گنجیاں توں اجنبی ہویا لہور/عامر حسینی

لاہور شہر کی پرانی فصیل کے اندر ہر دوسری، تیسری سڑک اور گلیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، میں پرانی انار کلی سے نیلا گنبد کے راستے اندر ہی اندر مختلف سڑکوں اور بغلی راستوں سے ہوتا ہوا جب سرکلر ریلوے روڈ اور اس کے اردگرد کی گلیوں اور چھوٹی موٹی سڑکوں سے ہوتا ہوا جب ریلوے اسٹیشن لاہور پہنچا تو مجھے یہ یقین ہوگیا تھا کہ لاہور کے اندرون اگر اسے ہم کہہ سکیں تو عام آدمی کے لیے نہ اچھی سڑک ہے نہ بہتر گلی ہے، نہ بہتر سیوریج کا، نہ ہی پینے کے  صاف پانی کی سہولت ہے۔

میں اس دوران اہم اور معروف بازاروں میں بڑے شاپنگ سنٹرز اور غیر معروف چھوٹے بازاروں سے گزرا، اس دوران لوگ راستوں کے بند ہونے پر جھنجھلائے ہوئے اور غصے میں لگ رہے تھے، میرے اپنے اندازے اور توقع کے برعکس اکثر و بیشتراُس روز “عمران خان” کو بُرا بھلا کہنے کی بجائے انتظامیہ اور بیچ بیچ میں حکومت پر غصہ ہورہے تھے، میں نے پرانی انار کلی اور ہال روڈ وغیرہ سے کچھ سامان خریدا، اس دوران جن سے سامان خرید کیا یا بھاؤ تاؤ کیا وہاں تاجروں سے اور سیلز مین لڑکوں (ظاہر ہے دونوں کا سماجی معاشی پس منظر الگ الگ تھا) سے یونہی ایک بالکل عام سے انداز میں راستوں کی بندش پر تبصرہ کرتے ہوئے جب یہ کہا “عمران خان کو اقتدار کا لالچ اسقدر ہے کہ رمضان میں بھی اسے جلسے جلوسوں کی پڑی ہے لوگوں کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے، تو میری توقع کے برعکس ایک دو کے سوا سب نے کہا کہ عمران خان کا اس میں کیا قصور ہے راستے بند تو حکومت کررہی ہے۔ ۔ بلکہ اس دوران بیچارا عمران خان۔۔۔ سے بات کا آغاز کیا گیا، جبکہ سیلزمین نوجوان تو ایسا لگتا تھا میرے گلے پڑجائیں گے۔ ۔

پُرانی انار کلی میں ایک ایک جگہ ایک نان بائی کی دُکان ہوا کرتی تھی جو کٹر جیالا تھا اور اُس نے دیواروں پر بھٹو، نصرت بھٹو و بے نظیر بھٹو کی تصویریں لگا رکھی تھیں، اُس سے میری بڑی شناسائی تھی ، میں وہاں گیا تو نقشہ ہی بدلا ہوا تھا اب اُس دکان کی جگہ بڑا شاندار ریستوران بن چکا ہے اور   اُس نانبائی جیالے کے بیٹے وہ ریستوران چلارہے ہیں، میں نے نانبائی بابے کا پتا کیا تو معلوم پڑا بابا جی تو آنجہانی ہوگئے، جس شیشے کے کیبن میں اُس کا ایک بیٹا دفتر بناکر بیٹھا تھا وہاں پر عمران خان کے ساتھ اُس کے بیٹے کی تصویری لگی ہوئی تھیں اور تھوڑی سی گفتگو نے مجھے باور کرایا کہ عمران خان پر تنقیدی نظر ڈالنے سے فدوی کو “نقصان” ہوسکتا ہے-“والد ہوری آپ تے گھربت دے انھیرے اچ جیندے رئے تے سانوں وی رول دِتا، ایس زرداری کن۔ ۔۔ (نقل کرنے کی ہمت نہیں) ساڈی مصوم شہید بی بی نوں بلیک میل کیتی رکھیا تاں تے ایہہ دوجے کنجر نازو بھگوڑے دے تھلے لگیا ہویا اے، ساڈے پیو تے جیس کنجر نے جھوٹے مقدمے تے جیل مسلط کیتی اوس کنجر دے نال ایہہ یاریاں لائی بیٹھے نیں۔ ۔۔ عمران خان اینوں نوں للکار تے ریا اے تے لاہور دی جان وی او ای گنجیاں توں چھڈائے  گا۔

جلسے سے اگلی   رات قریب 9 بجے میں جوہر ٹاؤن میں ایک چوک پر کھڑا زوہیب بخاری کے آنے کا منتظر تھا اور میرے عقب میں ایک دہی بھلے والی کا ٹھیلا تھا جہاں پر نوجوان اور ذرا درمیانی عمر کے درجن بھر سے زیادہ لوگ کھڑے تھے اور تین تین چار چار کی ٹولیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ بلند آواز سے گپ شپ لگارہے تھے اُن میں دو تین آوازیں نواز لیگ کی تھیں باقی سب عمران خان کی سپورٹ میں بلند ہورہی تھیں ۔ اندرون اور بیرون لاہور میں یہ مناظر کم از کم میری توقع کے بالکل برعکس ہیں۔

پرسوں رات کو میرے چند دوست جن کا تعلق اوکاڑا شہر سے ہے اور میں اپنے ننھیال کی وجہ سے ان دوستوں کے گھرانوں کو بچپن سے جانتا ہوں کہ وہ پی پی پی کے سدا بہار جیالوں کے گھر کہلاتے ہیں اتفاق سے مجھے پینوراما سنٹر کے پاس مل گئے یہ سب کے سب زمان پارک میں عمران خان کا گھر بچانے آئے ہوئے ہیں ۔  کیا ستم ظریفی تھی کہ وہ سب کے سب پی ٹی آئی کے سپورٹر اور ووٹر بن چکے تھے ۔ پتا چلا کہ وہ سب اپنے اپنے والد کی مخالفت کررہے تھے اور اُن کی مائیں ہماری آنٹیاں بھی اُن کے ساتھ تھیں۔  (یقین نہیں آتا نانی حاجرہ – نانا شیخ جیجو دی بیوہ ،مامی پینوں /پروین مامے شیخ سادے دی گھر آلی (میرے نانا، نانی، ماموں، ممانی کے یہ محلے دار تھے تو ہم ان کو بھی نانا، نانی، ماما، مامی کہتے تھے) ان میں ایک نوجوان شیخ عمران عُرف مَنَّا بڑا جذباتی ہورہا تھا عمران خان کے لیے جس کا والد شیخ صادق عُرف سادا، جنھیں ہم سب ماما سادا کہتے تھے حق بازار میں کپڑے کی دکان کیا کرتے تھے اور اُن کے والد یعنی عمران کے دادا شیخ عزیز عرف شیخ جیجو پی پی پی کے بانی رکن پہلے راؤ فرمان علی ایم این اے پی پی پی اوکاڑا (1970ء) اورپھر راؤ سکندر اقبال کے رتنوں میں شمار ہوتے تھے، اب اُن کا گھر سارے کا سارا سوائے مامے سادے نو‌ں چھڈ کے پی ٹی آئی دا ووٹر سپورٹ بنیا ہویا سی۔۔۔۔۔ شیخ عمران نے جذباتی ہوکر کہا،
“عَامَر(پنجابی لہجے اچ میم مکسور دی بجائے مفتوح مطبل میم اوتے زبر پاکے بولدے نئیں تے ایویں لگدا اے جیویں آمَر کہندے ہون اگرچہ ایتھے وی میم مکسور ای ہو دا اے ناکہ مفتوح) تینوں اوکاڑا آئے واوا ویلھا ہوگیا اے، توں شاہر آویں گا تے تینوں پتا لگے گا کہ ترے آنے ننھیالی رشتے داراں دے گھراں اچوں کنے پی ٹی آئی دے سپورٹ نیں۔  نانے اکبر دے پتراں دا پتا لیا ای؟ اللہ بخشے مامے وسیم دی اولاد وی ساڈے نال کھڑی اے، گزریا الیکشن اچ آساں کٹھے کمپئن کیتی تے پولنگ بھگتائی  تے اَگلی قیامت دی نشانی آلی گَل وی سُن، شیخ مُبارک(کٹر ضیاء الحقی تے نواز شریف دے حامی) تے میاں منیر( نواز لیگ کا ستون) دے پوترے پوتریاں تے میاں زمان(سابق ایم این اے نواز لیگ) دا آدھے تو زیادہ خاندان پی ٹی آئی نوں سپورٹ کردا اے، اونھاں دے نوجوان کُڑیاں تے منڈیاں نے آپنے بزرگاں نوں ڈنڈا چاڑ دتا سی ہن چوں چاں وی نئیں کردے۔۔۔۔۔ میاں زمان دے کزن دا اک پوترا ممی ڈیڈی جیہا آرائیں منڈا چھیما(اسلم) پولنگ آلے دن آپنے لیگی رشتے داراں نوں اُڈ اُڈ کے پئے ریا سی، مینوں تے 88ء، 90ء، 97ء دے چناؤ دیاں یاداں آریاں سن جدوں ایہہ آرائیں چودھری تے میاں آڑھتیاں دے گھراں دا وَس نییں چلدا سی ایہہ پی پلیاں نوں کچا ای چبا جاندے۔۔۔۔۔۔ ہُن اوس کنجر گنجے بھین چ۔۔۔۔۔۔ نوں اونھاں گھراں دے منڈے گالہاں کڈدے نئیں تھکدے۔۔ ۔ ساڈی بی بی شہید دی حکمرانی نوں مولبیاں توں غیر شری (پنجابی حرف عین دی آواج کھا جاندے نیں) آکھان آلا گنجا چور ٹبر دا مہا ڈکیت نازو کنجر نے ہُن گشتی رَن نوں اگے ٹور چھڈیا اے۔  ہن عورت دی حکمرانی دے غیر شری ہوون دا کسے نوں کھیال نئیں آندا۔ ”

میں نے کہا” یار مَنے (عمران کا عُرفی نام) اینج اوس عورت نوں گالہاں تے نہ کڈھ۔۔۔۔۔ فیر تہاڈے اچ تے نواز لیگ آلیاں اچ کیہ فرق رہ جانا اے؟ (میں نے شرارت کی)
“ایک سابق جیالے یوتھیے اور خالص یوتھیے میں کچھ تو فرق کریں، حضور” میں نے نستعلیق اردو کا لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا!

مجھے پتا تھا یہ اُس کی چھیڑ ہے، وہ توقع کے مطابق ہتھے سے اکھڑ گیا”تری اردو دانی دی  (بَس بھئی بس اب تک میرے کانوں سے دھواں نکل رہا ہے) لوڑو! تہاڈی تے ساڈے جیالے بزرگاں دی شرافت تے زنانیاں ورگی سیاست نیں اونھاں گنجے کنجراں، بھین۔۔۔۔۔ دی ہمتاں ودھائیاں سی تد ای ایہہ ح دے جنے بدمعاشی کردے رئے۔۔۔۔ ہن آساں ٹکرے نئیں اناں نوں۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

بات بہت لمبی ہوگئی میں اب تک حیران ہوں کہ اس کایا کَلپ پر کہ درمیانے طبقے کے تاجر اور نوکری پیشہ پرتوں سے شمالی پنجاب میں پیپلزپارٹی کے کٹر جیالوں اور نواز لیگ کے متوالوں کی دوسری اور تیسری نسل پنجاب میں پی ٹی آئی اور عمران خان کی اندھی مقلد ہی نہیں بلکہ غیرسیاسی اربن چیٹرنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے قریب قریب اجڈ اور جاہلانہ انداز رکھنے والے نوجوانوں (سارے نہیں) کی طرح کی نفسیات کیسے رکھتے ہیں؟ جبکہ یہ سابق جیالے یا اُن کی اولاد کم از کم بھٹو سے لیکر بے نظیر بھٹو پر وہ جاہلانہ الزامات نہیں لگاتی جو خالص یوتھیا لگائے چلا جاتا ہے۔
ابھی یہ سطور لکھ رہا تھا تب ہوٹل کا بیرا استری شدہ کپڑے لیکر آیا، یہ مصری شاہ کا رہنے والا ہے، میں نے اُس سے پوچھا، “امتیاز! کس کی حمایت کرتے ہو؟” تو کہنے لگا “اَمرَان کھان دی”
“نواز لیگ دی کیوں نی کردے؟”
میں نے پھر پوچھا تو کہنے لگا،
“پہلاں کردے سی، ہن نیئں کردے،جدوں دے آئے نییں مگھائی دی اخیر جے”
(یہ ایک مشاہدے اور گنتی کے چند مکالموں سے پیدا تاثر ہے یہ غلط بھی ہوسکتا ہے)

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply