خدا پرستوں کا لاینحل مخمصہ/سعید ابراہیم

بلاشبہ ہر سچے خدا پرست کا یہ یقین قابلِ تسلیم کہ اس کی سوچ کے مطابق کوئی خدا ہے جو وجود رکھتا ہے ۔ جبکہ یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ اسے وہ اپنی سوچ سے باہر ثابت نہیں کر پاتا۔ سو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اصل معاملہ خدا کے ہونے کا نہیں بلکہ اس کے ہونے کے یقین کا ہے۔

اب ایک ستم ظریفانہ معاملہ یہ ہے کہ خدا کے تصور پر مطلق حد تک یقین کے باوجود جب تصورِ خدا کو ڈیفائن کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو کوئی بھی خدا پرست مخمصے کے ایک ایسے دائرے میں پھنس کر رہ جاتا ہے جہاں سے کوشش کے باوجود باہر نکلنا ممکن نہیں رہتا۔

اب اگر اس سے یہ پوچھا جائے کہ کیا خدا کا علم مطلق ہے؟ (یعنی خدا مطلق حد تک علیم و خبیر ہے؟)کیا وہ ازل سے ابد تک ہونے والی چھوٹی سے جھوٹی بات سے بھی آگاہی رکھتا ہے؟ کیا دنیا اور کائنات میں وقوع پذیر ہونے والی کوئی بھی تبدیلی اس کی مرضی کے بغیر ممکن ہوسکتی ہے؟

ان سب سوالوں کے جواب میں یقیناً یہی جواب ملے گا کہ وہ نہ صرف ہمہ وقت ہر جگہ حاضر و ناظر ہے اور یہ بھی وہ ہر بات پر قادر ہےاور دنیا اور کائنات میں وقوع پذیر ہونے والی کوئی بھی تبدیلی  اس کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خدا ازل سے ہی یہ بات جانتا ہےکہ ابد تک کیا کیا ہونے والا ہے تو یقیناً اس سے یہی بات ذہن میں آتی ہے کہ دنیا اور کائنات میں ہونے والاکوئی بھی عمل مکمل تفصیل کے ساتھ کائنات کے وجود پذیر ہونے سے پہلے ہی طے ہوچکا اور یہ سب کچھ طے کرنے والا یقیناً صرف اور صرف خدا ہے۔

اب اگر کوئی خدا کے اس طے شدہ منصوبے کو ماننے کے باوجود یہ کہے کہ اس کائنات میں کوئی ذی روح ایسے بھی ہیں جو اپنی مرضی سے کچھ بھی ایسا کرسکتے ہیں جس کی نوعیت نہ صرف شر کی ہے بلکہ وہ عمل خدا کا اس قدر ناپسندیدہ ہے کہ اس کی سزا بھی ملے گی تو تسلیم کرنے پڑے گا کہ خدا کو پہلے سے اس ذی روح سے سرزد ہونے والے اس عمل کا علم ہی نہیں تھا۔ اور یوں خدا کو مطلق طور پر علیم و خبیر ماننا ممکن نہیں رہے گا۔

یہی وہ مقام ہے جہاں خدا کو مطلق العنان اور مطلق طور پر علیم و خبیر ماننے والاایک ایسے مخمصے میں پھنس جاتا ہے جس میں سے وہ کوشش کے باجود باہر نہیں نکل پاتا۔

اب جیسے کہ شیطان کی کہانی ہے جو انتہائی برگزیدہ ہوتے ہوئے حکم عدولی پر اتر آیا۔ یہاں سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیا خدا کو پہلے سے معلوم تھا کہ شیطان ایک خاص وقت پر ایسا کرے گا۔ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو پھر یہ مانے بنا کوئی چارہ نہیں شیطان کا یہ عمل نہ صرف پہلے سے طے شدہ تھا بلکہ خدا کے علم میں بھی تھا کہ ہر بات پر قادر بھی ہے اور علیم و خبیر بھی۔ گویا ہم شیطان کو خدا کی کٹھ پتلی ماننے پر مجبور ہوں گے۔ اور اسی طرح انسان کی خود مختاری کی بات بھی افسانہ ٹھہرے گی وگرنہ خدا کا مطلق طور پر علیم و خبیر ہونا ممکن نہیں رہے گا۔

اب یہاں تصورِ خدا کا دفاع کرنے والے احباب ایک گھسی پٹی مگر ناقص دلیل لے آئیں گے اور بتائیں گے کہ جیسے کوئی ٹیچر اپنے طلباء کی صلاحیتوں کی بنیاد پر پہلے سے یہ بتادیتا ہے کہ امتحان میں کون سا بچہ کامیاب ہوگا اور کون سا فیل۔ اسی طرح خدا کو بھی انسانوں کے بارے میں پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ وہ مستقبل میں کیا کریں گے۔

یہ دلیل کئی حوالوں سے ناقص ہے۔ پہلی بات یہ کہ ٹیچر طلبہ کے بارے میں صرف اندازہ لگاتا ہے مگر یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ ٹھیک ٹھیک کتنے نمبر حاصل کرے گا۔ اور پھر یہ بھی ممکن ہے  کہ کوئی نالائق بچہ آخری دنوں میں محنت کرکے ٹیچر کے اس اندازے کو غلط ثابت کردے جبکہ لائق فائق بچہ کسی حادثے کی وجہ سے امتحان میں ہی نہ بیٹھ سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جیسا کہ ہمارا تجربہ ہے کہ انسان سے زیادہ ان پریڈکٹڈ مخلوق اور کوئی نہیں۔ یہاں کب ایک سادھ چور بن جائے اور کب کوئی ڈکیت نیک بن جائے۔ سو انسان کا خودمختار ہونا خدا کو مطلق علیم و خبیر نہیں رہنے دے گا۔ خدا کا مطلق طور پر علیم خبیر ہونا تبھی ممکن ہوگا جب انسان کے ایک ایک عمل کو پہلے سے باریک سے باریک تفصیل کے ساتھ خدا کی جانب سے طے شدہ مان لیا جائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply