ریاستِ مدینہ۔۔۔نصیر اللہ خان

ازکارِ رفتہ سے جڑی ہماری  تمام سوچیں ایک ایک کرکے ختم ہوئی ہیں۔ اب ریاست ِ مدینہ کی  طرف دیکھنا  فساد کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یوں ریاست مدینہ کے خواب خیالات میں تبدیل ہوکر چکنا چور ہوئے۔خلافت کا نظام دھندلا چکا ہے ،اب اسکے تانے ملانا اگرناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ کیونکہ ایسا کوئی نظام اب دنیا میں کہیں  وجود نہیں رکھتا ہے۔ اس مد میں نظام سوچنے ، عمل کرنےاور کوشش پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ مسلمان عملاً اللہ کے حکم قرآن کے بغیر دوسرے نظام کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں اور جو مسلمان قرآن کے حکم کے خلاف جائے گا وہ دراصل کافرتصور ہوتا ہے۔ اس لئے ایسا نظام بنانا ہوتا ہے جہاں خدا ئے تعالی کے احکام نافذ ہوسکیں ۔میں سمجھتا ہوں ایسا نظام قائم کرنا ہر ایک مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے۔صرف بنیادی ارکان کی ادائیگی اسلامی نظام کو بنانے میں کچھ بھی مدد نہیں کرسکتی ہے۔ کسی ولی اللہ اور ہادی آنے کے انتظار میں چودہ سو سال گزر گئے۔

نظام کےلئے کچھ تلخ تجربات اس ضمن میں کیے بھی گئے لیکن کچھ اپنی   حماقت اور جہالت سے ناکام ہوئے تو دوسرے طرف عالمی سازشیں کام آئیں۔۔ کہ وہ اپنے نظام کے مخالف کسی دوسرے نظام کو نہیں مانتے ہیں۔
ایسے وقت میں جہاں مادہ پرست سرمایہ دارانہ جمہوریت اپنی  تمام تر طاقت کے ساتھ کھڑی ہوئی  ہے۔ ریاست مدینہ کا خواب دیکھنا بے شک ایک بہترین خیال ہوسکتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ریاست مدینہ سے مسلمانوں کا رومان اور دل جڑےہوئے ہیں۔اس کے لیے نظریات میں اہم اہنگی پیدا کرنا اور از سر نو اس کے داغ بیل ڈالناضروری ہے۔

ریاست مدینہ کا نظام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ابتدائی طور پر نافذ کیا گیا تھا جو کہ چار خلفاء راشدین کے دور تک باوجود اس کے کہ دارالخلافہ تبدیل ہوتا رہا اپنے مخصوص انداز سے جاری رہا۔ دراصل یہ ابتدائی نظام تھا جس کو مکمل ہونا تھا ۔اس لئے اس نظام میں فی زمانہ تبدیلی ناگزیر تھی تاہم اس کو پنپنے نہیں دیا گیا اور اس نظام کو اپنے ابتدائی دنوں میں ہی دفن کردیا گیا۔مذکورہ نظام دراصل برابری ،مساوات ،اخوت اور بھائی چارے کا نظام تھا اور ہے ۔ جہاں اقامت الصلوۃ اور ایتائے الزکوٰۃ  کا فریضہ ادا کیا جانا ہوتا ہے۔ اسلامی نظام میں  زکوٰۃ  ریاست کو ادا کردی  جاتی  ہے اور جس کا مقصد معاشرے کے محروم طبقات کو متمول طبقات کی  آسائش زندگی کے برابر لانا ہوتا ہے۔ بر سبیل تذکرہ اسلام میں مال گننے ، ذخیرہ  اندوزی وغیرہ اور نجی ملکیت کی ایک خاص حد کے علاوہ ممانعت ہے ۔جہاں پر تفرقہ بازی کی سخت ترین ممانعت ہوتی ہے۔جہاں قل العفو کا دستور ہوتا ہے ۔میرے خیال سے  آپ اس نظام کا جو بھی نام رکھ لیں ، لیکن اسلام اور خلافت ملوکیت ،جاگیر داری اور سرمایہ داری ہے اور نہ ہی سیکولر ازم، لبرل ازم اورکمیونزم وغیرہ ازم ہائے ہیں ۔ ایک نکتے کی وضاحت ضروری ہے کہ جہاں اس نظام میں  قرآنی قوانین کی جزئیات متعین نہیں ہوں، وہاں پر معروضی حالات اور واقعات کی  بہ نسبت بائی  قوانین  بنائے جاتےہیں۔ البتہ قرآنی قوانین غیر متبدل قوانین ہوتے  ہیں ۔حکومت کا قیام باہم صلاح  و مشورہ سے ترتیب دیا جاتا ہے ۔اولوالامر یعنی حکمران جسے آج کل کی زبان میں مقننہ، عدالت اور انتظامیہ کہتے ہیں یہ لوگ امت کی بحالی اوروحدت کو پیش نظر رکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔ معاشرتی ڈھانچہ اس طرح بنایا جاتا ہے کہ اس میں امیر اور غریب کا امتیاز ختم کیا جا سکے۔یہ نظام معاشرے کے افراد  کی اجتماعی کوششوں کے نتیجے میں اپنی  مکمل شکل میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔میں سمجھتا ہوں اور اس کی صورت گری عالم اور فاضل کرینگے لیکن در اصل یہ ایک سماجی ،سیاسی ،عدالتی اور معاشی نظام وغیرہ ہوتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ریاست مدینہ قرآنی اصولوں پر قائم کیا ہوا نظام تھا ۔ جس کا دستور قرآن کریم اورحکمران باہم مشاورت سے زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر فیصلے کیے جاتےتھے۔ جہاں غربت کے خاتمے اور معیشت کو سنبھالا دینے اور نظام کے تانے بانے بنے جاتے تھے۔خلفائے راشدین کے بعد جو دوسرے خلفاء اور امرا اور اشرافیہ آئے وہ ملوکیت کے نمائندے ثابت ہوئے ۔ اس لئے اس کو اسلامی ریاست نہیں کہا جاسکتا ہے اس پر سب مفکرین کا اتفاق ہے۔ متذکرہ نظام میں جاگیرداری اور شرفا ء کو حیثیت دی گئی ۔ اسلام جو غلامانہ رسوم کو ختم کرنے کے لئے آیا تھا وہ دوبارہ رائج رکھاگیا۔ بزور دوسری  ریاستوں کو غلام بنا کر جزیہ اور ٹیکس کے لئے ملایا گیا۔ باہمی سازشوں سے کبھی ایک خلیفہ اور کبھی دوسرے خلیفہ کو خدا کا نائب تصور کیا گیا۔اسلام اور قرآن کی من مانی تاویلات کی گئیں۔ جو سلسلہ آج تک جاری وساری ہے۔ ہم آج بھی جمعہ کے خطبات میں سلطان ظل اللہ کا خطبہ سنتے آرہےہیں۔ دین الہی کو دوسرے ماخذات کے تابع بنا کر من مانی انسانی تشریحات کی  گئیں  اور اس کو ہی اصل دین مانا اور سمجھا گیا۔ در اصل یہیں  سے وہ خرابی بسیار پیدا ہوئی۔ جس کا خمیازہ مسلمان اب تک بھگتے آرہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں تفرقے پیدا ہوئے۔ مذہبی جنونیت اور شدت پسندی اور قدامت پسندی عود کر  آگئی۔تفاوت اور اختلافات کے لئے جوازات گھڑے گئے۔ جو دین انسانیت کا درس دینے آیا تھا اور جو لکم دینکم ولی دین والا نظریہ رکھتا تھا وہ مذہبی پیشوائیت نے مسلمانوں کودوسرے مذاہب ادیان سے بیزار بنا دیا۔ اسلام وہ دین تھا جو دوسرے ادیان کی تصدیق کے لئے آیا تھا۔ یہ وہی ادیان تھے جس میں وحدانیت، جنت دوزخ، معاملات، معاشیات، اقتصادیات اور عبادات کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ تاہم دوسرے ادیان میں مذہبی پیشوائیت نے انسانی دست درازی کرکےآسمانی کتابوں میں تحریفات کرکے اپنی ذہنی، خیالی، ظنی، من چاہی تاویلات وغیرہ ڈال دئیے۔ جس کی وجہ سے مذکورہ ادیان من و عن قابل عمل نہیں ہوسکی۔ لیکن اس ادیان میں اب بھی اس طرح کی  روایات اور احکام ملتے ہیں جو کہ قرآن کریم کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔ ان سب کو دوبارہ پڑھ کر یورپ دوبارہ نشاط ثانیہ کے قابل ہوا۔ ترقی کی، پیشوائیت کو چرچ تک محدود کیا۔ سیاست کو مذہب سے جدا کیا گیا۔ یورپ میں عمر لاز کو ایمپلیمنٹ کیا گیا۔ ضروری ہے کہ موافق امور میں وحدت لائی جائے جو کہ مروج انسانی روایات اور سائنس کے ساتھ ہم آہنگ ہےکی دعوت دینا امن و سلام کی طرف دعوت تصور ہوگا۔لیکن اس کے برعکس ان مذاہب کے ماننے والوں نے دین الہی سے دوری کے سبب اور شخصی تاویلات کو مشعل راہ بنایا جس سے یورپ میں تو امن اور معیشت مضبوط ہوگئی ،لیکن دوسرے ترقی پذیر ممالک ان ترقی یافتہ ممالک کی  دست درازی سے محفوظ نہیں ہوسکی۔ اودھم مچایاگیا۔ لاکھوں لوگوں کاقتل   کیا گیا ۔ حتی کہ ایٹم بم گرائے گئےتو دوسری طرف مسلمان ممالک کے وسائل پر جابرانہ قبضے کئے گئے۔اس کے برعکس اسلام رواداری اور عالمگیریت کا سبق دیتا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان برائے نام مسلمان ممالک میں ایسا ملک دکھائی نہیں دیتا جو کہ ان کے باج گزار اور ٹیکنالوجی میں ان کا  محتاج نہ  ہو۔ قریبا ً تمام مسلمان ممالک غلامی کا طوق گردن پر سجائے دہائی دے رہے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اس کا حل اسلام اورریاست مدینہ ہی دیتا ہے اورجو وحدت کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔

Facebook Comments

نصیر اللہ خان
وکالت کے شعبے سے منسلک ہوکرقانون کی پریکٹس کرتا ہوں۔ قانونی،سماجی اور معاشرتی مضامین پر اخباروں اور ویب سائٹس پر لکھنا پڑھنامیرا مشغلہ ہے ۔ شعوراورآگاہی کا پرچار اپنا عین فریضہ سمجھتا ہوں۔ پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا ہےاس لئے پولیٹکل موضوعات اورمروجہ سیاست پر تعمیری ،تنقیدی جائزے لکھ کرسیاست دانوں ، حکام اعلی اور قارئین کرام کیساتھ اپنا نقطۂ نظر،فہم اور فکر شریک کرتا ہو۔ قانون،تاریخ، سائنس اور جنرل نالج کی کتابوں سے دلی طور پر لگاؤ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply