وزیراعظم کے نام ایک مقامی سیاح کا خط۔۔۔۔۔عرفان شہود

آداب۔

اپنی پہلی تقریر سے ہی جن مسائل کی نشاندہی آپ نے کی ہے وہ یقینا ً ٹھوس اقدامات کے متقاضی ہیں۔یہ بات باعثِ مسرت بھی ہےکہ اکہتر برس بعد ہی سہی کسی سربراہ مملکت نے انسانوں کے بنیادی حقوق کے علاوہ بھی کسی مسئلے کو ویلیو ایبل سمجھا ہے۔جس میں ماحولیات، سیاحت،جانوروں کی دیکھ بھال اور آبی ڈیم جیسے بنیادی مسائل شامل ہیں۔اگرچہ ان مسائلستان کے پربت سے جوئے شیر لانا ایک کارِ اذیت ہےمگر کسی نے تو پہل کی ہے۔ایک بات جو عموماََ مشاہدے میں آئی ہے کہ پاکستان ایک طرف فطری جمالیات کی دولت سے مالا مال ہے تو دوسری طرف تاریخی مقامات کے بے پناہ ذخائر موجود ہیں ۔جن کو قومی ورثہ قرار دینے کی بجائے مسمار ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔اور خاص، طور پر اندرونِ سندھ ہندوؤں اور دیگر قوموں کی تہذیب، بلوچستان میں ساحلی علاقوں، دشت کی رنگین شاموں اور تاریخی حصوں کی دلکش یادیں اور پنجاب کے مضافات میں خالصہ راج اور باہری جنگجووں کی باقیات موجود ہیں۔کم از کم جن کو از سرِ نو مرمت کر کے لائبریری یا وزٹنگ سائٹس قرار دے کر لوگوں کے لیے باعثِ سیاحت بنایا جا سکتا ہے۔

آپ نے اپنی تقریر میں شمالی علاقہ جات کو مرکزی اہمیت دی ہے جس میں نئے راستے اور عوامی سہولیات کی بات کی گئی ہے۔یہ ایک احسن اقدام ہے مگر گرمیوں کے آٹھ مہینے تو لوگ ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں مگر سردیوں کے چار مہینے سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے مضافاتی حُسن اور تاریخی خدوخال سے لبریز عمارتوں اور قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ان عمارتوں کو لائبریریاں بنایا جا سکتا ہے تاکہ مسلسل سیاح یا پڑھنے لکھنے کے دلدادہ افراد کی آمدورفت یقینی بنائی جا سکے۔اور دوسرا فائدہ اسکولوں اور کالج کی سطح کے طالب علموں کو سیاحتی دوروں سے ان کو اس خطے کی تاریخی اہمیت سے استفادہ حاصل کرنے کا موقع مل جاے گااور وہ لوگ جو معیشت کے گرداب میں پھنس کر سیاحت نہ کر سکیں وہ اپنے قریبی مقامات سے تشنگی حاصل کر سکتے ہیں ۔پھر دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرکے درست متوازن اسلامی پرچار بھی کیا جا سکے گا ۔اور آئندہ نسلوں کے ذہنوں میں ایک بیلنس سوچ کی آبیاری کی جا سکتی ہے۔اپنے مقامی ہیروز کی یادگاریں بنائی جائیں اور ان کی بہادری کو سراہا جائے۔اسی طرح مقامی علماء کرام،سیاستدان، تاجروں ،انتظامیہ اور اساتذۂ کرام کو ان علاقوں کی تشہیر کے لیے سیمینار، محفلیں اور اکٹھ میں سیاحتی مقامات، گلوبل وارمنگ اور حیاتیاتی تنوع کے بارے میں کھل کر بات کرنے کی بابت درخواست کی جانی چاہیے۔

پشتو میں ایک کہاوت بہت مشہور ہے ” ہر چہ اخپل وطن کشمیر دے”
ہر کسی کا وطن اس کے لیے کشمیر ہی ہوتا ہے۔

تو ان صوبوں میں بھی ہر شہر یا ضلع بھر میں کچھ ٹریول گائیڈ رکھے جائیں جو مقامی اور باہر سے آنے والوں کو بنیادی مدد یا راستہ اور تاریخ سے آگاہ کریں۔اور سرکٹ ہاؤس یا سرکاری عمارتوں میں مختص کمروں میں رہائش کا بندوبست کرے۔یا پرانے اداروں کو فعال کیا جائے ۔مگر وہ ایجنٹ اپنے علاقے کے درختوں کی اقسام، قدیم عمارتوں اور مشہور چیزوں سے پوری طرح واقف بھی ہو،جو سیاحوں کو پمفلٹ یا تصاویری نمائش سے اس علاقے کی افادیت کو نمایاں کریں۔اور ان صوبوں سے جگہوں کی تفصیل لینا بھی آسان ہو جائے گی۔اور ریونیو بھی اکٹھا ہو سکے گا ۔
اسی طرح ماحولیات کے لیے ریلوے ٹریک کے ساتھ ساتھ مقامی پودوں کے بیج اور تمام شہروں اور مضافات کی مرکزی شاہراہوں پر پودے لگانے کی اہمیت کو بھی بھرپور مہم کے ذریعے اجاگر کیا جانا چاہیے۔
پھر جانوروں کی حفاظت کے لیے ویٹرنری وین اور سٹریٹ اینملز کے لیے خوراک کے مناسب انتظامات کرنے چاہیئے ۔
جناب وزیراعظم پاکستان
آپ سے امید ہے کہ ان گزارشات کر مدنظر رکھ کر کوئی پالیسی یا قانون سازی کے لیے پیش رفت کی جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک مقامی سیاح!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply