اپنا اپنا گریباں۔۔عزیز خان

میں اپنے کالموں میں ہمیشہ پی ایس پی کلاس کے خلاف لکھتا رہتا ہوں کہ ان کا رویہ  اپنے ماتحتوں سے اچھا نہیں ہوتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اکثر افسران اپنے ماتحتوں کے ساتھ بُہت بُرا سلوک کرتے ہیں ۔ لیکن اس بات کو بھی سوچنا پڑے گا کہ یہ افسران ایسا کیوں کرتے ہیں ؟؟اچھے یا بُرے لوگ ہر ادارے میں ہوتے ہیں، نہ تو سب اچھے ہوسکتے ہیں اور نہ ہی  سب بُرے ۔

میری سروس میں بہت سے اچھے افسران جن میں ذوالفقار چیمہ ، حسین کرار خواجہ ، ملک اعجاز ، اللہ ڈینو خواجہ ، سرمد سعید خان بھی آئے جن کے ساتھ کام کرنا میں اپنے لیے باعث عزت سمجھتا ہوں ۔اسی طرح بہت سے افسران ایسے بھی ہیں اور تھے جن کانام لکھنا شاید مناسب نہیں ہوگا ان کےبُرے رویے آج بھی مجھے یاد ہیں۔

کوتاہیاں ،غلطیاں انسان کی فطرت ہیں ، حضرت آدم ؑ بھی ایک غلطی کی وجہ  سے جنت سے نکالے گئے ،بے شک یہ اللہ کی رضا تھی لیکن غلطی کرنا اور پھر اس پہ نادم ہونے والا ہی اچھا انسان کہلاتا ہے اور اُسے معافی ملتی ہے، محکمہ پولیس میں ماتحت پولیس افسران اور ملازمین سے بھی بے تحاشا غلطیاں ہوتی ہیں، کچھ ملازمین یہ غلطیاں جان بوجھ کر خود کرتے ہیں اور کچھ ان سے افسران اور سیاستدان کرواتے ہیں ۔پولیس میں کرپشن اور زیادتی بھی کروائی جاتی ہے اور کچھ ملازمین اپنی مرضی سے کرتے ہیں ۔جنرل ضیاءالحق سے لے کر موجودہ حکومت تک تمام حکمرانوں کو یہ پتہ تھا اور ہے کہ محکمہ پولیس کے وسائل کتنے کم ہیں ۔چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دینا کسی بھی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے لیکن پھر بھی یہ حکمران اپنی شاہ خرچیاں تو کرتے ہیں لیکن اس محکمہ کو جان بوجھ کر ٹھیک نہیں کرنا چاہتے ویسے تو ایسی کئی کہانیاں ہیں جن میں پولیس ملازمین   کارگزاری کے لیے جھوٹے مقدمات درج کرتے ہیں جن میں بے گناہ افراد کو گرفتار کرکے رشوت وصول کی جاتی ہے لیکن آج میرے دفتر میں ایک انسپکٹر آئے جنھوں نے مجھے ایک ایسی کہانی سنائی جسے سُننے کے بعد میرا سر شرم سے جھک گیا کہ میں ایسے ملازمین کی خاطر اس سسٹم سے لڑ رہا ہوں جو شاید کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوسکتے ۔انسپکٹر صاحب نے مجھے بتایا کہ۔۔۔۔۔۔
“کل رات کامونکی سے ان کے ایک دوست کے بیٹے کی کال آئی کہ میرے والد اپنے عزیز کی شادی میں شرکت کے لیے جارہے تھے ۔کیونکہ ان کی دشمنیاں بھی ہیں گاڑی میں ان کا لائسنسی اسلحہ بھی تھا ۔ہمارے کسی دشمن نے پولیس کو مخبری کی ، ڈولفن فورس اور تھانہ صدر کامونکی کی پولیس نے مختلف جگہوں پہ ناکہ بندی کرلی ۔میرے والد صاحب اور ان کے ایک دوست کو گرفتار کر لیا کہ ان کے پاس ناجائز اسلحہ ہے میرے والد نے ایس ، ایچ ، او کو اسلحہ کا لائسنس اور پرمنٹ بھی دکھایا ۔لیکن ایس ایچ او صدر کامونکی نہیں مانا ،انسپکٹر جو ایس ایچ او کا بیج میٹ ہے نے ایس ایچ او کو فون کیا کہ اگر یہ لوگ گناہ گار ہیں تو ان کا چالان کریں اور اگر بے گناہ ہیں تو غلط مقدمہ درج نہ کریں ۔کیونکہ ایک پولیس افسر نے سفارش کردی تھی ،لہذا انھیں نہیں چھوڑا گیا، بلکہ لائسنس ہونے کے باوجود تینوں افراد پر اسلحہ کے الگ الگ مقدمات درج کردیے گئے جن میں وہ خود اُن کا ملازم اور دوست شامل تھا ۔ سب سے بُری بات یہ ہے کہ انھیں F.I.Rکی کاپیاں بھی نہیں دی گئیں بلکہ تفتیشی نے پانچ ہزار روپیہ  لے کر ملزمان کو عدالت میں پیش کیا اور اس طرح ان کی ضمانتیں ہوئیں۔”

پولیس ملازمین اپنی کار گزاری بنانے اور پیسے لینے کے لیے اتنے اندھے ہوجاتے ہیں کہ اپنے پیٹی بھائی ملازمین کی بھی نہیں مانتے بلکہ صرف “قائد اعظم “کی عزت کرتے ہیں ان کے پاس کئی ایسے جواز ہوتے ہیں جیسے افسران بالا کے  نوٹس میں ہے وغیرہ وغیرہ لیکن اگر ان کا اپنا کوئی مفاد لالچ یا پھر ڈنڈا ہو تو کئی راستے نکال لیے جاتے ہیں اور اگر ان کی غلط کاریوں پر اگر کوئی افسر ان کو سزا دیتا ہے تو ہم اسے بُرا بھلا کہتے ہیں اپنی غلطی کوتاہی ہمیں نظر نہیں آتی ؟

پہلے بھی اسی طرح کی ایک آڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک ریٹائرڈ آئی جی صاحب نے ایک SSP کو کامُو کہا جو اُنہوں نے نہیں کہا تھا

ہمیں شاید اپنی اصلاح کرنے کی بھی ضرورت ہے اور اپنے اپنے گریبانوں میں بھی جھانکنا چاہیے کہ کون غلط ہے اور کون صحیح ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply