اُلٹ کوششوں کا قانون/ندا اسحاق

“Law of Reversed Effort”
“آپ جس چیز کو شدت سے چاہتے ہیں کائنات اس کو آپ سے ملانے میں جت جاتی ہے” (یوں لگتا ہے کہ کائنات کو شاید اور کوئی کام نہیں سوائے ہماری ڈوپامین (dopamine) خارج کرنے والی خواہشات کو پورا کرنے کے علاوہ) جیسے قول ہم سنتے ہیں اکثر، لیکن کیا ہم سب کی زندگی میں کچھ ایسے مقاصد موجود نہیں جن کو حاصل کرنے کے لیے ہم نے دن رات، زمین آسمان ایک کردیا لیکن ہمارے ہاتھ کچھ نہ لگا اور ان مقاصد کو حاصل کرنے کی شدت اور اضطراب کی اذیت الگ سہنی پڑی ہوتی ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہمارے شدت سے چاہنے پر بھی کائنات نے کبھی ہمارا ساتھ نہ دیا، اسکا جواب آپ کو انگریز فلسفی اور لکھاری ایلڈس ہکسزلے کا فلسفہ “لوششوں کے الٹ ہونے کا قانون” کسی حد تک دے سکتا ہے۔

اس قانون کے مطابق شعوری طور پر کسی مقصد یا کام کے لیے زیادہ کوشش کرنا الٹ نتائج لاسکتا ہے۔ ہمیں اکثر کہا جاتا ہے کہ دگنی جدوجہد کرو، لیکن دگنی جدوجہد اور شعوری طور پر اپنے پسندیدہ نتائج کو حاصل کرنے کی تگ و دو اضطراب (anxiety) کو جنم دیتی ہے۔ کب پرفارم کرنا ہے اور کب “جانے دینا” (let go) کرنا ہے، یہ آرٹ انسان زندگی کے تجربات کے ساتھ سیکھ لیتا ہے۔ البتہ وہ لوگ جنہیں ٹروما سے گزرنا پڑا ہو یا جن کا والدین کے ساتھ ایسا تجربہ رہا ہو کہ وہ کسی بھی چیز/کام کو لے کر جنونی (obsessed) ہوجاتے ہوں اور انہیں اضطراب کا سامنا رہتا ہو تو ان کے لیے اس قانون کو سمجھنا اور پریکٹس کرنا ان کے اضطراب میں کمی لا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر آپ کو نیند نہیں آرہی لیکن آپ نے کسی سیلف ہیلپ کتاب میں پڑھ لیا کہ کامیابی کا راز جلدی سونے میں ہے، آپ کو عادت نہیں جلدی سونے کی یا پھر کسی اور وجہ سے، لیکن آپ زبردستی سونے کی کوشش کررہے ہیں اب آپ کو نیند تو آئے گی نہیں البتہ اس کی جگہ ‘غصہ’ ضرور آنے لگے گا، آپ کی کوششیں الٹ ہونگی۔

ایسے ہی جب آپ کو کوئی پسند آئے اور وہ انسان دلچسپی کا مظاہرہ نہ کرے لیکن آپ اسکو راضی کرنے کے لیے زمین آسمان ایک کررہے ہیں کیونکہ یہ خواہش آپ کا جنون بن چکا ہے کہ وہ انسان آپ کو پسند کرے، بہت ممکن ہے کہ آپ سے متاثر ہونے یا پسند کرنے کی بجائے وہ مزید آپ سے اکتاہٹ کا شکار ہو۔

مشہور سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر وکٹر فرینکل اپنی کتاب “مینز سرچ فار میننگ” میں کہتے ہیں کہ انکا ایک مریض جو بولتے وقت ہکلاتا تھا اور بہت شدت سے چاہتا تھا کہ وہ پرفیکٹ طور پر گفتگو کرے لیکن وکٹر کہتے ہیں کہ وہی شدت اور نہ ہکلانے کی چاہ اس کی گفتگو کرنے کے طریقے کو اور بھی نقصان پہنچاتی۔

اکثر مرد حضرات اپنی جنسی کارکردگی کو لے کر پریشان ہوتے ہیں، ان کے ذہن میں یہ خرافات ہوتی ہیں بہتر جنسی کارکردگی انکی خود-توقیری (self-worth) کی نشانی ہے جس کی وجہ سے وہ اس کے متعلق اضطراب میں چلے جاتے ہیں، یا ان کے ساتھ ہوئے جنسی ابیوز کی وجہ سے ان میں جنسی کارکردگی کو لے کر اضطراب پایا جاتا ہے۔ کیونکہ شدت سے بہتر کارکردگی دینے کی چاہ الٹے اکثر الٹ نتائج کو جنم دیتی ہے۔

ان تمام مثالوں میں ایک بات کامن ہے اور وہ ہے شدت سے اپنے پسندیدہ نتائج کو چاہنا۔ کوششوں کے الٹ ہونے والے قانون سے ملنے والی اذیت کو کیسے کم کیا جائے…

چونکہ فطرت میں اکثر ہمارا دماغ جن چیزوں کو بظاہر جس طرح تصور کرتا ہے انکی حقیقت عموماً مختلف ہوتی ہے، ہمیں کہا جاتا ہے کہ دگنی محنت کرو تو نتیجہ دگنا آئے گا، یا زیادہ کوشش کرو تو وہ چیز مل جائے گی، لیکن اکثر دگنی محنت یا زیادہ کوشش سے الٹے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ وکٹر فرینکل نے اپنی کتاب میں اس ہکلانے والے نوجوان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس نوجوان کو “متضاد ارادہ” (paradoxical intention) کی تکنیک کو پریکٹس کرنے کو کہا۔ اس تکنیک میں آپ اپنا سارا دھیان اپنے پسندیدہ نتائج سے ہٹا دیتے ہیں، مثال کے طور پر وہ نوجوان جو شدت سے چاہتا تھا کہ وہ نہ ہکلانے اب وہ اس چاہ سے دھیان ہٹا دے گا اور نہ ہکلانے کی کوشش نہیں کرے گا۔

اس نیند والی مثال میں یہ تکنیک کچھ یوں کام کرسکتی ہے کہ آپ کو نیند نہیں آرہی تو آپ نیند پر سے دھیان ہٹا کر کتاب پڑھ سکتے ہیں یا کوئی اور سرگرمی انجام دے سکتے ہیں، بہت ممکن ہے کہ دھیان ہٹانے کے بعد کچھ دیر میں آپ کو نیند آجائے، اگر نیند نہ بھی آئے تو کم از کم غصہ نہیں آئے گا۔

مشہور امریکی شاعر چارلس بیوکاسکی سے انٹرویو میں پوچھا گیا کہ آپ اتنی اچھی تخلیق کاری کیسے کرلیتے ہیں، جواب میں انہوں نے کہا کہ “میں زیادہ کوشش نہیں کرتا”۔ چارلس کہتے ہیں کہ وہ اپنی بہترین کارکردگی دکھا کر نتائج کی پرواہ کیے بغیر بار بار زبردستی اپنی تخلیق کاری کے متعلق سوچتے یا دگنی کوششیں نہیں کرتے، وہ صبر سے کام لیتے ہیں، انتظار کرتے ہیں۔

ایلڈس کہتے ہیں کہ “ایکشن لے کر اس ایکشن کے نتائج کو بنا کسی مداخلت کے ‘جانے دینا’ (let go) کرنا اور اس کے نتیجے کو خود پراسس ہونے دینا آپ کی کوششوں کے الٹ ہونے اور اضطراب کو جنم لینے سے بچاتا ہے”۔

اگر آپ طالبعلم ہیں تو پڑھائی کے بعد آرام بہت ضروری ہے تاکہ آپ کا دماغ تمام حاصل کردہ معلومات کو پراسس کرسکے۔ آرام صرف جسمانی نہیں بلکہ دماغی آرام۔ ڈاکٹر کال نیوپرٹ بھی اپنی کتابوں میں طالبعلموں کو پڑھائی کے بعد مکمل آرام اور لی گئی انفارمیشن کو جذب (absorb) کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، اپنی سکت سے زیادہ اور نیندیں حرام کرکے پڑھنے والے طالبعلموں کا یہ طریقہ عملی اور دیرپا بلکل نہیں ہوتا۔ ذہنی آرام کے دوران فون سے دور رہنا ضروری ہے۔

اکثر لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ ٹروما یا لت سے کیسے جان چھڑائی جائے، یہ لوگ بہت شدت سے اپنے درد سے جان چھڑانا چاہتے ہیں لیکن یہ جتنا کوشش کرتے ہیں اتنا ہی منفی نتیجہ آتا ہے۔ آپ کے دماغ کو کسی بھی رویے یا لت کو درست کرنے میں وقت لگتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرا ذاتی تجربہ ہے، میں نے جب بھی شدت سے کچھ نتائج کی توقع رکھی تو اضطراب ہوا اور زیادہ تر مجھے میرے پسندیدہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ جب بھی میں نے زیادہ پرواہ نہ کرکے کچھ کام کو انجام تک پہنچایا تو نتائج میری توقع سے اچھے تھے۔ ایکشن لے کر زیادہ پرواہ نہ کرنا اور نارمل رہنا ایک ایسی ذہنی حالت ہے جسے حاصل تو سب کرنا چاہتے ہیں لیکن اسے پریکٹس کرنے کے لیے اپنے پسندیدہ نتائج سے اپنی سوچ ہٹانا مشکل کام ہوتا ہے، لیکن یہ ایک بہتر ذہنی حالت ہے، جس میں آپ کی توانائی کو ضائع کرنے والے اضطراب سے آپ کی جان کافی حد تک چھوٹ سکتی ہے۔

Facebook Comments

ندا اسحاق
سائیکو تھیراپسٹ ،مصنفہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply