مہنگائی میں ہوشربا اضافہ۔۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

کسی بھی ریاست میں معیشت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ مضبوط معیشت اس ریاست کے استحکام کی ضامن سمجھی جاتی ہے۔ ملکی معیشت جتنی کمزور ہو گی مہنگائی اور دیگر مسائل اسی قدرزیادہ ہوں گے۔ موجودہ حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے دیگر بے شمار چیلنجز کیساتھ سب سے بڑا چیلنج کمزور معیشت بھی ہے۔ معیشت کو وقتی طور پر سنبھالا دینے کیلئے موجودہ حکومت کے پاس بھی آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

گزشتہ دنوں پاکستان کو ائی ایم ایف سے 69 ارب روپے کی دوسری قسط ملی ہے۔ چنانچہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق معاشی پالیسیاں ترتیب دینا حکومت کی مجبوری ہوتی ہے۔ کیونکہ جب کوئی بھی ملک آئی ایم ایف سے قرض لیتے ہیں تو اسکی معاشی پالیسیز بھی آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع ہوتی ہیں اور مقروض ملک کی اپنی مرضی محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس سال کے دوران بجلی کی قیمتوں میں بار بار اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی کے دور میں گیس کے نرخوں میں 55 فیصد تک اضافہ کیا گیا اور بجلی کی قیمتوں میں متعدد بار اضافہ کیا گیا, جس سے صارفین پر 570 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں ایک روپے چھپن پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دے دی جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ اس اضافے سے بجلی صارفین پر 14 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ چیئرمین نیپرا نے انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں جب سے آیا ہوں بجلی کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ کیا سی پی پی اے کبھی بجلی کی قیمتوں میں کمی کی درخواست بھی کرے گا۔ انھوں نے برملا اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ہم مسلسل صارفین کو دبائے جا رہے ہیں کہ وہ سانس ہی نہ لے سکیں۔ اس بات میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ بجلی کی قیمتیں پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، اوپر سے ان میں ایک تواتر کے ساتھ مزید اضافہ کیا جا رہا ہے۔اس کی دوسری بڑی وجہ گزشتہ حکومتوں کی طرف سے دی گئی سبسڈی جو کہ خسارے کے باوجود صارفین کو دی جا رہی تھی ختم کر دی گئی ہے کیونکہ خسارہ پورا کرنے کیلئے اس کے سوا حکومت کے پاس کوئی دوسرا آپشن ہی نہیں تھا۔

دوسری طرف بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے جس کی وجہ سے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ اگر گیس کی قیمتوں کی طرف دیکھیں تو ان میں بھی بہت زیادہ اضافہ کیا جا چکا ہے جس سے صارفین بہت پریشان نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف اشیائے خورد و نوش آٹا، چینی، دالیں اور گھی کی قیمتیں بھی عوام کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے جس کی بڑی وجہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر چیک اینڈ بیلنس کا فقدان ہے۔ دراصل مہنگائی اور بیڈ گورننس بنیادی عوامی مسائل ہیں۔ حال ہی میں حکومت نے یوٹیلیٹی سٹورز کو چھ ارب کی سبسڈی دی ہے جو کہ ایک تو پورے ملک کیلئے ناکافی ہے اور دوسرا چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے ذیادہ کارگر ہوتے نظر نہیں آ رہی ہے۔ ان تمام مسائل کا وزیر اعظم پاکستان کو بھی بخوبی ادراک ہے جس کی وجہ سے انھوں نے مہنگائی سے ماری ہوئی زخم خوردہ عوام کے زخموں پر پھاہا رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے گزشتہ پندرہ روز سے مختلف جگہوں پر اپنے خطاب میں کہتے نظر آتے ہیں کہ انھیں معلوم ہے کہ عوام مشکل میں ہے۔ قوموں کی زندگی میں اچھا برا وقت آتا ہے۔ ہم مشکل وقت سے گزر رہے ہیں۔ انشاءاللہ بہت جلد ہم اس مشکل وقت سے گزر جائیں گے۔ تبدیلی کا سفر بہت کٹھن ہے۔ جب اصلاحات ہوتی ہیں تو مشکل آتی ہے۔ ملک ایک نازک اقتصادی صورتحال سے گزر رہا ہے لیکن یہ بات بھی بجا ہے کہ بہت سے معاشی مسائل موجودہ حکومت کو وراثت میں ملے ہیں۔ لیکن یہ اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ باتیں عوام زیادہ دیر تک نہیں سنیں گے۔

خان صاحب کی باتیں اپنی جگہ بجا ہیں لیکن عوام بہت پریشان ہے۔ سفید پوش طبقے کیلئے جینا محال ہے۔ ملازم طبقہ بھی مہنگائی کا رونا رو رہا ہے۔ مہنگائی ہے کہ آئے روز بڑھتی جا رہی ہے، کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ایک مڈل کلاس فیملی کیلئے اپنے وسائل میں رہتے ہوئے گھر کا بجٹ بنانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ اقتصادی اشاریے یہ بتاتے ہیں کہ ملک کو ابھی مزید کچھ عرصہ اس بحران سے نبرد آزما ہونا ہے۔ ایک بھوکے شخص سے دوسرے شخص نے پوچھا کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں۔ اس بھوکے شخص نے جواب دیا کہ چار روٹیاں۔ اس وقت ہماری حالت بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔ البتہ یہ بھی اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے کہ معیشت میں بہتری لانے کیلئے وقت درکار ہوتا ہے لہذا معیشت کے حوالے سے ابھی حکومت کو مزید کچھ وقت دیا جائے۔ اگر ٹیکس اصلاحات کی بات کی جائے تو ٹیکسز کے نظام کی بہتری کیلئے شبر زیدی کی صورت میں بلاشبہ ایک بہترین شخص کو لایا گیا ہے۔ انھوں نے ٹیکس کیلئے کچھ اصلاحات بھی کیں لیکن تاجروں کی ہڑتال کے پیش نظر وہ معاملہ بھی کھٹائی کا شکار ہو گیا۔ جس کی وجہ سے ٹیکس ریونیو کا حدف پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ لہٰذا قوی امکان ہے کہ ٹیکس احداف پورے کرنے کیلئے مزید ایسے اقدامات کرنے پڑیں جس میں عوام پر مزید ٹیکسز کا بوجھ ڈالا جائے گا جس سے لامحالہ عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔ اسی طرح صحت کے حوالے سے دیکھیں تو ادویات کی قیمتوں میں بھی بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اگرچہ ہیلتھ کارڈز بھی دئے گئے ہیں جس سے کافی غریب لوگوں کو ریلیف ملا ہے لیکن ان کارڈز پر آؤٹ ڈور کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔

بہرحال حالیہ مہنگائی کی لہر نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے۔ یہ بات تو درست ہے کہ معاشی پالیسیاں لانگ ٹرم ہوتی ہیں اور پالیسیوں کے ثمرات عوام تک پہنچنے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے لیکن بہترین سیاسی حکومتیں عوام کو ریلیف دینے کیلئے ساتھ ساتھ کچھ شارٹ ٹرم پالیسیز بھی بناتی ہیں جن کا تاحال عملی طور پر فقدان نظر آ رہا ہے۔ اس کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے حکومت پر عوام کے اعتماد میں کمی آئی ہے۔ لہٰذا اس عفریت کو قابو کرنے کیلئے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ مہنگائی سے ماری عوام کو کسی حد تک ریلیف مل سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply