• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • خطوط،جلسہ،عمران اور رانا ثنااللہ/حیدر جاوید سیّد

خطوط،جلسہ،عمران اور رانا ثنااللہ/حیدر جاوید سیّد

صدر عارف علوی اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہوا ہے۔ فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے طنزیہ، جھگڑے اور طعنوں بھرے خطوط تو ہم اس وقت بھی نہیں لکھتے تھے جب بچپن میں قلمی دوستی والے خطوط لکھے جاتے تھے۔

میں نے انہیں یاد کرایا کہ ایک بار انہوں نے مجھے ایک لمبا چوڑا طعنوں بھرا خط لکھا تھا۔ جواب میں کہا کیوں میں ہروقت “اپنی دکھ بھری داستان سنانا شروع کردیتا ہوں”۔

صدر اور وزیراعظم نے اپنے اپنے خطوط میں جو “کچھ” لکھا ہے اسے چھوڑیں آپ پی ٹی آئی کے نفس ناطقہ فواد حسین چودھری کا بیان پڑھیں اور جھومیں۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیاہے کہ “یہ ہفتہ (رواں ہفتہ) تاریخ کا اہم موڑ ثابت ہوگا”، وزیراعظم کا جواب بیہودہ ہے”۔

اچھا دستور کو ٹوتھ پیسٹ جتنی اہمیت نہ دینے والے عارف علوی نے اپنے خط میں کلامِ رومیؒ لکھا تھا کیا۔

لاہور میں عمران خان کا جلسہ ہوا۔ خان نے 25مارچ کی صبح سوا دس بجے اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا، کارکن دو بجے ہی مینار پاکستان پہنچ جائیں تاکہ مخالف یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ تو رات کو جلسہ کرتے ہیں۔ لیکن جلسہ رات کو ہی ہوا، لوگ کتنے تھے؟ اس سوال کے جواب میں تین دعوے ہیں، اولاً پی ڈی ایم کے حامیوں کے، دوئم پی ٹی آئی کے، سوئم پولیس اور ایجنسیوں کے۔ اللہ کا شکر ہے کہ تینوں دعوے محض “بڑیں” ہیں۔ سفید جھوٹ کہہ لیجئے۔ بندے نہ تو دو چار ہزار تھے نہ لاکھوں میں نہ پولیس وغیرہ کے بقول 17-12ہزار۔

بہرحال روشنیوں سے بھرے ماحول میں اچھا جلسہ تھا۔ پانچ ہزار کرسیوں پر پچاس ہزار لوگ بٹھالیں یا تین سے پانچ لاکھ کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑسکتا۔ تقریر حسب سابق تھی۔ اوئے، توئے، میرے بعد اندھیرا ہے، نہیں ہے تو وہ چاند سورج دیکھائو جن سے روشنی کراو گے۔ اس جلسہ کی سب سے قابل مذمت بات پی ٹی آئی کی چند مخالف خاتون سیاستدانوں کے خلاف نمایاں کئے گئے وہ پلے کارڈز جن پر لکھے ہوئے جملے خان کے ہمدرد دینی جذبہ کے ساتھ آگے بڑھاتے ہیں۔ بہرحال جلسہ میں لوگ تھے کتنے تھے؟ یہ بحث تب ہو جب جلسہ “مخصوص” انتظامات کے بغیر دن کی روشنی میں ہوگا۔

معاف کیجئے گا تمہید چند سطور زیادہ لے گئی آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ خان نے جو دس نکات اپنی پالیسی یا ترجیحاتِ مستقبل کے حوالے سے بیان فرمائے ہیں وہ خوابوں بلکہ سرابوں کی پرچون فروشی کے سوا کچھ نہیں۔ ساڑھے تین سال وزیراعظم رہے ان 10نکات میں سے ایک دو تین کتنے نکات پر ترجیحاً عمل کیا، کیا تو نتیجہ؟

چلیں آگے بڑھتے ہیں جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں عمران خان اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر ضمانتوں کی درخواستوں کے لئے پہنچے ہوئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ٹرائل کورٹ (متعلقہ عدالت) سے رجوع کئے بغیر ہائیکورٹ میں درخواست ضمانت وہ بھی آج 28مارچ کو دائر کرنے کا “انعام” کیا ملتا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر پولیس نے عمران خان کے ذاتی فوٹوگرافر سمیت چند کارکنوں کو حراست میں لیا ہے تادم تحریر ان گرفتاریوں کی وجہ نہیں بتائی گئی۔

اب کچھ مزید باتیں ابتدائی سطور میں عرض کئے خطوط کے تبادلے پر۔ وزیراعظم نے جوابی خط میں اگر درست زبان استعمال نہیں کی تو صدر مملکت کا خط بھی صدر مملکت کا نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے کسی آفس سیکرٹری کا خط ہی تھا۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ صدر کے جن غیرآئینی کاموں کی وزیراعظم نے نشاندہی کی اس کا پوائنٹ ٹو پوائنٹ جواب دیا جاتا پی ٹی آئی کی جانب سے تو بہتر تھا۔

صدر اپنے اختیارات سے ایک سے زائد بار تجاوز کرتے دیکھائی دیئے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے لئے ان کی جانب سے الیکشن کے لئے دی گئی تاریخ کو سپریم کورٹ بھی نادرست عمل قرار دے چکی ان کا وکیل معذرت کرچکا وہاں صدر پر ایک بڑا الزام یہ ہے کہ وہ صدر مملکت کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے۔

ایوان صدر کوپی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ بنایا اور خود عمران خان کے رابطہ افسر کے طور پر فرائض ادا کرتے ہیں۔ کسی زمانے میں آصف علی زرداری کی اس طرح کی سرگرمیوں پر ایک ادارے کی ایک صوبائی برانچ کو بڑی غیرت آئی تھی آجکل غیرت آرام کررہی ہے اس کی جگہ فیملی کی پسندوناپسند نے لے لی ہے۔

فیملی کی پسندوناپسند پر ہوتے فیصلوں کی بازگشت سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی صحافی شاہد میتلا کے ساتھ ملاقات میں ہوئی گفتگو سے سنائی دی۔ پھر باجوہ کی تردید آگئی۔

اب تک باجوہ کے تین اس طرح کے انٹرویو مارکیٹ ہوئے اور تردیدیں بھی مارکیٹ میں آئیں۔ ویسے یہ طریقہ اچھا ہے پہلے “پکے منہ” سب کچھ کہہ دو پھر “پوپلے منہ” تردید کردو۔ جنرل باجوہ کی اب تک کی جتنی گفتگو (انٹرویوز) سامنے آئی ہے اصولی پر اس پر ان کے خلاف مقدمہ بنتا ہے، کیونکہ ریٹائرمنٹ کے دو سال تک وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے یا مدت ملازمت کے معاملات اور سیاسی “پھڑیوں” پر شیخیاں مارنے کے مجاز نہیں۔ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے قوانین کی خلاف ورزی کی درست یہی ہوگا کہ ان کے خلاف کارروائی ہو اور اگر نجی گفتگو کو انٹرویو کا رنگ دینے والے صحافیوں کا دعویٰ درست نہیں (جیسا کہ باجوہ کہہ رہے ہیں) تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے۔

کالم کے اس حصے میں وفاقی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے ایک ٹی وی انٹرویو پر بات کرلیتے ہیں۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ “جب تک عمران خان موجود ہے ملک میں سکون نہیں آسکتا، اپنے وجود کی نفی محسوس ہوئی تو اصول اور جمہوریت کی بات ختم۔ پھر عمران خان رہیں گے یا ہم۔ ہم ہر حد تک جائیں گے، رانا ثناء اللہ نے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ (ن) لیگ کے رہنمائوں کے خلاف مقدمات میں برابر کے شریک رہے۔ یہ بھی کہا کہ عمران نے سیاست کو دشمنی بنادیا ہے ہم نے بھی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں”۔

عمران خان کی نفرت بھری سیاست کا ناقد ہونے کے باوجود مجھے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے موقف سے اتفاق نہیں۔ ویسے تو عمران خان کو بھی یہی زبان سمجھ میں آتی ہے۔ رانا ثناء اللہ وفاقی وزیر داخلہ ہیں، عمران خان جن افراد پر وزیرآباد والے مبینہ قاتلانہ حملے کا الزام لگاچکے ان میں وہ بھی شامل ہیں۔ چند دن قبل وہ ایک ٹی وی پروگرام میں کہہ رہے تھے بیرونی ایجنسیاں پاکستان کے حالات سے فائدہ اٹھاسکتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے سخت لب و لہجہ میں وہ باتیں کیوں کہیں جو کسی انہونی کی صورت میں ان کی گردن کا شکنجہ بن سکتی ہیں؟

کیا رانا ثناء اللہ کے ذہن میں ماڈل ٹائون جیسے کسی نئے واقعہ کے لئے کوئی منصوبہ ہے۔ “ہر حد سے گزر سکتے ہیں” کا کیا مطلب لیا جائے۔ “وہ رہے گا یا ہم” یہ کیا بات ہوئی۔ یہ تو ویسی ہی عدم برداشت ہے جس کی وجہ سے عمران خان تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔

لگی لپٹی کے بغیر یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ اولاً رانا ثناء اللہ کو اس غیرمحتاط گفتگو کے بعد اپنے منصب سے الگ ہوجانا چاہیے دوسری صورت یہ ہے کہ وزیراعظم ان سے استعفیٰ لیں۔

بظاہر دونوں باتوں کا امکان نہیں ہے۔ ایک طرح سے اس قسم کی “کھلی” گفتگو کی نوبت آنی ہی تھی۔ تحریک انصاف کی قیادت نے سیاسی اختلافات کو نفرت کا جو ٹچ دیا ہے جوابی طور پر دوسرے بھی زبان دانی کریں گے۔ رویہ اور زبان دانی دونوں کی درست نہیں۔

عمران خان کی مخالفین کے خلاف نفرت بھی سیاست کا رزق ایجنسیوں کی فراہم کردہ معلومات اورسکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی عمل بارے عزائم کی حقیقت کے سوا کچھ نہیں۔ اب جبکہ وہ خود کو سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے مخالف کے طور پر پیش کرتے ہیں تو پھر انہیں ماضی کے انداز تکلم اور زہر دونوں سے جان چھڑانی چاہیے لیکن وہ آج بھی اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں اکتوبر 2011ء میں کھڑے تھے۔

اپنے سوا وہ کسی کو انسان سمجھنے کو بھی تیار نہیں۔ وہ اٹھتے بیٹھتے اپنی دیانت کا راگ الاپتے ہیں جبکہ وہ ذاتی زندگی میں کبھی بھی دیانتدار نہیں رہے۔ کھیل کا میدان ہو، فنڈ ریزنگ کا عمل، سیاست کے لئے فنڈ ریزنگ، بطور وزیراعظم ان کی بے ضابطگیاں، دامن ان کا بھی داغدار ہے۔

وہ اپنے حامیوں کے لئے فرشتہ صفت ہوں گے، دیانتدار اور سچے بھی ورنہ یہ تینوں چیزیں انہیں چھوکر بھی نہیں گزریں۔ بہرحال اس پر دو آراء نہیں کہ رانا ثناء اللہ نے انٹرویو میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ صرف نادرست نہیں بلکہ قابل مذمت اور قابل گرفت بھی ہیں کم از کم میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ “آگ ہے دونوں طرف برابر لگی ہوئی”۔

Advertisements
julia rana solicitors

سیاسی عمل کا حسن یہی ہے کہ اگر ایک بندہ یا جماعت مفاہمت، سماجی روایات، اقدار اور اخلاقیات کو تج دینے پر تلے بھی ہوں تو دوسرے فریق تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ وزیر داخلہ کو اپنی کہی باتوں سے رجوع کرنا چاہیے یہی مناسب ہوگا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply