کامریڈ نذیر عباسی شہید کا خط، بنام جنرل ضیاالحق

جناب’’ شہیدِ فسادِ افغانستان!‘‘

آداب و تسلیمات کے تکلّفِ بے جا میں پڑنے کو میں عبث و بیکار سمجھتا ہوں ، کیوں کہ میں اور میرے قبیلے کے لوگ ’’سرخ سلام‘‘ اور ’’لال سلام‘‘ جیسے لفظوں کی حرمت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ الفاظ میں آپ کے لیے استعمال کرنے کا گنہگار نہیں ہو سکتا۔ ویسے بھی آپ جس طبقے کے مفادات کی نگرانی کرتے رہے ہیں اور آپ کے بھائی بند اب تک کر رہے ہیں، اُس طبقے کے جلادوں نے ان لفظوں کی پاداش میں ہونٹ سی دینے سے زبانیں کاٹ ڈالنے تک کو اپنا وتیرہ بنائے رکھا۔ سو ہم آگے بڑھتے ہیں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ کون سی قدرِ مشترک ہے جس کی بنیاد پر میں آپ سے مخاطب ہوں، وہ کون سا تعلق ہے جو اس خامہ فرسائی کا سبب ہے؟ سو پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں کہ ویسے تو ہم میں کوئی قدر مشترک نہیں تھی لیکن موت کا بھاری پتھر چومنے کے بعد ایک قدر مشترک البتہ پیدا ہو گئی ہے۔ وہ قدر مشترک یہ ہے کہ’’ شہید‘‘ آپ بھی ہیں اور شہید میں بھی ہوں۔ اگرچہ یہ بات بہت ہی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں ہی ایک جیسے اعزاز کے مستحق ٹھہریں۔ مگر آپ کو زیادہ پریشان ہونے یا کسی مشکل میں پڑنے کی ضرورت بالکل نہیں کہ ہمارے عہد کے ایک مزدور شاعر نے یہ مشکل بھی حل کر دی تھی اور کیوں نہ کرتا جس شاعر نے آپ کی فرمانروائی اور جہانبانی کا ’’ درخشاں عہد ‘‘ دیکھا ہو اس بے چارے پر لاکھ نعرے بازی کے الزام لگیں وہ یہی کچھ لکھ پا تا ،وہ ’’ ظلمت کو ضیا، صر صر کو صبا ،بندے کو خدا‘‘ کیا لکھتا۔ سو آپ کی’’ شہادت ‘‘ پر وہ چیخ پڑا:

چنگیز خاں شہید ہلاکو شہید ہے
مارا گیا جو دیس میں ڈاکو شہید ہے

ہر چند کہ یہاں شہادتیں بھی مشکوک ہیں لیکن یہ فیصلہ تو وقت اور محنت کش عوام کرتے ہیں، اس کسوٹی پر سچ ہی کھرا اُترتا ہے اور یہ عدالت جس کے سر پر کوئی فوجی تلوار نہیں لٹک رہی ہوتی، کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتی۔ جب کہ کذب و باطل کو نگوں سار ہی ہونا پڑتا ہے اور تاریخ کی لعنت ہی اس کا مقدر بنتی ہے۔ زیادہ دور کیوں جائیں، آپ کو میرے قبیلے کا “انتونیو گرامچی “یاد ہوگا جسے برسوں اطالوی آمر” مسولینی” نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے فوجی بوٹوں کی نوک پر رکھا۔ یہاں تک کہ بدترین تشدد سہتے سہتے وہ دورانِ اسیری جاں سے گزر گیا۔ مگر اس کا نام اور کام تاریخ میں امر ہو گیا۔ اس نے ظلم و ناانصافی کے چوکھٹ پر سر نہیں رکھا اور اپنے قاتلوں سے زندگی کی بھیک نہیں مانگی۔ اور مسولینی۔۔۔۔ وہ اپنے ہی ہم وطنوں کے ہاتھوں سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور نشانِ عبرت بن گیا۔

آپ کو جرمنی کا نازی ہٹلر بھی یاد ہوگا، اپنی مہیب و سفاک فوجی طاقت کے نشے میں بدمست ہاتھی، کروڑوں معصوم انسانوں کا قاتل۔ اسی ہٹلر کی ایک نام نہاد فوجی عدالت کے حکم پر چیکو سلواکیہ کے جواں سال اشتراکی راہنما، صحافی و ادیب” جیولیس فیوچک” کو پھانسی چڑھا دیا گیا تھا۔ لیکن آج ستر برس گزر جانے کے باوجود بھی نازی عقوبت خانے میں اُس کی لکھی گئی تحریریں دنیا بھر کے انقلابیوں کو یہ ایقان بخشتی ہیں کہ وہ صبح ضرور آئے گی۔ حق وصداقت کا پرستار جیولیس فیوچک جیت گیا اور ناکام و نامراد ہٹلر کو خود اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا پڑا۔ اُس کا سارا فوجی دبدبہ و جلال خاک ہو گیا۔

آپ کو لاطینی امریکا کا بانکا انقلابی “چے گویرا” بھی یاد ہو گا جو کیوبا کے افق پر سرخ پرچم لہرانے کے بعد بولیویا کے جنگلات میں انقلاب کی لڑائی بندوق بدست لڑنے میں مصروف تھا۔ جسے زخمی حالت میں گرفتار کرنے کے بعد فوجی آمر جنرل بارین توس کے حکم پر امریکی CIA کے کل پرزوں کی نگرانی میں گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا تھا۔ اسی جنرل بارین توس نے ’’گلف آئل کمپنی‘‘ سے خیرات میں ملے ہوئے ہیلی کاپٹر کے ساتھ چے گویرا کی لاش باندھ کر اُڑان بھری تھی۔ مگر جنرل بارین توس کا انجام کیا ہوا ؟۔ محض ڈیڑھ سال بعد وہ اسی ہیلی کاپٹر کے ساتھ جل کر کوئلا بن گیا اور اس کا آقا یعنی انکل سام بھی اسے نہ بچا سکا۔ آج اس کا نام بھی کسی کو یاد نہیں۔ جب کہ چے گویرا آج دنیا بھر میں انقلاب کی علامت ہے اور اس کی زندگی سے بھرپور آنکھوں والی تصویر آج دنیا بھر کی طرح واشنگٹن اور نیو یارک میں بھی قاتل سرمایہ داروں کا تمسخر اُڑا رہی ہے۔

آپ کوچلی کا “سلوادور الاندے” بھی یاد ہو گا اور” جنرل پنوشے” بھی، وہی جنرل پنوشے جو ٹھیک آپ ہی کی طرح ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہوا تھا۔ پنوشے کے 17 سالہ تاریک دور میں چلی کے ہزاروں محبانِ وطن کے سر فوجی بوٹوں تلے روندے گئے۔ اسی چلی میں میرے ہی آدرش سے وابستہ ایک انقلابی نغمے گانے والا “وکٹر ہارا” بھی تھا۔ اشتراکیت کا گیت گانے کی پاداش میں فوجی سنگینوں کے ذریعے اس کی انگلیاں کچل دی گئیں مگر اس نے انہی فگار اُنگلیوں سے گٹار بجاتے ہوئے اشتراکیت کا گیت گایا تھا۔ وکٹر ہارا کا جسم گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا مگر اشتراکیت کا گیت زندہ ہے، وکٹر ہارا زندہ ہے۔ البتہ 23 برس بعد جنرل پنوشے نے اپنی قبر کو عوام کے غیض و غضب سے بچانے کے لیے بسترِ مرگ پر یہ وصیت کی کہ مرنے کے بعد اس کی لاش جلا کر راکھ سمندر میں بہا دی جائے۔ پھر اس کی وصیت پر عمل کا عبرت ناک منظر دنیا بھر میں ٹیلی ویژن کے ذریعے دیکھا گیا۔

اور کتنے نام گنواؤں، کتنے حوالے پیش کروں کہ عشاق کی یہ فہرست تو بہت طویل ہے۔ پیرس کمیون سے شکاگو، ماسکو سے بیجنگ، پیانگ یانگ، ہنوئی، جکارتہ اور ہوانا سے عدیس ابابا اور تہران سے کابل ومہران تک تاریخ کا ایک تسلسل ہے۔ ایک لافانی مسکان ہے جسے کوئی نہیں چھین سکا۔ میں بھی اسی قبیلے کا ایک فرد تھا، اسی انقلاب کا فرزند تھا، ہنستے گاتے ہوئے زینتِ دار بننا جس کی ریت ہے۔سو اپنے نظریات کی طرح مجھے اپنی شہادت پر کسی قسم کی ندامت نہیں ہے۔ کیوں کہ مجھے یہ اعزاز میرے دیس کے لافانی عوام نے عطا کیا ہے۔ اس لیے کہ میری جڑیں اپنی دھرتی میں پیوست ہیں۔ میرے خوابوں اور آرزوؤں کا محور یہاں کے کچلے ہوئے محنت کش اور ہاری تھے، میں ان کے روشن مستقبل کی خاطر دار و رسن سے گزارا گیا۔ نہ صرف اتنا بلکہ جس آدرش سے میں وابستہ تھا، وہ دنیا بھر کے مظلوم عوام کے لیے ایسی ہی خواہشات کا متقاضی تھا۔

جب کہ آپ ’’خطابِ شہادت‘‘ کے سزاوار اس لیے ٹھہرے کہ آپ نے نہ صرف یہاں کے مظلوم انسانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا بلکہ اس معاملے میں پڑوسی بھی آپ کے شر سے محفوظ نہیں رہے۔ آپ کو ’’شہادت ‘‘ کے منصب پر فائز کرنے والے سرکاری اور بیرونی امداد کے بل بوتے پر پٹاخے پھوڑ کر خود کو نابغۂ روزگار کہلوانے والے وہ ’’دانش ور ‘‘ تھے جنھیں یہاں کے لوگوں پر آپ کی مسلط کردہ سیاہ رات تو کبھی نظر نہیں آئی مگر وہ دوسرے خطوں میں اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والے صبح پرستوں کے ہاتھوں ظاہر شاہوں اور داؤد خانوں کی باقیات کے خاتمے کے غم میں دبلے ہو رہے تھے۔

ہم دونوں میں ’’شہادت‘‘ کی قدر مشترک کا ہونا تو خیر ایک بھونڈا مذاق ہی ہے کہ میرا دل صہیونی استعمار کے خلاف سینہ سپر فلسطینی حریت پسندوں کے ساتھ دھڑکتا تھا، لیکن آپ کو اُردن میں چند سکّوں اور تمغوں کے عوض ان کا خون بہانے میں بھی عار محسوس نہیں ہوئی۔ مجھے ایران کے انقلابیوں سے نسبت تھی جب کہ آپ کے ڈانڈے رضا شاہ پہلوی اور ’’ساواک‘‘ سے ملتے تھے۔ میں افغان انقلابیوں کے برپا کردہ ’’انقلابِ ثور‘‘ کا رفیق تھا جب کہ آپ اس کی کھوپڑی میں لہو پینے والوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ایران، افغانستان ہو یا فلسطین، سندھ ہو یا ہند، میں ہر جگہ سرخ پرچم کی سرافرازی کا آرزومند تھا ۔کیوں کہ میں تبدیلی اور انقلاب کو فطرت کا قانون سمجھتا تھا، لیکن آپ اپنے مغربی ’’کر م فرماؤں‘‘ کے جلو میں ہر انقلاب کے خلاف تھے،

آپ ہر اس تبدیلی کے خلاف تھے جس کے نتیجے میں صدیوں سے گُنگ لوگوں کو زبان مل رہی تھی اور وہ غلامی کا چولا اپنے کندھوں سے اتار پھینک رہے تھے۔ میں محنت کش عوام اور مظلوم اقوام کی عالمی تحریک کا سپاہی تھا اور آپ عالمی سامراج کے قصائی تھے جس کی نکیل امریکہ بہادر کے زیرِ پا تھی۔ میرا ہر عمل محنت کش عوام کے لیے تھا اور میں اپنے ضمیر کی عدالت میں اپنے انقلابی نصب العین کو جواب دہ تھا۔ جب کہ آپ کا ہر عمل محنت کا استحصال کرنے والوں اور قوموں کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے تھا اور آپ انہی کو جواب دہ تھے۔

انڈونیشیا کے پندرہ لاکھ سے زائد انقلابیوں کے قاتل فوجی ڈکٹیٹر جنرل سوہارتو کی طرح آپ کو بھی یہاں کے کمیونسٹوں کی گردنیں کاٹنے کا خبط تھا۔ جب کہ میرا ایمان تھا کہ ہر شہید کے سر بریدہ تن پہ نیا سر اُگے گا۔ سو آپ شانوں سے سروں کا بوجھ ہلکا کرنے کا شوق فرماتے رہے اور میں ان پر نئے سر اُگانے کا ہنر آزماتا رہا۔ دراصل ہم دونوں ہی اپنے حصے کا کام کرتے رہے کہ یہ ہماری طبقاتی ذمہ داری تھی اور ظاہر ہے کہ ان کی نوعیت کی طرح ان کے نتائج بھی مختلف ہیں۔

آپ کی مدد سے پینتیس برس قبل بارود کی جو فصل افغانستان میں بوئی گئی، اس کے شعلے آج یہاں رقص زن ہیں۔ ہم یہ کہنے پر معتوب وغدار ٹھہرائے گئے کہ امریکا، افغان انقلاب کو نا کام بنا کر وہاں قابض ہونا چاہتا ہے۔ مگر یہ آپ کے جانشین ہی تھے جن کے کاندھوں پر بیٹھ کر وہ افغانستان پر قابض ہو گیا۔ آپ کو نہ کوئی ’’پانچواں صوبہ ‘‘ مل سکا نہ وسطی ایشیا کی ریاستوں تک کے ’’ امیر المومنین‘‘ کا خطاب۔ سو، یہ بات آج عالم آشکار ہے کہ کوئلوں کی دلالی میں منہ ہی کالا ہوا۔

یاداش بخیر کہ یہی اگست کا مہینہ تھا؛ 9 تاریخ اور سن 80 کا سال تھا، جب میں اپنے حصے کا کام کر کے آپ کے فوجی عقوبت خانے میں اس جہانِ رنگ وبو سے رخصت ہوا کہ آزادی کے متوالوں کا یہی راستہ ہے۔ اور پھر آٹھ برس بیت گئے اسی اگست کی 17 تاریخ اور 88 کا سال تھا جب آپ کی بھی آخری گھڑی آن پہنچی۔ کچھ من چلے کہتے ہیں کہ جب بھاولپور کی فضاؤں میں آپ کا طیارہ بکھرنے لگا تو آپ نے اس میں سوار امریکی سفیر کے گلے لگ کر کہا تھا؛’’ رافیل مینوں بچا لے‘‘۔ رافیل خود ایک دم توڑتے نظام کا نمائندہ تھا، وہ آپ کو کیا بچا پاتا۔

میں نہیں جانتا کہ اس بات میں کتنی صداقت ہے البتہ آپ بہ خوبی جانتے ہیں کہ میں آخر تک اپنے انقلابی نظریات پر قائم رہا اور میں نے کسی جلاد سے، کسی ’’ امتیاز بلّے‘‘ سے زندگی کی خیرات طلب نہیں کی۔ کیوں کہ میں جانتا تھا کہ جسمانی طور پر خاتمے کا مطلب نظریات اور مقصد کی موت نہیں ہوتا۔ آپ نے دنیا بھر کی آمروں کی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے مجھے خاموشی سے دفنا دیا، ٹھیک اسی طرح جیسے اس سے قبل آپ کے ایک پیش رو جنرل ایوب خان نے کامریڈ حسن ناصر کو دفنایا تھا۔ میرے جنازے کو کندھا دینے کے لیے کوئی مونس وغم خوار موجود نہیں تھا تو ایسے میں میری لاش پر میرا عزیز سرخ پرچم کون ڈالتا؟۔ سرخ رنگ جس سے میرے قبیلے کے ہر فرد کو عشق ہے جو زمانہ قدیم سے زندگی کی علامت ہے، جو انقلاب اور تبدیلی کا رنگ ہے۔ سو، میرے بدن کے زخموں نے میرے کفن کو سرخ پرچم میں تبدیل کر دیا اور مجھے فخر ہے کہ میں سرخ رنگ کے ساتھ اپنی مرقد میں اُترا۔

میرے بے جان جسم نے یہاں بھی آپ کا تمسخر اُڑایا۔ رہ گئے آپ تو آپ کا نامہ اعمال تو ویسے بھی کوئی کم سیاہ نہیں تھا یقیناََ جھلسے ہوئے بدن نے کفن بھی سیاہ کر دیا ہو گا۔ یعنی آخر میں میرا نصیب سرخ روشنی اور آپ کا نصیب تاریکی ہی ٹھہری۔اب صورت حال یہ ہے کہ آپ کو ’’شہید‘‘ کہنے والے بھی کہیں نظر نہیں آتے، تاریخ اپنا فیصلہ سنا چکی ہے۔ جب کہ میرے آدرش کی سچائیوں نے مجھے زندہ رکھا ہوا ہے۔ وہی آدرش جس کے متعلق آپ کے قبیلے کے لوگوں کو خوش فہمی تھی کہ وہ 90 کی دہائی میں عظیم سوویت یونین اور دیگر سوشلسٹ ممالک کے ساتھ تحلیل ہو گیا ہے۔ آپ کے مغربی کرم فرما دانشوروں نے تو تاریخ کے خاتمے کا اعلان بھی کر ڈالا۔ اس حماقت پر بھی دنیا خوب ہنسی اور آج تک ہنس رہی ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح آپ کی ’’جنات سے بجلی پیدا کرنے‘‘ کی کوششوں پر دنیا ہنسی تھی۔

حقیقت تو یہ ہے کہ نہ تاریخ کا خاتمہ ہوا ہے اور نہ ہی محنت کشوں اور کاہل و نکمے سرمایہ داروں کے درمیان جاری طبقاتی جدوجہد ختم ہو سکی ہے۔ 90 کی دہائی میں جو کچھ ہوا وہ محض سامراجیوں کی ایک وقتی فتح کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ کیوں کہ تاریخ کوئی سیدھی چلتی ہوئی لکیر نہیں ہے بلکہ یہ انقلابات اور ردِ انقلابات کے ایک پیچ دار سلسلے کا نام ہے۔وہ مقامات جو دنیا بھر کے انقلابیوں کی طرح مجھے بھی عزیز تھے، وہاں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کے ارتقائی سفر میں محض ایک عارضی پڑاؤ تھا۔ تسلیم کہ اس سے ہماری عالمی تحریک وقتی طور پر پسپا و کمزور ہوئی مگر اس نے اپنی غرض کے مارے ہوئے ان موقع پرستوں کی قلعی کھولتے ہوئے ان کا صفایا کر دیا جو ہماری صفوں میں گھس آئے تھے۔ وہ سارے رحجانات بے نقاب ہوئے جو دراصل سام راج ہی کے شامل باجے تھے۔

مجھے ان خائنوں اور غداروں پر کوئی افسوس نہیں جنہوں نے نظریات سے برأت کا اعلان کیا، پارٹیاں توڑ ڈالیں، پرچم بدل ڈالے اور سام راج کی گود میں بیٹھ کر سرمایہ داری کی مالا جپنے لگے۔ مجھے ان پر بھی کوئی افسوس نہیں ہے جو ذاتی زندگی میں ’’انقلاب‘‘ لانے کے لیے سرگرم ہو گئے یا خانقاہوں میں جا کر بیٹھ گئے، خوابوں کی تعبیریں بیان کرنے لگ گئے، مارکس اور لینن کے کوٹ سے اُلجھ کر بے چاری شاعری کو سجدے کرانے لگے۔ وہ بھی جو توبہ تائب ہو کر خاموشی سے بیٹھ گئے اور وہ بھی جویہ کہتے ہوئے کہ ’’ہمیں اس زمانے میں مارکسزم کا پتا نہیں تھا‘‘ انقلاب دشمن رحجانات کے حلقہ بگوش ہو گئے۔ اور وہ بھی جو آج اپنی شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ مارکسزم، لینن ازم کے فلسفے کی مرمت کرتے نظر آتے ہیں، جنھیں محنت کش عوام کی لافانی قوت اور انقلابی نظریات پر ایقان نہیں رہا لیکن اس کا برملا اظہار کرتے ہوئے ان کی زبانوں کو لقوہ مارتا ہے۔ جو اپنی نسل کی مایوسی سے آج نئی نسل کے انقلابیوں کے اذہان کو آلودہ کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔ کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ تاریخ کا کوڑے دان ہی ان کی آخری جائے پناہ ہے۔

مجھے فخر ہے کہ کہ میری تحریک تاریخ کے اس نازک موڑ سے بہ خیر و خوبی گزر آئی ہے اور آج اس کا دامن بے شمار کامرانیوں و ناکامیوں کے تجربات سے بھرا ہوا ہے۔ مجھے اپنے قبیلے کے انقلابی سپوتوں کامریڈ نکولائی چاؤ شسکو، کامرید تودورو ژیفکوف اور کامریڈ ڈاکٹر نجیب اللہ پر فخر ہے جنہوں نے نامساعد حالات میں بھی مزاحمت کی اور تختۂ دار پر سر بلند ہوئے۔ ایسے ہی جذبات میں کامریڈ گینادی زوگانوف اور منجستو ہل مریام کے لیے بھی رکھتا ہوں۔ مجھے کامریڈ فیدل کاسترو، کامریڈ راؤل کاسترو اور سوشلسٹ کیوبائی عوام پر بھی فخر ہے اور کامریڈ کمال سنگ، کامریڈ کم جونگ، کامریڈ کم جونگ ان اور سوشلسٹ کوریائی عوام پر بھی جنہوں نے کامیابی سے انقلاب اور انقلابی نظریات کا دفاع کیا اور آج بھی سامراجی حملہ آوروں کے خلاف سینہ سپر ہیں۔

آج بیس، بائیس برس بعد بھی کمیونسٹ نظریات زندہ ہیں، کمیونسٹ پارٹیاں زندہ ہیں، ان سارے شہیدوں کا جنون زندہ ہے جنہوں نے اپنا لہو دے کر سرخ پرچم کی لالی کو تابندہ رکھا۔ مجھے فخر ہے کہ میرا لہو رائیگاں نہیں گیا اور آج جب میرا آدرش اور نظریہ ایک نئی طاقت کے ساتھ ابھر رہا ہے تو میرے وطن کے انقلابیوں نے میری خوں آلود قمیض کی دھجیوں کا علم بلند کر رکھا ہے۔۔۔۔میں آخر میں آپ سے اجازت نہیں چاہوں گا کیوں کہ ہم میں قدر مشترک تو کوئی نہیں البتہ ایک تعلق ضرور ہے۔ یہ تعلق طبقاتی جدوجہد اور مبارزے کا ہے جو نہ تو ازل سے ہے اور نہ ابد تک قائم رہ سکتا ہے۔ اس تعلق کا آغاز تاریخ میں طبقات کے ظہور کے ساتھ ہوا تھا اور اس کے خاتمے تک جاری رہے گا۔سو ہم کئی بار دنیا کے مختلف حصوں میں ملتے رہے ہیں اور ابھی ملتے رہیں گے۔ کبھی سندھ تو کبھی ہند میں، کبھی تہران تو کبھی کابل میں، کبھی بغداد تو کبھی عدن میں، کبھی ماسکو تو کبھی بخارسٹ میں، کبھی عدیس ابابا تو کبھی لواندا میں، کبھی چلی تو کبھی نکارا گوا میں، کبھی لندن تو کبھی واشنگٹن اور نیو یارک میں۔ دیکھیے اگلی ملاقات کہاں ہوتی ہے اور طبقاتی مبارزے کا میدان کہاں سجتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

انقلاب زندہ باد
نذیر عباسی

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”کامریڈ نذیر عباسی شہید کا خط، بنام جنرل ضیاالحق

  1. بہت ہی کمال ۔۔۔ ابھی ذیادہ دِن نہیں گذرے، جب میں نے کامریڈ مشتاق علی شان کی ایک اور لاذوال تحریر بہت سے قومی روزناموں اور ای پیپرز کو ارسال کی۔ یہ تحریر کامریڈ چارو مجمدار اور نکسل واد کے بارے میں تھی۔ کِسی میں بھی کامریڈ مُشتاق علی شان کے افکار شایع کرنے کی جرآت نہ تھی۔
    میں کامریڈ اِنعام رانا کو لال سلام پیش کرتا ہوں کہ اُنہوں نے مُکالمہ میں یہ لازوال تحریر شامِل کی۔
    لال سلام ۔۔۔!

Leave a Reply