میں تو چلی چین /دیکھنا دریائے پرل کے قیمتی موتی شمائن کو (قسط25) -سلمیٰ اعوان

ٹیکسی ڈرائیور بھی بڑا من موجی قسم کا تھا۔دکھانے کی حامی ہی نہیں بھری بلکہ کچھ علم میں بھی اضافہ کرنے لگا۔
جزیرے پر انگلینڈ اورفرانس مسلط تھے۔جزیرے کی تاریخ تو ویسے بہت ہی پرانی ہے۔سونگ اور لیانگ بادشاہوں سے اپنا ناطہ جوڑتی ہے۔
اب جب وہ جوش خطابت میں بول رہا تھا۔ میری نظریں باہر کے منظروں میں اُلجھ گئی تھیں ۔شام کی سنہری کرنوں میں چمکتا ہرا کچور سبزہ ۔سہ چہار منزلہ کلاسیکل طرز تعمیر کی حامل عمارتیں جن کے ماتھوں پر برطانوی طرز تعمیر کے مخصوص رنگ کی گہری چھاپ تھی۔شفاف سڑکیں جن پر گھومتے پھرتے بچے ،جوان اور بوڑھے جیسے اِن منظروں میں مزید رعنائیاں بھر رہے تھے۔کِسی گلی کے موڑ پر مجسمے اِس کا حسن بڑھاتے تھے۔ پُرسکون ماحول میں رچی میٹھی سی خنکی بھلی لگتی تھی۔
کیسی لٹیری قومیں تھیں ۔کہاں سے آئیں اور کیسے قابض ہوگئیں؟تاہم ایک بات کچھ بنا بھی گئیں۔

میٹرو اسٹیشن کی وسعتیں دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔گو اس میں آرٹ اور کلچر کے وہ رنگ نہیں تھے جن کے لیے ماسکو کے میٹرو اسٹیشن دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔ مگر اس کا پھیلاؤ اور جدتیں اپنے حسابوں دونوں ہی بے مثال تھیں۔ سیڑھیاں زینے در زینے چڑھتی چلی جاتی تھیں۔اب ہانپنے والی بات ہی تھی۔باہر منظروں کے نئے رنگ دیکھنے کو ملے۔ اوپر والے کی اعلیٰ اور ارفع تخلیق بھاگی پھرتی تھی۔ اور ہیڈ برج اور فلائی اور سڑکوں کا جال سا دائیں بائیں آگے پیچھے سے ایک دوسرے کو یوں کاٹ رہا تھا کہ بندہ کا ماتھا گھومنے والی بات تھی۔

عمران نے ٹیکسی کے لیے ادھر ادھر دیکھا۔ پھر موبائل پر رابطہ ہوا۔ تھوڑی دیر میں ہم ٹیکسی میں ایک نئے جہان رنگ و بو کی طرف جارہے تھے۔ شکر ہے عمران نے میرے دل کی بات جان لی تھی کہشام کا حسن جزیرے پر ٹوٹ کر برس رہاہے۔ ٹیکسی ڈرائیور کو انگریزی بھی آتی ہے۔ہمارے لیے ضروری ہے کہسیدھے ہوٹل جانے کی بجائے ایک چکر جزیرے کا بیٹھے بیٹھے لگ جائے۔
جزیرہ کیا تھا؟اگر میں حسن کے قصیدے پڑھنے لگوں۔اگر میں ارضی تشبیہات کے ڈھیر لگادوں۔اگر میں استعاروں کی زبان بولنے لگ جاؤں ،مجھے یقین ہے کہ اس کے حسن و جمال کی وضاحت میں جملوں کی قطاریں لگ جائیں گی اور حق خدمت پھر بھی ادا نہ ہوگا۔

حسن تعمیر میں اتنی انفرادیت تھی کہ اگر نظروں سے ابھی گوتھک طرز کا چرچ گزرا ہے تو چند ہی لمحوں بعد کِسی برٹش کلاسیکل عمارت نے جکڑ لیا ہے۔اِن عمارتوں کا ایک سلسلہ چمکتے ہرے کچور درختوں کے پس منظر میں لشکارے سے مارتا نظر آتا ہے۔کہیں باروق سٹائل اور کہیں وکٹوریہ طرز کی کھڑکیاں بتاتی تھیں کہ مکین کتنے صاحب ذوق لوگ تھے۔
سڑکوں کے دائیں بائیں پھولوں کے لمبے لمبے قطعے تھے۔گو خوش رنگ پھولوں نے ابھی انہیں خوش نظر نہیں بنایا تھا مگر بہار کے جوبن پر ان کا جوبن بھی تو قابل دید ہی ہوتا ہوگا۔

اب ایسے میں جنوب کی زرخیز زمینوں کے زرخیز شاعر کیوں نہ یاد آتے۔وہ آئے اور اس کے ساتھ تھانگ Tangسلطنت یادآئی تھی۔چین کے سب سے بڑے شاہی گھرانوں میں سے ایک تھانگ Tangخاندان (618 – 907)، کو چینی شاعری کے سنہری دور کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔سوئے ہو Cui Hu (772 – 846) اپنے عہد کا ایسا ہی بے مثال شاعر تھا۔جس نے شاعری میں بہت سے نئے اضافے اور نئی خوبصورتیاں پیدا کیں۔
سوئے ہوCui Huکی ایک من موہنی سی نظم تو ذرا دیکھیئے۔
گذشتہ سال اسی دن اسی گھر میں
ایک خوبصورت چہرے نے وفور شوق سے کچھ پوچھا تھا
کچھ ایسا لگا تھا
جیسے آڑو کے گلابی گلابی شگوفے
اس کے چہرے کے سنگ سنگ کھلے ہوں
بے خبر ہوں
آج وہ گلابی چہرہ جانے کہاں چلا گیا ہے
صبح کی عطر بیز ہواؤں میں
ابھی تک وہ گلابی شگوفے توانائیوں سے مسکراتے ہیں
چھوٹا سا جزیرہ جو برٹش اور فرنچ حصّوں میں بٹا ہوا ہے ۔ایک پل کا نام برٹش برج اور دوسرے کونے والے کا نام فرنچ برج۔
اف حسن و جمالِ فطرت کے جیسے دریا سے بہہ رہے تھے۔اب ایسے میں کیسے نہ زبان سے نکلتا۔
‘‘جزیرے پر تو جنت کا گمان گزرتا ہے۔’’
شیو چھوان ڈرائیور نے ہنس کر کہا۔
‘‘ واقعی ۔پر اِسے بنانے والے نرے دوزخی تھے۔چین کوئی کل کی سپر پاور بننے والی طاقت تھوڑی ہے۔یہ ماضی کی بھی سپر پاور تھی۔

ایک چکر لگانے کے بعد دوسرے چکر کا میں نے کہا۔مجھے جیسے تھوڑا سا اندازہ ہوگیا تھا کہ ڈرائیور کو چینی تاریخ سے خاصی آگاہی ہے۔اور اُسے بولنے اور خود نمائی کا بھی شوق ہے۔اس چکر میں نئے رنگ سامنے آرہے تھے۔

جابجا دھرے مختلف کرداروں کے عکاس ڈھیروں ڈھیر مجسمے اس کی شان بڑھاتے تھے۔بچے ،بوڑھے، عورتیں،مرد، لڑکیاں ،لڑکے سب کہیں کوئی سائیکل پر چڑھا ،کوئی پیدل چہلیں کرتے پھرتے تھے۔ہوٹل وسط میں تھا۔ دو چکر لگانے کے بعد اُترے۔قریب ہی کافی بار اور ریسٹورنٹ بھی نظر آئے تھے۔گاڑی سے اُترتے ہی میں نے ڈرائیور سے کہا۔
‘‘میں تمہاری مشکور ہوں گی اگر تم میرے ساتھ کافی پیو اور تھوڑی باتیں کرو۔مجھے جیسے محسوس ہوا ہے تم کافی پڑھے لکھے ہو اور تاریخی شعور بھی رکھتے ہو۔’’
سعدیہ ہنسی اور عمران کا ہاتھ پکڑ کر اُسے کھینچتے ہوئے بولی۔
‘‘آؤ چلیں۔میری ماں کا تو وہ حال ہے جتھے ویکھاں تواپرات ،اوتھے گاواں ساری رات۔ ہم آرام کرتے ہیں۔پھر نکلیں گے۔’’
شکر کا بڑا لمبا سانس میں نے بھرا تھا۔
کافی کے مگ ہاتھوں میں تھام کر میں نے پوچھا تھا۔
‘‘ہاں تو اب بتاؤ کہ یہ چین کیسے ان یورپی طاقتوں کے چنگل میں پھنسا۔’’
‘‘آپ کا ہندوستان بھی تو اِن کے قبضے میں تھا۔ وہ کب آزاد ہوا؟’’
ہندوستان پر برطانیہ قابض تھا۔1947میں اسے آزادی ملی تھی۔
دراصل جب مسلم ہندوستان دوسری بڑی معاشی قوت بن کر ابھرا تھااس وقت چین بھی دنیا میں بڑا نمایاں تھا۔مگر دونوں نے نئے عالمی رحجانات کو نہ سمجھا ۔ایک پر برطانیہ قابض ہوا اور دوسرے کو بھی اسی برطانیہ نے ہندوستان سے افیون کی سپلائی کرکے افیمی بنا دیا۔

1839کا زمانہ تھا جب چین اور برطانیہ دونوں کے درمیان جنگ ہوئی۔علم سائنس اور ٹیکنالوجی جیت گئی۔اور چین غلام بن گیا۔ہانگ کانگ ان کے حوالے ہی نہیں کیا بلکہ ساتھ بھاری جرمانہ بھی ادا کیا۔ تاجروں کو چین میں بغیر کسی روک ٹوک کے داخلے کی اجازت مل گئی۔یہاں بدقسمتی یہ بھی رہی کہ مغربی طاقتیں تو رہیں ایک طرف پڑوسی ہی نہیں مان تھے۔جاپان نے بھی چڑھائی کردی۔ فرانسیسی بھی بھاگتے آئے۔ جرمنی کیوں پیچھے رہتا؟بے شمار جزائر ان عیار قوموں نے ہتھیا لیے۔تو یہ گونگ چو بھی یورپی طاقتوں کا کینٹن Cantonتھا ۔یہ جزیرہ اُن کے امیر ترین لوگوں کی رہائش گاہ بنی جسے آپ ابھی جنت کہہ رہی تھیں۔
میں مسکرائی تھی۔
کیسا ذہین آدمی تھا۔منہ سے نکلی بات کو پلٹا کر میرے منہ پر مارا تھا۔

چین پر اس وقت ملکہ شی حکمران تھی۔مغربی طاقتیں بھی مقابلے پر آکھڑی ہوئیں۔آٹھ کااتحاد خیر سے جن میں برطانیہ، امریکہ،روس،فرانس، جرمنی،اٹلی، اسٹریا،ہنگری اور جاپان تھے۔ اور جو چند باقی رہ گئے تھے۔وہ بھی چھوٹے موٹے فوجی دستے بھیج کر مال غنیمت کے حصّہ دار بن گئے۔ یہ ہالینڈ،بیلجئیم اور اسپین تھے۔اب نہ اتفاق ،نہ جدید اسلحہ ۔شکست تو ہونی تھی۔وہ ہوئی۔ مغربی فوجیوں کے لیے اب لوٹ مار کے راستے کھل گئے تھے۔شکست نے انہیں ظلم و ستم جن میں خواتین کی بے حرمتی بھی شامل تھی کا بازار گرم کرنے کا پروانہ دے دیا تھا۔ اور مشنریوں نے بھی کچھ لحاظ نہ کیا۔

چینی دارلحکومت تب یہ پیکنگ تھا کے امریکی سفارت خانے کے فرسٹ سیکرٹری بارے کہا جاتا ہے کہ جب وہ 1901 میں امریکہ جانے لگا تو اس کا سامان ریل کے کئی ڈبوں میں بک کیا گیا تھا۔یہ چینی آرٹ کا وہ سامان تھا جو اس نے امریکی فوجیوں سے اونے پونے خریدا تھا۔ ماشا ء اللہ سے عظیم ملک کی عظیم فوج نے شاہی محلات اور امراء کے گھروں میں بہتیرا اودھم مچایا تھا۔چوروں کے تھان اور لاٹھیوں کے گز۔یہ سب بیجنگ کے شاہی محلات اور اُمرا کے گھروں سے لوٹا گیا تھا۔

یہ وہ دن تھے جب چین کے مختلف علاقوں بمعہ پایہ ء تخت کے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا راج تھا ۔امریکی اور برطانوی فوجی مفتوحہ علاقوں سے لوٹ مار کا جو سامان اکٹھا کرتے اسی دن شام کو نیلامی کردی جاتی۔برطانوی سفارت خانے کے باہر ہر ہفتہ کھلے عام نیلامی ہوتی۔ سفارت کاروں کی بیویاں بہت چاؤ سے اس کی خریداری کرتیں۔ خریداری میں پیش پیش کون لوگ ہوتے؟بڑے بڑے لوگ امریکی سفیر کلاؤڈ میکوئل اور ‘‘لندن دی ٹائمز’’ کا نامہ نگار جارج ارنسٹ مورسین تو بڑے نمایاں ہیں۔ یہ سامان آج بھی برطانیہ اور امریکی لارڈ زکے گھروں اور عجائب خانوں میں موجودہے۔
مشنریوں کی لوٹ مارا اور کرتوتوں بارے شہرہ آفاق مصنف مارک ٹوئن نے بڑے کھلے لفظوں میںTo The Person Sitting in darkness میں لکھا اور انہیں خوب خوب رگیدا۔
ملکہ شی نے عوام کا نہیں اپنے اقتدار کا سوچا اور معاہد ہ کرلیا۔ تاوان جنگ دینا پڑا اور 1940تک یہ دیا جاتا رہا۔

واہ موجیں تھیں ان اتحادیوں کی سر گھی میں اور پاؤں کڑاھی میں ۔بیجنگ سے شنگھائی تک فوجی اڈے بنانے کی اجازت بھی حاصل کرلی۔ دراصل چین تو مغربی طاقتوں کی نوآبادی بن گیا تھا۔
مگر وہ جو کہتے ہیں کہ لالچ ہوس اورمال سمیٹنے کی بنیاد پر جو کٹھ ہوتے ہیں پائیداری اُن میں نہیں ہوتی۔اتحادی آپس میں ہی لڑنے لگے تھے۔یہ بھی اوپر والے کی عنایت تھی کہ ان میں پھوٹ پڑ گئی۔ اگر کہیں یہ اتحادرہ جاتا تو پھر چین کے اسی طرح ٹکڑے ہونے تھے جیسے مشرقی وسطیٰ کے ہوئے۔یہ لڑ پڑے اور پہلی جنگ عظیم اِس کی کوکھ سے نکلی۔پھر دوم نے برطانیہ کی سُپر چودھراہٹ کا سورج غروب کردیا۔ امریکہ کا طلوع ہوا۔ساتھ سویت یونین بھی آکھڑی ہوئی۔

ایک تو چینی عوام ملکہ شی سے ناکوں ناک نالاں اس پر طرّہ نئی نسل کو پختہ یقین کہ ڈاکٹر سن یت سین جیسے انقلابی رہنما کی تنظیم کومنتانگ کے ہاتھ مظبوط کرنے میں ہی چین کی نجات ہے۔ایسا ہی ہوا ۔بادشاہت کا خاتمہ اور عوامی جمہوریہ چین کا نیا وجود ہوا۔مگر جنرل یوان کی ہوس نے قومی اسمبلی اور آئین کے پرخچے اڑا کر اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔مگر ہوا یہ کہ دیگر جرنیلوں نے یوان کے اِس قدم کو پسند نہ کیا۔بغاوتوں،مزاحمتوں،انتشار اور بدامنی کا سامنا ایک بار پھر بیچارے چینی عوام کررہے تھے۔وار لارڈ زمختلف حصّوں پر قابض ہوگئے۔ملک دو مکتبہ فکر کے نرغے میں آگیا۔سفید اور سرخ ،قوم پرست اور کیمونسٹ ۔ڈاکٹر سن یات کی بیماری اور وفات نے موقع فراہم کردیا۔ چیانگ کائی شیک مقامی وار لارڈ اپنی طاقتور فوج کے ساتھ شمالی چین پر قابض ہوگیا۔

بیچارے چینی عوام جو کیمونسٹ راج چاہتے تھے۔ماؤ اور چواین لائی جیسے لیڈر بھی میدان میں اترے ہوئے تھے۔لانگ مارچ جیسی تاریخی سرگرمی اسی دور کی پیداوار ہے۔پڑوسیوں کی افراتفری اور بدامنی نے جاپانیوں کو بھی شہہ دی۔وہ بھی چین پر قابض ہونے آدوڑے۔1945میں امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرا کر اُن کے ولولوں کو تو توڑ دیااور ساتھ ہی چین کی بھی جان چھٹ گئی۔مگر چین میں ابھی بھی خانہ جنگی تھی۔1949میں کیمونسٹ فوج نے جنرل کائی شیک کو شکست دی اور ماؤزے تنگ کی زیر قیادت عوامی جمہوریہ چین کی حکومت بنی۔

خیال تھا کہ اب لوگوں کو سکھ کا سانس ملے گا۔مگر نئی کیمونسٹ حکومت نے سوویت یونین کے طورطریقوں اور پالیسیوں کو اپنا کر بہت سارے تجربات کیے جن میں کچھ کامیاب اور بیشتر ناکام ہوئے۔ملک میں بھوک ننگ اور افلاس کا دور دورہ رہا۔حتٰی کہ ماؤ کے مرنے کے بعدڈنگ شیاؤ ینگ نے ملک کو صحیح راستے پر گامزن کیا۔چین نے باہر کی دنیا پر دروازے کھولے ۔سائنس، ٹیکنالوجی ،ہنر اور تحقیق کو اپنا کر اپنی معیشت کو طاقتور بنایا۔اور آج کی کیا بات۔وہ تو آپ کے سامنے ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply