گل ہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن ۔۔۔۔ ڈاکٹر طفیل ہاشمی

کائنات کی خوب صورتی، اختلاف اور ہم آہنگی کے دوگانہ روابط کی زلف گرہ گیر کی اسیر ہے. اگر اس کائنات کے تمام لوگ، ان کے افکار، نقش و نگار، آوازوں کا زیروبم، قدوقامت کے نشیب و فراز، غرض سب پہلو یکساں ہوجائیں تو زندگی پل بھر میں دم گھٹنے سے مرجائے گی اور اگر کائنات کی مختلف اور متنوع اشیاء بایک دگرہم آہنگ نہ ہوں تو نہ حسن کی دلفریبی باقی رہے اور نہ عشق کی سرمستی۔

اس حوالےسے آج ہم فقہی اختلافات کی خوب صورتی کی تصویر کشی کرنے جارہے ہیں۔ فقہی اختلافات سے مراد اجتہادی مسائل میں اختلاف ہے۔ مجتہدین نے اپنے اپنے مآخذ اجتہاد، اصولِ اجتہاد اور زمانی و مکانی پس منظر کی بنا پر اپنے اپنے دور میں امت کی رہنمائی کرتے ہوئے جدید پیش آمدہ غیرمنصوص مسائل میں اجتہادات کیے جن میں اختلافات کا رونما ہونا ایک فطری امر تھا۔ لیکن بعد کی صدیوں میں تقلید کی شدت اور تلفیق کی حرمت کے رویوں نے فقہی اختلافات کو، جو وسعتِ نظر، آسانی اور سہولت کا موجب تھے، باہمی اختلاف و انتشار کا باعث بنادیا۔ اہل علم اس امر سے واقف ہیں کہ آئمہ مجتہدین کے اکثر اختلافات کی بنیاد صحابہ کرام کے فقہی اختلافات پر ہے۔

اس موضوع پر متعدد کتابیں اور کئی ضخیم کتابوں کے ابواب مختص کیے گئے ہیں لیکن ہمارے موضوع سے متعلق یہ امر ہے کہ فقہی اختلافات کے باوجود صحابہ کرام کا باہمی طرز عمل کیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک مشہور واقعہ جس کا تعلق حضرت عثمان (رض) کے عہد سے ہے، ذخیرۂ احادیث میں موجود ہے۔ حج کے موقع پر عرفات اور مزدلفہ میں ظہر، عصر اور عشاء کی نمازیں عہدنبوی، اور حضرت ابوبکر(ر)، حضرت عمر(ر) اور حضرت عثمان (ر) کے ابتدائی عہد میں دو دو فرض پڑھی گئیں۔ لیکن کچھ مدت بعد حضرت عثمان (ر) نے چار چار رکعات پڑھانے کا فیصلہ کیا اور اس کا اعلان کر دیا۔   

  معاملہ نماز کا تھا اور رسول اللہ ﷺ کے طریق سے مختلف طریقہ اختیار کرنے کا۔ خیرالقرون کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی حساسیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے چنانچہ صحابہ کرام نے اس فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ جلیل القدر صحابہ کرام اپنے اپنے خیموں سے باہر نکل آئے۔آئے۔ ایک کے بعد ایک حضرت عثمان(ر) کے ہاس جاتے اور پوچھتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور حضرات ابوبکر و عمر(ر) کی روایت مسلسل میں آپ کو تغیر کا کیا اختیار ہے۔ حضرت عثمان(ر) کے جواب سے صحابہ مطمئن نظر نہیں آتے۔ عبدالرحمن بن عوف (ر)، ابوذر(ر)، اور ابن مسعود(ر) جیسے صحابہ حضرت عثمان (ر) سے اس قدر شدید اختلاف کرتے ہیں کہ نوبت تلخ کلامی تک آ جاتی ہے۔    لیکن جب جماعت کھڑی ہوئی اور خلیفۂ وقت نے اعلان کیا کہ چار رکعت پڑھاؤں گا تو تمام صحابہ اپنے اپنے خیموں سے نکلے اور امام کے پیچھے صف آرا ہوگئے۔ نماز کے بعد ایک ہنگامہ برپا ہوگیا، لوگ ان سے پوچھتے:”کہ آپ نے عثمان (ر) پر اعتراض بھی کیا اور چار رکعتیں بھی پڑھ لیں، لیکن ہر صحابی یہ جواب دیتا، “میں الگ ہونے کو پسند نہیں کرتا، اگرچہ میں اب بھی یہ چاہتا ہوں کہ ان چار رکعتوں کی جگہ وہی دو مقبول رکعتیں ہوتیں”۔ میں عثمان(ر)  سے الگ نہیں ہوتا، کیوں کہ علیحدگی بُرائی ہے۔

صحابہ کے ان اختلافات کو بعد کے فقہاء اور ائمہ نے کس نگاہ سے دیکھا، ان کے بارے میں حضرت ابوبکر صدیق کے پوتے قاسم بن محمد جو مدینہ کے فقہاء سبعہ کی کونسل کے ممبر تھے، فرماتے ہیں: ” نبی کریم ﷺ کے صحابہ کے جو اختلافات ان کے اعمال میں تھے، خدا نےاس سے یہ نفع پہنچایا کہ مسلمانوں میں سے جو کوئی صحابہ میں کسی صحابی کے طرزِ عمل کے مطابق عمل کرتا ہے وہ اپنے آپ کو گنجائش میں پاتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس نے جو کام کیا ہے، وہ ایسا کام ہے جسے اس سے زیادہ بہتر آدمی نے کیا تھا۔ ان اختلافی اقوال میں سے تم جسے بھی اختیار کرو تمہارے دل میں اس کے بارے میں کوئی کھٹکا نہیں ہونا چاہیے”۔ امام شاطبی نے الموافقات میں اختلافِ صحابہ کے بارے میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کا نقطۂ نظر ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ “مجھے ہرگز یہ پسند نہیں کہ اصحاب رسول میں اختلاف نہ ہوتا، اگر ان سب کی رائے اور فتویٰ ایک ہی ہوتا تو لوگ تنگی میں پڑجاتے۔ اگر صحابہ ایک بات پر متفق ہوجاتے تو اس کا تارک، تارکِ سنت ٹھہرتا اور جب ان میں اختلاف ہو تو جو شخص ان میں سے کسی کی رائے کو اختیار کرے گا متبعِ سنت ہوگا۔ وہ دین کے ایسے پیشوا ہیں جن کی اقتدا کی جاتی ہے پس ان میں سے جس کے قول کو بھی کوئی اختیار کرے گا، اُس کے لیے گنجائش ہوگی”۔

حضرت عمر بن العزیز نے صرف اس رائے کا ہی اظہار نہیں کیا بلکہ دارمی کے بقول یہ ان کی حکومت عدل و قضا کا بنیادی نقطہ تھا کہ انھوں نے اپنے زیر نگیں ریاست کے تمام علاقوں کے امراء اور حکام کو لکھا کہ ہر ملک کے باشندوں کے مسائل کے فیصلے ان آراء کے مطابق کیے جائیں جن پر اس علاقے کے فقہاء کا اتفاق ہے۔ قرون مشہودلہا بالخیر میں درحقیقت عالم اور فقیہ وہی سمجھا جاتا تھا جو صحابہ اور ائمہ کرام کے اختلافات سے آگاہ ہو۔ شاطبی نے اس مقام پر بہت تفصیل سے انتہائی وقیع بحث کرنے کے بعد لکھا ہے کہ: ” صحابہ کرام انہی حوادث و وقائع میں اختلاف کرتے تھے جن کے بارے میں کتاب وو سنت کی نص موجود نہ ہو۔ وہ اپنے اپنے اجتہادات کی رو سے رائے قائم کرتے لیکن اس اختلاف کے باوجود وہ لوگ باہمی محبت و الفت رکھنے والے، ایک دوسرے کے خیرخواہ تھے اور ان کے درمیان اسلام کا قائم کردہ بھائی چارہ تھا”۔ امام ابن تیمیہ نے اپنے مزاج کی فطری شدت پسندی کے باوجود صدیوں پر محیط مسلم علماء اور عوام کی روش ان الفاظ میں بیان کی۔ ” صحابہ، تابعین اور ان کے بعد کے لوگ کچھ بسم اللہ پڑھتے تھے، کچھ نہیں پڑھتے تھے بعض لوگ فجر میں قنوت پڑھتے تھے، بعض نہیں پڑھتے تھے، کچھ پچھنا لگوانے، نکسیر پھوٹنے یا قے کرنے کے بعد وضو کرتے تھے، کچھ نہیں کرتے تھے، بعض عضو مستور کو چھونے کے بعد وضو کرتے، بعض نہیں کرتے تھے، بعض عورت کو نفسانی میلان کے ساتھ چھونے کو ناقض وضو سمجھتے تھے، بعض نہیں سمجھتے تھے، بعض نماز میں قہقہہ لگا کر ہنسنے کی وجہ سے وضو کرتے تھے، بعض نہیں کرتے تھے مگر ان تمام باتوں کے باوجود وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ حنفیہ ، شافعیہ، مالکیہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ جو کوئی اس کا انکار کرے وہ بدعتی اور گمراہ ہے”۔

مختلف فقہاء صحابہ کرام کے تلامذہ ہیں. تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ اجتہادی روئیے ترقی کرتے رہے لیکن کسی ایک فقہ سے وابستگی کا اگر کوئی وجود تھا تو اس کا تعلق اساتذہ وتلامذہ کی حد تک تھا. بعد کے ادوار میں جب باقاعدہ مختلف فقہیں مدون ہوئیں تو کسی امام نے لوگوں کو اپنی تقلید کی اجازت نہیں دی، البتہ اپنا اسلوب اجتہاد واضح کیا اور اس ضمن میں نہ صرف اصول وقواعد پر بحث کی بلک جزئیات کابھی وافر ذخیرہ فراہم کر دیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ڈاکٹر دید طفیل ہاشمی ماہر علوم اسلامی اور استاذ الاساتذہ ہیں۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply