش میں چاہے وہ کیسی ہی کیوں نہ ہو، کوئی تبدیلی ہونا ناممکن ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ ہماری غلامی کی تمام نشانیاں ہم میں اب بھی بدستور موجود ہیں۔ اسی لیے ہماری حکومت، ہمیں اپنی آزادی کا احساس تک نہیں ہونے دیتی۔

میرے خیال میں حکومت سے غیرمشروط وفاداری جمہوریت کے قطعاّ منافی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت سے ہر وہ مخالفت جائز ہے جس کا مقصد اس کے وقار کو بلند و بالا کرنا ہو اور جس میں غداری اور تنگ نظری کی مطلق گنجائش نہ ہو۔ حکومت کا وقار بقول مِل افراد کے وقار پر منحصر ہوتا ہے۔ اراکین کی شخصیت سے اس پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا کیونکہ بہت زیادہ رہنمائی ہماری اپنی آپ اصلاح کرنے کی صلاحیت کو سلب کر لیتی ہے اور افراد کے ساتھ ساتھ قوم کی قوم مفلوج ہو جاتی ہے۔

آج جب ہم روٹی کے ایک ٹکڑے تک کے لیے اپنے اغرا و احباب کو دھوکہ دینے، بے ایمانی، چور بازاری، نفع خوری اور رشوت ستانی کو باعثِ فخر سمجھتے ہیں اور خود غرضیوں کے پھیر میں پڑ کر اپنا بازار گرم کرنے کے لیے قومی ایوان میں آگ لگا رہے ہیں، ہمارا ایسی حکومت سے جس میں ذرا سی بھی خود غرضی ہو، اس سے یہ امید کرنا کہ وہ ہماری بہتری و اصلاح کی صورت نکال سکے گی، فریب خوردگی نہیں تو اور کیا ہے؟۔

میرے خیال میں کوئی بھی حکومت چاہے کتنی ہی زبردست کیوں نہ ہو، عوامی رجحانات سے بچ کر نہیں چل سکتی، بلکہ اسے ہر حال میں ان کی سطح پر آ کر ہی قیام نصیب ہوتا ہے۔ یہی اقتضائے فطرت ہے۔ قوم و ملت کے اجتماعی کردار کی جھلک اس کی حکومت اور اس کے قوانین میں بالواسطہ نمایاں ہوتی ہے۔ اچھی اور نیک اقوام کی حکومتیں بھی اچھی اور نیک ہوتی ہیں۔ جاہل اور بد رویہ اشخاص کی حکومت بربریت اور جہالت کی اجتماعی پیش دستی سے عبارت ہوتی ہے۔

سیموئل اسمائلس کا یہ قول بالکل صحیح ہے کہ حکومت کا نظام یا اس کے اداروں کا طریقہ کاراس کے استحکام کا اس قدر ضامن نہیں ہے جس قدر کہ اس کی رعایا کا ذاتی وقار و کردار۔ اور اسی پر اس کی قوت و شہرت اور بقا و بہبود کا انحصار ہے۔ کیونکہ اصرار سے ان افراد کے مجموعی حالات ہی مراد ہیں جن پر کسی قوم کا وجود مبنی ہو۔ پس ثقافت و تہذیب افراد قوم کے انفرادی ارتقا کا دوسرا نام ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ کردارِ ملیہ اور عوامی اخلاقی عروج و ارتقا ہی قومی ترقی کا سنگ بنیاد ہوتا ہے۔ لیکن محض قانون سازی سے افراد قوم کی کمزوریوں کا علاج کرنا ناممکن ہے۔ اس کے لیے شخصی و انفرادی زندگی کے تمام حالات کو بہتر بنانا اور سماجی ماحول کی سطح کو بلند کرنا ضروری ہے اور یہ کام اس وقت پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ عوام اپنے آپ اخلاقی معیار کو بلند کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اور حکومت حقیقی شخصی آزادی کو عملاّ تسلیم کر کے انفرادی مساعی کی معاونت نہ کرے۔

حقیقی شخصی آزادی خارجی حکومت سے بالاتر شئے ہے۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ افراد کے لیے یہ سوال اتنا اہم نہیں ہے کہ ان پر کیسے حکومت کی جاتی ہے، جتنا کہ یہ مسئلہ خود ان کا علم و عمل کسی ضابطہ کا پابند ہے۔ باالفاظ دیگر آزادی ایک داخلی عزم راسخ سے عبارت ہے۔ پس اگر جمہوری عوام حرص و ہوس ، خود غرضی و بد اعمالی کے غلام نہ ہوں تو حکومت کو بدل دینا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ مگر ان تمام برائیوں کے ہوتے ہوئے کسی کو نہ کبھی آزادی ملی ہے اور نہ مل سکتی ہے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سیاسی آزادی کے حصول کے باوجود ہمارا جمہوری شعور ہنوز خفتہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم صرف نعروں اور اداروں کے غلام ہیں، جو پست ذہنیت کا بدترین ثبوت ہے۔ بہرحال جمہوری شعور کے بغیر ہماری آزادی راعیوں اور اداروں کی تبدیلی کے سوا اور کچھ اہمیت نہیں رکھتی اور وہ آزادی جو صرف حکومت کے دامن سے وابستہ ہو، محض ایک مصنوعی اور عارضی چیز ہے جس کو ہٹتے کتنی دیر لگتی ہے؟۔ حقیقی آزادی کا سنگِ بنیاد افراد و ملت کا شخصی کردار ہے۔

بقول جون اسٹورٹ مل کہ انفرادیت کے وجود کو جبر و تشدد سے مٹانا ناممکن ہے۔ اور اسی انفرادیت کی بقا پر بقائے آزادی کا انحصار ہے۔ لیکن اس انفرادیت کی بقا کا دارومدار فرد یا افراد کی چاہے وہ کیسے ہی عظیم المرتبت کیوں نہ ہوں، پرستش پر نہیں ہے۔ شخصیت پرستی ایک ایسا موذی مرض ہے جو آزادی کی جڑیں کھوکھلی کر دیتا ہے۔ اور اقوام و افراد کی زندگی کے ہر شعبہ کو غلامی کی زنجیروں سے جکڑ دیتا ہے۔

ہم خیال افراد کے اشتراک عمل سے جماعتوں کا معرض وجود میں آنا تو ایک قدرتی بات ہے، لیکن انفرادیت کے احساس کو زندہ رکھنے کے لیے رہبر و رہنما کی محتاجی آزادی ہی کی موت نہیں بلکہ شخصیت کی خودکشی ہے۔ اور بقول وکٹر ہیوگو کہ یہ رجحان خود عوام کو فنا کی گود میں سُلا دیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مشہور آئرش محبِ وطن ولیم ڈارگن کا یہ ارشاد نہایت معنی خیز ہے کہ میں نہیں جانتا کہ وہ آزادی کیا چیز ہے جو ہمیں یہ یا وہ آدمی دلا سکتا ہے یا کوئی اپنا یا بیگانہ دے سکتا ہے۔ میں تو صرف یہی جانتا ہوں کہ آزادی اسی کا نام ہے جو ہم میں سے ہر شخص خود حاصل کر سکتا ہے۔ پس حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے ہمیں اسی آزادی کی ضرورت ہے، جس کی اُمید و حصول ہمارے اپنےقومی کردار پر منحصر ہے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply