• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بیداریء مِلّت – قسط سوم / مؤلف: علامہ نائینی/مترجم: اعجاز نقوی

بیداریء مِلّت – قسط سوم / مؤلف: علامہ نائینی/مترجم: اعجاز نقوی

گزشتہ اقساط کا لنک

اعجاز نقوی کی تحاریر

 

حکومت کی دوسری قسم

وہ حکومت جس کا مقصد صرف اور صرف معاشرتی نظم و نسق کی انجام دہی اور نوعِ انسانی کے ان امور کو انجام دینا جن کا حصول حکومت کی تشکیل کےبغیر ممکن نہیں ہوتا۔ اس حکومت میں حکمران خود کو شہریوں کا مالک قرار نہیں دے سکتا، اس کے اختیارات محدود ہوتےہیں۔ اور وہ مقرر شدہ حدود سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ (1)
حکومت کی یہ دونوں قسمیں حقیقت کے لحاظ سے متضاد اور آثار کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ کیونکہ حکومت کی پہلی قسم اپنے تمام مدارج کے ساتھ اس بات پر قائم ہے کہ ملک اور ملک کے باسی سلطان کی مرضی کے پابند ہیں۔ اور تمام تر آمدنی سلطان کی مرضی کے مطابق خرچ ہوتی ہے۔ جبکہ سلطان کسی بات پر عوام کو جوابدہ نہیں ہوتا۔
اگر بیت المال کو اپنی ذات پر استعمال نہ کرے تو اس کی مہربانی، اگر کسی کو قتل کرکے اس کا مثلہ نہ کرے (2)،
ٹکڑے ٹکڑے کرکے کتوں کے آگے نہ ڈالے تو اس کا احسان، اور اگر صرف لوگوں کی مال ودولت کی لوٹ مار تک محدود رہے اور عوام کی عزت و ناموس پر حملہ نہ کرے تو اس کا شکریہ ادا کرنا چاہئے (یہ طنزیہ جملات ہیں)۔
تمام شہری سلطان کے غلام اور کنیزیں بلکہ بھیڑ بکریاں شمار ہوتے ہیں۔ بلکہ بسا اوقات ان کی حالت اس سےبھی بدتر ہوتی ہے اور سلطان عوام کو گھاس پھونس سمجھتا ہے۔ جن کےوجود کا مقصد صرف اورصرف دوسرے جانداروں کی ضرورت پورا کرنا ہے۔
خلاصہ یہ کہ سلطنت کی یہ قسم ایک طرح کی خدائی ہے۔
جبکہ دوسری قسم اس کے بالکل الٹ ہے، جس میں حکومت کا مقصد صرف اور صرف مملکت اور اہل مملکت کا تحفظ ہوتا ہے نہ کہ عوام کا مالک بن بیٹھنا۔ یہ حکومت معاشرے کےعام انسانوں کی امانت ہوتی ہے۔ جس میں حکمران ملکی اور عوامی مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنا اس کا مقصدِ حکومت نہیں ہوتا۔
اسی وجہ سے حاکم کے اختیارات بھی صرف مذکورہ امور کی ولایت تک محدود ہوتے ہیں۔ چاہے حاکم برحق ہو، چاہے ناجائز طریقے سے حاکم بنا ہو، وہ اپنی حدود سےتجاوز نہیں کر سکتا۔ (3)
مملکت کے تمام شہری ٹیکس دینے میں اور دیگر ملکی امور میں حاکم کے ساتھ برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ اور تمام لوگوں کے لئےملکی قوانین برابر ہوتےہیں۔ اور حکومتی مناصب پر فائز افراد، صرف اور صرف عوام کےامین ہوتے ہیں۔ مالک و مخدوم نہیں ہوتے۔
وہ عام شہریوں کی طرح اپنےکاموں پر جوابدہ ہوتے اور معمولی حد کراس کرنے پربھی ان کا مواخذہ و احتساب ہوتا ہے۔
عام شہری، قانونی برابری اور شہری حقوق میں سرکاری افراد کےبرابر ہونے کی وجہ سے ہر طرح کے سوال و اعتراض کا حق رکھتے، اور اپنے اعتراض کا اظہار کرنے، بلکہ احتجاج کرنے کی بھی مکمل
آزادی رکھتے ہیں۔ اس لئے کہ ان کی گردن میں حکومتی اور سرکاری افراد کی بے جا اطاعت کا پٹا نہیں ہوتا۔
حکومت کی یہی قسم ہے جس کو آئینی جمہوریت (حکومتِ مشروطہ) کہا جاتا ہے۔اس کو حکومتِ عادلہ اور محدودہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور مسئولہ و مقیدہ بھی۔
اور ہر نام کی وجہ تسمیہ بھی واضح ہے۔(4)
ایسی حکومت قائم کرنے والے کو محافظِ ملت اور قائم بالعدل کہتے ہیں۔
اور جو قوم ایسا نظامِ حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے وہ احرار یعنی آزاد انسانوں کی قوم ہے۔ یہ زندہ لوگ، احتساب کرنے والے ہوتےہیں۔
چونکہ ایسی حکومت کی مثال ایک امانت دار شخص کی ہے۔ جس کے پاس امانت رکھوائی جائے، تو وہ اس امانت کی حفاظت کرتا ہے۔ ایسی حکومت بھی ایک امانت ہے جس کی شرط ظلم و بے راہ روی سے دوری اختیار کرنا ہے۔
اور جیسا کہ امانت کی تمام صورتوں میں امین مالک نہیں ہوتا، بلکہ امانت کی حفاظت کرتا اور ہر قسم کی کوتاہی پر جوابدہ ہوتا ہے۔ اس حکومت کے سرکاری عہدیدار بھی اسی طرح اپنے ہر عمل پر جوابدہ ہوتے ہیں۔
(اگرچہ عین ممکن ہے کہ ایسی حکومت بھی آمریت میں تبدیل ہوجائے لہٰذا) اس نظامِ حکومت کے انداز کو باقی رکھنے اور اس کے آمریت میں تبدیل ہونے سے بچانے کے لئے سب سے بڑا ذریعہ “عصمت” ہے (یعنی حکمران ایسا فرد ہو جو فطری طور پر گناہوں سے پاک ہو)۔ جو کہ شیعہ اثنا عشری کے بنیادی عقائد میں سے ہے، کہ امامِ وقت معصوم ہونا چاہئے۔ (5)
کیونکہ یہ بات انتہائی واضح ہے کہ اگر کوئی فرد علمِ لدنی کا مالک ہو اور اس کے ساتھ وہ مقامِ عصمت پر فائز ہو، اور سفلی و حیوانی خواہشات سے پاک ہو، اور اس عالی ترین رتبے کی دیگر لازمی شرائط بھی اس میں موجود ہوں۔ وہ رتبہ جہاں اس کی ہر بات حقیقت و سچائی کے مطابق اور وہ بھولے سے بھی کوئی غلط کام نہ کرے۔ اس کی کوئی بات سماجی مصلحت کے خلاف نہ ہو۔ تو اس رتبے کی حامل شخصیت، جو امت کے لئے ایثار کرسکے اور اس کا ہر لمحہ خدائی مراقبت میں ہو۔ اس کا محاسبہ بھی خدائی امر ہو۔ تو ایسی شخصیت پوری امت کو اس بلند ترین مقام تک لے جا سکتی ہے جس کی حقیقت کا ادراک بھی عقلِ بشری کی طاقت سےماوراء ہے۔
لیکن جب ایسی معصوم ہستی (نبی یا امام) ظاہراً سامنے موجود نہ ہو اور امت کو اس تک رسائی حاصل نہ ہو تو ان حالات میں نوشیروان عادل (6) جیسے کمالات کے حامل حکمران اور بزرگمہر جیسے صاحبِ علم و عقل اور حکمرانوں کے ہاتھ روکنے والے وزیر شاذ و نادر مثالیں ہیں۔
لیکن ایک تو آمریت میں ایسی مثالیں عنقاء پرندے کی طرح نادر ونایاب بلکہ کبریت احمر (7) ہیں، اور عام سلاطین میں ایسی صفات کا حامل ملنا ناممکن ہے۔ دوسرا یہ کہ آمریت میں شہریوں کو قانونی برابری کی سہولت میسر نہیں ہوتی۔ نہ ہی حکومتی امور میں ان کی مشارکت ہوتی ہے۔ اور عام لوگوں کےلئے اختیارات کے دروازے بند اور اعتراض کا بھی حق نہیں ہوتا، اس لئے اگر کوئی حکمران ان کو حقوق دیتا ہے تو یہ ان کے لئے سلطان کی ایک اضافی عنایت شمار ہوتی ہے۔
بہرحال انسانی طاقت و صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے معصوم حکمران کی غیر موجودگی میں، بلکہ اگر ان کا حق غصب ہوجائے اور ان کے پاس اختیارات موجود نہ ہوں، تو ان کی موجودگی میں بھی ایسی حکومت قائم کی جاسکتی ہے۔ جو امام معصوم کی حکومت کی مانند، اگرچہ رتبے میں کوئی حکمران امام معصوم کےبرابر نہیں ہوسکتا۔
ایسی حکومت قائم کرنے کی دو شرائط ہیں:
1: سب سےپہلے آئینی و دستوری ڈھانچے کی موجودگی ضروری ہے۔ جس میں انسانی سماج کی ضروریات اور مصلحتوں کو مدنظر رکھ کر حکومتی اختیارات کی حد بندی کردی جائے۔ اور سلطان کے اختیارات اور ملت کےاختیارات کا تعین ہو، دین کے تقاضوں کےمطابق اہل مملکت کے حقوق معین کئے جائیں۔
اور اگر حکمران طبقہ اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کرے تو ان کو معزول کرنے کا طریقہ کار بھی طے کردیا جائے۔ کیونکہ حکومتی ذمہ داریوں کو ادا نہ کرنا امانت میں خیانت ہے۔ لہٰذا دیگر خیانتوں کی طرح اس کی بھی سزا مقرر ہونی چاہئے۔
چونکہ دستور و آئین کی حیثیت، سیاسی معاملات میں ایسے ہی ہے جیسے فقہی مسائل میں تقلید کرنے والوں کے لئے اپنے مجتہد کے فتاوی کی کتاب، اسی وجہ سے اس دستور کو “بنیادی آئین” یا نظام نامہ بھی کہا جاتا ہے۔
ایسا آئین اگر حکومتی فرائض و عوامی حقوق کی حدبندی پر مشتمل ہو، اور اس میں انسانی سماج کی تمام تر مصلحتوں کو مدنظر رکھا جائے، اور وہ آئین شریعت کا بھی مخالف نہ ہو تو اس آئین کی پابندی شریعت کی رو سے ضروری ہے۔
آئین سےمتعلق دیگر وضاحتیں آگے چل کر بیان ہوں گی۔

2 : اہل عقل و دانش کی ایک ایسی انجمن یا شورائی کمیٹی کا قیام بھی ضروری ہے جو حکومتی اقدامات پر نظارت کرے اور حکومت کا احتساب بھی کرے، شورائی انجمن میں ایسےافراد ہونےچاہئیں جو قوم کےخیرخواہ اور بین الاقوامی حقوق سے آگاہ ہوں۔ اور زمانے کےتقاضوں سے بھی واقف ہوں۔ وہ انجمن، مجلس شورا یا قومی اسمبلی ہے جس کا کام حکومت اور انتظامیہ پر نظارت کرنا ہے۔
البتہ کامل احتساب اور مکمل نظارت، تبھی ممکن ہے جب قوہ مجریہ، یعنی حکومت کے تمام شعبوں پر اس قومی انجمن یعنی مجلس شورا (قومی اسمبلی) کی نظارت ہو اور مجلس شورا پر پوری قوم کی نظارت ہو۔
اگر ان دونوں میں سےکہیں بھی خلل ہو،
مثلا حکومت یعنی قوہ مجریہ پر مجلس شورا کی نظارت باقی نہ رہے، تو اس کا نتیجہ حکمران کی آمریت کی شکل میں سامنے آئےگا۔
اور اگر عوام کی نظارت مجلس شورا پر باقی نہ رہے تو اس صورت میں مجلس شورا کی ڈکٹیر شپ قائم ہوسکتی ہے چونکہ اہل سنت والجماعت اہل حل و عقد کو حکمران کے انتخاب کا حق دیتے ہیں۔ اور اہل حل و عقد کے فیصلوں کی پیروی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اس لئے اہل سنت کی نظر میں مجلس شورا کا قیام جائز و مشروع ہے۔ اور اس کے لئے مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔
لیکن شیعہ اثنا عشری مسلمان، زمانہ غیبت امام میں عمومی و سماجی مسائل کو امام عصر(عج) کے نائبین عام (8) کا اختیار سمجھتے ہیں۔ اس لئے جو مجلس شورا قائم ہو اس میں چند مجتہدین یا ایسے عادل مومنین کا ہونا ضروری ہے جن کو مجتہدین کی طرف سے تائید واجازت حاصل ہو۔ اس صورت میں مجلس شورا کے فیصلے جائز و مشروع قرار پائیں گے ۔ اس کی مزید وضاحت آگے چل کر آئے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

حواشی و حوالے:
1: حکومت کی پہلی قسم کا تذکرہ پچھلی قسط میں ہوچکا ہے۔
(2)عرض مترجم: بادشاہی نظام میں مخالفین کو مثلہ کردیا جاتا تھا۔ اور مثلہ کرنے کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ایک ٹانگ، ایک آنکھ ، ایک بازو اور ناک کاٹ لیتے تھے۔
(3) عرض مترجم: یہ مصنف کی رائے ہے کہ ہرحال میں حکمران کا ہونا ضروری ہے۔ اور سماج حکومت کےبغیرنہیں چل سکتا۔ کئی فلاسفرز اور سکالرز اسی نظرئیے کے قائل ہیں۔ لیکن انارکسٹ فلاسفرز اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ وہ حکومت کو تمام سماجی برائیوں کی جڑ سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ ریاست (State) کے مخالف ہیں۔
(4) عرض مترجم:
متن میں مذکور اصطلاحات کی وضاحت درج ذیل ہے:-
حکومت مقیدہ: جس میں حکمران کے اختیارات مقید یعنی محدود ہوں۔
حکومت عادلہ: عدل و انصاف قائم کرنے والی حکومت۔
حکومت محدودہ: جس میں حکمران کے اختیارات کی حدود مقرر ہوں۔
حکومت مسئولہ: جس کے حکمران ذمہ دار اور عوام جواب دہ ہوں۔
دستوریہ: جو حکومت ایک آئین کی پابند ہو۔
حکومت مشروطہ: جس میں حکمران من مانی نہ کرسکے اور اس کے فیصلوں کا نفاذ مجلس شورا کی تائید کا محتاج ہو۔
(5) شیعہ اثنا عشری یعنی بارہ امامی شیعہ کا عقیدہ ہے کہ رسالت مآب (ص) کے بعد بھی معصوم عن الخطاء (گناہ اور غلطیوں سےمبرا) انسانوں کو حکمران بننا چاہئے۔ اور جن بارہ اماموں کو رسول اللہ (ص) کا جانشین مانتے ہیں۔ ان کی نظر میں وہ معصوم عن الخطاء تھے۔
(6)عرض مترجم: عوام میں مشہور ہے کہ ایران کا بادشاہ نوشیروان بہت عادل حکمران تھا۔ دراصل ساسانی دربار سے وابستہ مورخین اور شاعروں نے اس کو عادل مشہور کررکھا ہے۔ اور مصنف نےبھی اسی رائے کی پیروی کی ہے۔ لیکن بعض تاریخی حقائق اس بیان کی تردید کرتے ہیں ۔ دراصل نوشیروان بھی ان بادشاہوں کی طرح کا ایک بادشاہ تھا جو اپنی ذاتی خواہشات کو ہی عدل سمجھتے ہیں۔ نظام الملک طوسی کے مطابق اس نےمزدک اور اس کے12ہزار پیروکاروں کا دھوکے سے قتل عام کروایا تھا۔
(7)عرض مترجم: لغت کی کتابوں (ڈکشنریز) میں کبریت احمر کا مطلب لال سلفر (Sulfur Red/Sulphur) بتایا گیا ہے۔ لیکن چونکہ قدیم الایام میں سرخ رنگ کا سلفر ایک نایاب کیمیکل تھا۔ اسی وجہ سے عربی اور فارسی ادب میں کسی چیز کی نایابی کو بیان کرنے کے لئے یہ ضرب المثل بولی جاتی ہے کہ “فلاں چیز کبریت احمر ہے”۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ چیزبہت ہی نایاب و نادر ہے۔
جیسے سنائی کا شعر ہے:
“نان خود بر سائلان کبریت احمر کرده اند.”
سنائی
(8) شیعہ اثنا عشری فقہ میں اصولی کہلائےجانے والے زیادہ تر علماء و فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ امام مہدی (عج) کی غیبت کے زمانہ میں علماء ان کے نائب عام ہیں۔ نائب عام کا مطلب یہ ہے کہ علماء کو عمومی طور پر امام کی نیابت حاصل ہے۔ جبکہ نائب خاص وہ ہوتا ہے۔جس کا نام لے کر اس کو نائب مقرر کیا جائے۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply