• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عوام کا احتساب اور بدعنوانی کے خاتمے کا مطالبہ/قادر خان یوسفزئی

عوام کا احتساب اور بدعنوانی کے خاتمے کا مطالبہ/قادر خان یوسفزئی

پاکستان کی سیاست اور معیشت کے مسلسل ابھرتے ہوئے منظر نامے میں، ڈالر و ایرانی پٹرول کی سمگلنگ کے ساتھ ساتھ غذائی اجناس و زرعی کھادوں کی ذخیرہ اندوزی و مہنگائی ایک ناسور بن چکا ہے حکومت کو پیش کی جانے والی ایک رپورٹ میں ملک میں کی جانے والی کرپشن ، جس میں قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپوں کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے، رپورٹ کے مطابق ملوث سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے انکشافات نے پوری قوم میں ہلچل مچا دی ہے۔ اس اسکینڈل کے مضمرات، احتساب کی فوری ضرورت، اور مہنگائی سے نمٹنے کے لیے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈان ایک بڑا عوامی مطالبہ بن کر سامنے آچکا ہے اور سب دیکھنا چاہتے ہیں کہ کریک ڈائون کی زد میں سیاست مصلحت پر غالب تو نہیں آجائے گی۔ بیشتر سیاست دانوں اور سرکاری افسران غیر قانونی تجارت میں ملوث ہیں، جس سے قوم کے خزانے کو کافی حد تک نقصان پہنچا ہے۔ اگرچہ ان الزامات کو حتمی طور پر ثابت ہونا باقی ہے، لیکن انہیں آسانی سے ایک طرف نہیں ہٹایا جا سکتا۔

ملک کی حکمرانی کے ذمہ داروں کی صفوں میں اس طرح کی وسیع پیمانے پر بدعنوانی کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ انکشافات کے بعد عوام میں احتساب کا شور عروج پر پہنچ گیا ہے۔ تیز اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے، شہری اپنی صفوں سے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے حکومت کے عزم پر سوال اٹھا رہے ہیںکہ جب ریاست کے دشمنوں کے خلاف متعدد آپریشن ہوسکتے ہیں ، تو اس کریک ڈائون کو بھی آپریشن رد ِالفساد کے تحت عمل درآمد کرانے میں کسی سیاسی مصلحت کے بغیر انجام تک پہنچایا جائے ۔ یہ ضروری ہے کہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اس معاملے میں مثالی کردار ادا کریں۔ تفتیشی عمل میں شفافیت، انصاف کا غیر جانبدارانہ حصول، اور قصوروار پائے جانے والوں کے خلاف تعزیری کارروائی عوامی اعتماد کو بحال کرنے میں ناقابل مذاکرات عناصر ہیں۔

صرف پیٹرول سمگلنگ کی مد میں سالانہ ساٹھ ارب روپے کے نقصان کو صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی جیسے اہم شعبوں کی طرف ری ڈائریکٹ کیا جا سکتا تھا۔ اس کے بجائے، یہ حیران کن رقم سمگلنگ میں مصروف افراد کی جیبوں میں پہنچ جاتی ہے۔ بالخصوص ایران سے ڈپٹی کمشنرز کے مبینہ اجازت کے ساتھ سیکڑوں گاڑیاں پاک، ایران سرحدوں سے روزانہ پیٹرول لاتے ہیں ، اور پاکستان بھر میں نہ صرف گلی کوچوں بلکہ پیٹرول پمپوں تک سپلائی کر رہے ہیں۔ بلوچستان کی بعض نام نہاد قوم پرست تنظیمیں اس سمگلنگ کو عوام روزگار کے نام پر ضروری قرار دیتی ہیں اگر اس جواز کو مان لیا جائے تو پاکستان میں بے روزگاری کہاں نہیں ، لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں ، سر راہ معصوم لوگوں کو لوٹ لیا جاتا ہے اور مزاحمت پر گولی مار دی جاتی ہے، ان کا تعلق بھی بلدیہ ٹائون سانحہ کی طرح کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے عسکری ونگ سے ہوتا ہے ، جو چند دنوں میں ضمانتیں کرا لیتے ہیں اور مدعی تو ویسے ہی عدالتی چکروں اور دھمکیوں کی وجہ سے خود بھی پیش نہیں ہوتا اور گواہان بھی ڈر سے گواہی دینے نہیں جاتے ، بلکہ انہیں اتنا پریشان کیا جاتا ہے کہ وہ خود رشوت دے کر اپنی خلاصی کراتے ہیں۔ غیر معیاری ، ناقص اور ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے والی پیٹرولیم مصنوعات کی مبینہ آمدنی کا بڑا حصہ دہشت گردوں کو جاتا ہے جس طرح کراچی میں غیر قانونی ہائیڈرنٹ سے حاصل حصہ کالعدم تنظیموں کو اربوں روپوں کی شکل میں منتقل ہو رہا تھا ، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس بڑے نیٹ ورک کو توڑا لیکن کچھ عرصے بعد غیر قانونی ہائی ڈرینٹ کا کاروبار کرپٹ سرکاری عملے کی ملی بھگت سے دوبارہ شروع ہوگیا ۔

مزید برآں، ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈائون کا عوام کا مطالبہ، جو مصنوعی طور پر قیمتوں میں اضافہ کرکے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہیں، معاشی پریشانیوں سے نمٹنے کے لئے کریک کی فوری ضرورت پر زور دیتا ہے۔ مہنگائی پر قابو پانا ضروری ہے تاکہ عام شہریوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے جو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ کریک ڈائون میں سُستی کی گئی تو عوام کا ردعمل غصے اور مایوسی میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے عام شہری، جو معاشی مشکلات کا شکار ہیں، اس انکشاف کو اپنی امانت میں خیانت سمجھتے ہیں۔ وہ نہ صرف احتساب بلکہ نظامی اصلاحات کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں جو مستقبل میں طاقت کے اس طرح کے بے جا استعمال کو روکیں۔ ریاست کے اقدامات کو ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے تاہم، عوام کی توقعات تعزیری اقدامات سے کہیں زیادہ ہیں۔ وہ ساختی تبدیلیوں کے خواہاں ہیں جو زیادہ شفاف اور جوابدہ حکومت تشکیل دے گی۔ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے۔ افراط زر اور اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے توانائی سمیت اہم شعبوں میں جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

شہریوں کو حکمرانی کے عمل میں شامل کرکے ان کی آوازوں کو سنا جانا چاہیے۔ حکومت عوام کو سمگلنگ کی خطرات اور حکام کو کسی بھی مشکوک سرگرمی کی اطلاع دینے کی اہمیت کے بارے میں عوامی آگاہی مہم چلا سکتی ہے۔ اطلاع دینے والوں کے لیے انعامات پیش کر سکتی ہے۔ سمگلنگ سکینڈل ان چیلنجوں کی واضح یاد دہانی ہے جن کا قوم کو زیادہ شفاف اور جوابدہ حکومت کی تلاش میں سامنا ہے۔ یہ اقتدار کے عہدوں پر فائز افراد کے لیے اچھی حکمرانی کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کا مطالبہ بھی ہے۔ عوام کا احتساب اور بدعنوانی کے خاتمے کا مطالبہ نہ صرف جائز ہے بلکہ ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان کی تعمیر کی جانب ایک ضروری قدم ہے۔ قوم کے رہنماں کو اس لمحے سے فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ بامعنی اصلاحات کی جائیں اور حکومتی اداروں پر عوام کا اعتماد بحال کیا جا سکے۔

Facebook Comments

قادر خان یوسفزئی
Associate Magazine Editor, Columnist, Analyst, Jahan-e-Pakistan Former Columnist and Analyst of Daily Jang, Daily Express, Nawa-e-Waqt, Nai Baat and others. UN Gold medalist IPC Peace Award 2018 United Nations Agahi Awards 2021 Winner Journalist of the year 2021 reporting on Media Ethics

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply