ہم سب شدت پسند ہیں ۔۔۔ فہد احمد

جب بھی دنیا بھر میں لفظ شدت پسند یاExtremist  کا نام لیا جاتا ہے تو ایسے میں ذہن میں ایک نا پسندیدہ رویہ کا عکس بنتا ہے ، ایک شخص جو کسی بھی نظریے میں متشدد ہے ، لیکن اس کا نظریہ اس کی ذات تک محدود ہے، وہ اس کا اظہار یا معاشرے پہ اس کا نفاذ کرنے کا خواہاں نہیں ، ایسا شخص متشدد نہیں کہلاے گا، لیکن ، جب اس کی شدت صرف اس کے ذاتی نظریات تک نہیں  بلکہ  اس سے بڑھ کر اس کے ماحول پہ اثر انداز ہونے لگتی ہے تو یہ شدت پسندی کہلاتی ہے۔

شدت پسندی ، میں آج کل کافی تبدیلی آ چکی ہے ، ہم اب بہت کم اعلانیہ شدت پسند کہلاتے ہیں ، ہم خود کو معتدل ، نیوٹرل ، لبرل کے لبادے میں اوڑھے رکھتے ہیں ، مگر موزوں مزاج صورت ِ حال کی دستیابی کی صورت میں فوراً ہمارے اندر کا شدت پسند اُچھل کر باہر آ جاتا ہے۔ مثلاً، اگر میں ایک مذہب بیزار شخص ہوں ، مگر حالات اس کے برملا اظہار کی اجازت نہیں دیتے ، تو میں خود کو لبرل کہوں گا، مذہبی باتوں پہ عام طور  پر اعتراض سے گریزاں رہوں گا، مگر اچانک کوئی مذہبی نوعیت کا وقوعہ ہوتا ہے ، میرے پاس موقع ہے کہ دبے لفظوں میں اب مذہب کو ہر شدید لفظ سے رگیدوں، لیکن وقوعہ کے شور میں میری ذاتی نفرت چھپ جائے گی ، میرے الفاظ تاہم لوگوں پہ اثر انداز ہوں گے۔

اسی طرح اگر میں ایک مسلکی شدت پسند ہوں تو خود نشانہ عتاب بننے سے بچنے کےلیے میں نیوٹرل یا لبرل یا عام مسلمان بنا رہ سکتا ہوں، تا وقتیکہ مجھے کوئی موقع ملے جس پہ مخالف مسلک و نظیر  کو رگیدا جائے۔ اور عوامی رائے عامہ کو میرے نظریے کے لیے ہموار کروں۔ اگر میں ایک سیاسی شخصیت کا ناقد ہوں، وہیں جب میں ایک دوسری سیاسی شخصیت کا پرستار بھی ہوں ، جبکہ میری ممدوح شخصیت تنازعات کی زد میں رہتی ہے تو میں اپنی ممدوح کی اعلانیہ حمایت کی بجائے مخالف کو رگیدنے کے   ہر موقع کی تلاش میں رہوں گا ۔ اگر میں کسی سے محبت و عقیدت رکھتا ہوں تو اسکے ہر عیب کی پردہ پوشی کروں گا، اگر میں کسی سے نفرت کرتا ہوں تو اسکے ہر محاسن اخلاق پہ آنکھیں بند کر لوں گا ، یہ شدت پسندی ہے ۔

شدت پسندی عدم سماعت، عدم فہم ، و عدم دلیل کا مظہر ہے۔ یہاں تک تو بات بہت ہی واضح ہے ، لیکن ہمارے معاشرے میں ایک دوسرا رجحان عرصہ دراز سے راسخ ہوتا چلا آ رہا ہے ، یہ مخالف کی تضحیک کا ہے ، اس میں کسی بھی شخص ، یا نظریہ کی تضحیک مطمع  نظر ہوتا ہے ۔ طرز ِ کلام ، بالعموم طنز و مزاح کی صنف سے بتایا جاتا ہے ، مگر مقصود بامقصد و با دلیل طنز کی بجائے ، بلا عذر ذاتیات کی تضحیک کی جاتی ہے ، نان ایشوز کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے ، اور مزاح سے زیادہ تنقیص و دل آزاری مقصد ہوتی ہے ۔ سادہ لفظوں میں جگتیں لگانا یا پھبتی کسنا کہہ  لیجیے ۔ یہ تختہ مشق مخالف کی شکل سے لے کر لباس، کھانے سے کر چلنے کے انداز، اس کی نجی زندگی، مذہب ، عقیدہ ہر اِک شے کو بنایا جاتا ہے ، مگر اپنی شدت پسندی و تنگ نظری یا فکری مخالفت جس کے لیے دلیل درکار ہوتی ہے، کی بجائے ، مذاق کے نام پہ اس کو سر انجام دیا جاتا ہے ۔

دنیا بھر کے مہذب معاشروں میں کسی بھی مذہب ، شخص، ثقافت ، لباس ، ہیت یا نظریہ پہ اس انداز سے نکتہ چینی جو کہ مخالف کی دل آزاری کی نیت سے کی جائے ، نفرت کلام ، یا ہیٹ سپیچ کہلاتی ہے۔ اسلام کا پیغام اس ضمن میں روشن قندیل ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی ، زبان و ہاتھ ، دونوں کے شر سے لوگ محفوظ ہوں۔ لیکن ہمارا معاشرہ جو ایک عرصہ تک آزاد ی اظہار کا مخالف رہا ( جب کہ اس کا مطلب صرف ہمارے مخالف نظریہ کا  اظہار ہے ) آزادی اظہار کے فلسفے پر عمل پیرا ہے، جب کہ آپ کو اظہار الفاظ کی چھڑی گھمانے کی آزادی صرف وہاں تک محدود ہے جہاں سے دوسرے شخص کی ناک شروع ہوتی ہے ، جوں ہی یہ چھڑی کسی کی ناک کو چھوتی ہے ، نفرت و دل آزاری و ہتک عزت کہلاتی ہے۔ مذاق یا مزاح نہیں۔ نفرت و مخالف نظریہ کے تمسخر و عدم برداشت کی روایت موجودہ نسل سے ختم کرنا تو شاید ممکن نہ ہو، لیکن پاکستانی معاشرے کے ہر فرد خواہ وہ لبرل ہوں ، یا مذہبی ، سیاسی ہوں یا غیر سیاسی ، عامی ہوں یا حاکم، مبلغ ہوں یا معلم۔ لکھاری ہوں یا قاری  سے التماس ہے کہ ہمارے معاشرے کی بہتری کے لیے آئندہ آنے والی نسلوں کو مخالف نظریہ و شخص کا احترام سکھایا جائے ۔

آپ کو کوئی نظریہ پسند نہیں، آپ اس کو نظر انداز کریں ، آپ مکالمہ چاہتے ہیں ، دلیل سے بات کریں۔ آپ کسی سے نفرت کرتے ہیں ، اظہار سے گریز کریں یا مناسب الفاظ سے اظہار کریں۔ گالیاں یا تمسخر کسی نظریہ کو ختم نہیں کرتا۔ یہ مزید متشدد کرتا ہے یہ مزید نفرت پھیلاتا ہے ۔ میں نے یہ بات اپنی بلوغت میں قدم رکھنے کے بعد سے ، ایک شدید مذہبی ماحول میں رہنے ، ایک شدت پسند کے طور پہ کئی سال گزارنے کے بعد سیکھی ہے کہ میں نے زندگی کے خوبصورت ایام نفرت و شدت کی نظر کیے ، اب میں کفِ افسوس بھی ملتا ہوں اور خدا کا او ر اپنے ان بزرگوں بالخصوص میرے پیر و مرشد و میرے استاد محترم کا بھی شکر یہ ادا کرتا ہوں ،جنہوں نے مجھے نفرت و شدت پسندی سے نکال کر اعتدال ، دلیل و محبت سکھائی۔ میں اب بھی خامیاں رکھتا ہوں ، ممکن ہے کسی کی دل آزاری کا بھی موجب بنتا ہوں ، مگر اس پہ پشیماں بھی ہوں اور اپنی اصلاح کا خواہاں بھی ۔ اس سے قبل کہ ہم سب شدت پسند بن کر ایک دوسرے کا وجود مٹانے کے لیے تگ دو کرتے کرتے مر جائیں، اور زندگی میں جب کبھی ہمیں ادارک ہو، جو کہ ہر شدت پسند کو زندگی میں ایک بار لازمی ہوتا ہے ، کہ ہم نے زندگی نفرت کی بھینٹ چڑھا دی تھی ،اس وقت سے پہلے,  ذرا سوچیے۔۔!

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply