سٹوڈنٹس، ایگزامز اور شفقت محمود۔۔نجم ولی خان

میں آج سے دو روز پہلے تک یہی سمجھتا تھا کہ امتحانات دینے سے انکار کرنے والے طلبا وطالبات نالائق، نکھٹو اور ہڈحرام ہیںاور جب راولپنڈی کے مظاہرے میں گاڑی توڑنے سمیت کچھ دیگر ویڈیوزشیئرہوئیں تو میری رائے پختہ ہو گئی کہ یہ سب بدمعاش ہیں، پڑھنا ہی نہیں چاہتے، چوردروازے سے کامیابی کا جو نشہ ان کے منہ کو لگا دیا گیا ہے اس سے دوبارہ پاس ہونا چاہتے ہیںاور یہ کہ شفقت محمود نے اگر اپنی شفقت ختم کی ہے تو درست کی ہے کہ قوم کے مستقبل سے نہیں کھیلا جا سکتا،ا متحانات ضروری ہیں بلکہ بہت زیادہ ضروری ہیں مگر یہ رائے میرے اپنے تصورات پر تھی اور پھر میں نے اس پر مکالمہ کر لیا۔ میں عبداللہ شاہ اورعائشہ ارشد کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور تسلیم کرتا ہوں کہ ان کے خدشات بے بنیاد نہیں، ان کے مطالبات میں وزن ہے۔

پہلے مجھے بہت سار ے جواز مضحکہ خیز لگے کہ کورونا میں پیپرز دے کرمرنا ہے، گرمی بہت ہے اور ماسک پہن کر پیپرز نہیں دئیے جا سکتے ۔ میرا کہنا تھا کہ اگر آپ بازاروں سے لے کر رشتے داروں کے گھروں تک جا سکتے ہیں تو پھر امتحان دینے بھی آ سکتے ہیں۔ ایگزامز میں ایک طالب علم دوسرے سے فاصلے پر ہی ہوتا ہے لہٰذا جسمانی فاصلے کو برقرار رکھا جا سکتا ہے دوسرے اگر گرمی ہے تو امتحانات کے لئے اب نومبر،دسمبر کا انتظار نہیں کیا جاسکتا۔ مجھے وہ پوسٹس بھی مضحکہ خیز لگیں جن میں بتایا جا رہا ہے کہ طالب علم امتحانات کے خوف سے خود کشیاں کر رہے ہیں مگر کچھ سوالات درست ہیں کہ حکومت لاکھوں بچوں سے امتحانات لیتے ہوئے ایس او پیز پر عملدرآمد کی کتنی اہلیت رکھتی ہے اور دوسرے یہ کہ اس گرمی میں کم از کم پنکھوں کی سہولت کو یقینی کیسے بنا سکتی ہے،اس پر شکوک و شبہات موجود ہیں۔

میری نظر میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ طالب علموں نے پڑھا کیا ہے جس کا ان سے امتحان لیا جائے گا۔ یہ میں نہیں کہتا، سپیکر پنجاب اسمبلی کے صاحبزادے مونس الہٰی کہتے ہیں ،” وزارت تعلیم کو وزارت ڈیٹ شیٹ کا نام دینا چاہئے۔ طلبا کو سنے بغیر امتحانات کی ڈیٹ شیٹس کو آگے پیچھے کرنے کے سوا وہاں کیا ہو رہا ہے، نہ کورونا وائرس کے اثر سے تعلیم کے بچاو¿ کی پالیسی ہے نہ طلبہ کو تعلیمی بحران سے نکالنے کا پلان، پھر بغیر تیاری امتحان طلبا کی پریشانی کا مزید سبب ۔۔“ وہ ایک دوسری ٹوئیٹ میں کہتے ہیں، ” جب کروڑوں پاکستانی طلبا میں صرف پندرہ فیصد کو آن لائن ایجوکیشن ملے، صرف چوبیس فیصد دیہات میں انٹرنیٹ ہو، سترہ اعشاریہ دو فیصد گھروں میں کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپ ہوں تو ان سہولیات سے محروم پچاسی فیصد پاکستانی طلبا کیسے آن لائن پڑھیں اور امتحان بھی دیں، طلبا اور اساتذہ کی ضرورت فوری اور فری انٹرنیٹ کی سہولت“۔میں نے جب وائس چانسلر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی کا انٹرویو کیا تھا اور قرار دیا تھا کہ آن لائن ایجوکیشن ہمارے لئے تعلیم اور ترقی کے لئے نئے ایونیو کھول سکتی ہے تو میں نے ان محرومیوں کو نظرانداز کیا تھا۔ میری بہن نے مجھے بتایا جو ایک کالج میں پڑھاتی ہیںکہ اس کی سٹوڈنٹس کے گھروں میں عمومی طور پر صرف ایک سمارٹ فون ہے جو ان کے باپ کے پاس ہوتا ہے۔ وہ باپ جب گھر آتا ہے تو انہیں واٹس ایپ یا کسی دوسری ایپ پر جانے کا موقع ملتا ہے اور ان کے لئے ایسے سنے ہوئے لیکچرز کو سمجھنامشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ میں نے جانا کہ فیس بک اور ٹک ٹاک کرنے والوں کے مقابلے میں پڑھنے والوں کی مشکلات الگ ہیں۔

شفقت محمود صاحب کی وزارت تعلیم نے کمال یہ کیا ہے کہ بچوں کو پورے سال میں پڑھائی کے لئے صرف چالیس دن دئیے ہیں حالانکہ پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے سربراہ کاشف مرزا سمیت ماہرین تعلیم چیخ رہے تھے کہ تعلیمی ادارے ایسی جگہ ہیں جہاں ایس او پیز پر ننانوے فیصد تک عمل ہو رہا ہے۔ دنیا کے مہذب ممالک نے دفاتر، بازار اور کاروبار بند کر دئیے مگر تعلیمی ادارے کھلے رکھے اور ہم ایسے نامہذب اور عاقبت نااندیش تھے کہ دفاتر، بازار اور کاروبار کھول دئیے مگر تعلیمی ادارے بند رکھے۔ صدر سرونگ سکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن رِضا الرحمان نے میری کنفیوژن دور کی۔ انہوں نے اعداد و شمار کے ساتھ بتایا کہ صرف دس فیصد بچے ایسے ہوتے ہیں جو اساتذہ اور والدین کے زور لگائے بغیر خود سے پڑھتے ہیں، چالیس فیصد ایسے ہوتے ہیں جن کی اچھی کارکردگی کے لئے ٹیچرز کی محنت ، توجہ، انٹریکشن اور موٹیویشن انتہائی ضروری ہوتی ہے جبکہ باقی بچے مختلف وجوہات کی بنیاد پر پڑھائی سے دور ہوتے ہیں، جب یہ بچے اپنے استاد اور اپنے گرو سے دو ررہے تو وہ تعلیم سے دور رہے۔

عبداللہ شاہ اور عائشہ ارشد نے ایک اور ابہام دور کیا کہ وہ تمام تر ٹرینڈز کے باوجود امتحانات کی منسوخی نہیں چاہتے، وہ نہیں چاہتے کہ دسویں او ربارہویں کے طالب علموں کو بھی بغیر امتحان ہی پاس کر دیا جائے کہ وہ گذشتہ برس بھی بغیر امتحان کے پاس ہوئے تھے مگر انہیں تین ماہ کلاسز کا موقع دیا جائے تاکہ وہ سکولوں اور اکیڈمیز میں کریش کورسز کے ذریعے ٹیچرز سے اپنے اسباق کو سمجھ سکیں جو آن لائن ایجوکیشن کی وجہ سے ان کے سروں کے اوپر سے گزر گئے۔ رضا الرحمان کہتے ہیں کہ انہیں کم از کم پینتالیس دن یعنی ڈیڑھ ماہ تو ضرور دیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جہاں مارچ، اپریل کے بجائے امتحانات جولائی، اگست میں چلے گئے ہیں وہاں ستمبر، اکتوبر میں بھی چلے جائیں تو حرج نہیں، آپ جامعات کو اس کے مطابق سیشن شروع کرنے کی ہدایت کر سکتے ہیں اور اگلے دو،چار برسوں میں سیشن کی لیٹ نکال سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کا سیشن بھی دس ماہ لیٹ ہوا کرتا تھا مگر پھر اسے معمول پر لایا گیا۔ عبداللہ اور عائشہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ نویں اور گیارہویں کے امتحانات کا رش لگانے کی کوئی ضرورت نہیں اور مجھے یہ مطالبہ کچھ زیادہ غلط نہیں لگتا کیونکہ ہم ماضی میں بھی میٹرک اور ایف اے کے امتحانات دو برس بعد ہی دیتے رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نے جتنے ماہرین تعلیم سے بات کی ہے وہ مونس الٰہی کی کہی ہوئی بات کو کھل کر کہتے ہیں کہ ہماری وزارت تعلیم بچوں کے تعلیمی مستقبل کے حوالے سے منصوبہ بندی کرنے میں مکمل طو رپر ناکام رہی ہے۔ ہمارے وفاق کے ساتھ ساتھ پنجاب کے وزرائے تعلیم اپنے مزاجوں میں انتہائی’ کھڑوس ‘ہیں جو بات کو ہمدردانہ انداز میں سننے اورسمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ انہوں نے اپنی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے تعلیم کے شعبے میں اربوں ، کھربوں روپوں کی سرمایہ کاری تباہ کر کے رکھ دی ہے۔ ہزاروں سکول مالکان کو برگر، پیزے اور اساتذہ کو سبزی کی دکانیں کھولنے پر مجبور کر دیا ہے اور اب یہ وزارت ڈیٹ شیٹ بنا کر بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کا المیہ یہ ہے کہ تاجر ہوں یا ڈاکٹر، استاد ہوں یا کوئی بھی دوسرا شعبہ یہ سٹیک ہولڈرز کے مقابلے میں اپنے آپ کو افلاطون اور ارسطو سمجھتے ہوئے ان پر فیصلوں کو مسلط کرتے ہیں جو بدترین آمرانہ روئیوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔میں اپنے اس تاثر کو واپس لیتا ہوں کہ امتحانات کے التوا کا مطالبہ کرنے والے تمام بچے نالائق اورنکھٹو ہیں، ہاں، کچھ نالائق اس صورتحال کا فائدہ ضرور اٹھا رہے ہیں، یہ وہ ہیں جن کا پڑھنے میں دل ہی نہیں لگتا اور انہیں پڑھائی کے لئے تین ماہ کیا تین برس بھی دے دیں گے تو یہ کتابوں کو ہاتھ نہیں لگائیں گے مگر وہ بچے جو پڑھنا چاہتے ہیں، اپنا مستقبل بنانا چاہتے ہیں، وہ وزیر تعلیم کی نااہلی اور ہٹ دھرمی کے سامنے کیا کریں؟

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply