میں بہت رُلاؤں گا۔۔حامدمیر

پاکستان کی سیاست ایکشن اور سسپنس سے بھرپور فلم کی طرح ہم سب کو حیران و پریشان کئے ہوئے ہے۔ کچھ پتا نہیں چلتا کہ اس فلم کا ہیرو کون ہے اور ولن کون۔ کبھی ہیرو کے جذباتی ڈائیلاگ سن کر ہمیں ریاستِ مدینہ یاد آتی ہے لیکن جیسے ہی ہیرو یوٹرن مارتا ہے تو وہ ولن بن جاتا ہے اور پبلک اسے بُرا بھلا کہنے لگتی ہے۔

اس فلم کے اکثر واقعات ناقابلِ یقین ہیں۔ ایک ولن کو لٹیروں کا سردار قرار دیکر گرفتار کیا جاتا ہے، عدالت اسے سزا بھی سنا دیتی ہے اور یہ ولن جیل میں قید ہو جاتا ہے۔ اچانک پتا چلتا ہے کہ ولن کسی پُراسرار بیماری کا شکار ہو گیا ہے۔ اسے اسپتال لایا جاتا ہے، ڈاکٹر کہتے ہیں وہ ولن کا علاج نہیں کر سکتے، اسے علاج کیلئے سات سمندر پار لے جائو۔

پھر عدالت انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس سزا یافتہ مجرم کو علاج کیلئے سات سمندر پار بھیجنے کی اجازت دے دیتی ہے اور چند ہی لمحوں میں ماحول بدل جاتا ہے۔ سزا یافتہ ولن اپنے بھائی کے ساتھ بیرونِ ملک روانہ ہوکر ہیرو بن جاتا ہے اور جو تھوڑی دیر پہلے تک ہیرو تھا، وہ مخالفین کی نقلیں اتار اتار کر اپنی خفت مٹانے لگتا ہے۔

یہ فلم اپنے اختتامی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ بہت سے ناظرین خاموشی سے فلم کے ’’دی اینڈ‘‘ کا انتظار کرنے کے بجائے دائیں بائیں سے پوچھ رہے ہیں ’’اب آگے کیا ہوگا؟‘‘ اس قسم کے سوالات کم ازکم مجھ ناچیز کی طبیعت پر بہت گراں گزرتے ہیں، اس لئے میں نے یہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش کی کہ؎

ابتدائے عشق ہے، روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھئے، ہوتا ہے کیا

کئی ناظرین نے فلم چھوڑ دی اور اس شعر پر میرے ساتھ بحث شروع کر دی۔ کچھ جید اردو دانوں نے بتایا کہ یہ شعر اصل میں یوں ہے ؎

راہ دور عشق میں روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھئے، ہوتا ہے کیاامید

سیاسی مغالطوں کے اس دور میں شعری مغالطہ پیدا ہونا کوئی عجب نہیں۔ سیاستدان تو غلطی تسلیم کرنے میں بہت پس و پیش کرتے ہیں لیکن ہم نے سوچا کہ بحث کرنے کے بجائے غلطی تسلیم کر لی جائے تاکہ میر تقی میرؔ کی روح کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔

ویسے بھی ان کا یہ شعر ایک نہیں کئی کتابوں میں ویسے ہی موجود ہے جیسے میں نے پہلے بیان کیا تھا لیکن ہر کتاب میں لکھی ہر بات کبھی کبھی مغالطہ بھی نکلتی ہے۔ مثال کے طور پر مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی مشہور کتاب ’’غبارِ خاطر‘‘ میں ایک شعر کو میرؔ سے کچھ یوں منسوب کیا ؎

شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ

مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا

اول تو یہ شعر میرؔ کا نہیں بلکہ محمد یار خان امیر کا ہے۔ دوم یہ شعر کچھ اس طرح سے ہے؎

شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن

مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا

اس سے بڑا شعری مغالطہ کیا ہوگا کہ اکثر اوقات یہ شعر علامہ اقبالؒ سے منسوب کر دیا جاتا ہے ؎

تندیِ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

یہ اونچا اڑانے والا شعر علامہ اقبالؒ کا نہیں بلکہ شکر گڑھ کے ایک شاعر سید صادق حسین صادقؔ کا ہے اور یہ شعر ان کے مجموعہ کلام ’’برگِ سبز‘‘ میں موجود ہے۔ کچھ سال پہلے افتخار عارف نے یہ شعر علامہ اقبال ؒسے منسوب کیا تو صادق صاحب کے بیٹے مشتاق حسین سید نے باقاعدہ وضاحت جاری کی اور بتایا کہ ان کے والد کا یہ شعر سب سے پہلے روزنامہ آفتاب میں 1918ء میں شائع ہوا تھا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اتنے بڑے بڑے شعری مغالطوں کی کیا وجہ ہے؟ دراصل بڑے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیاں بہت بڑے بڑے مغالطے پیدا کر دیتی ہیں۔

مولانا محمد حسین آزاد اردو کے بہت بڑے ادیب تھے، انہوں نے اپنی کتاب ’’آبِ حیات‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ مرزا محمد رفیع سودا ایک مشاعرے میں بیٹھے تھے وہاں ایک بارہ تیرہ برس کا لڑکا آ گیا جس نے غزل پڑھی جس کا مطلع تھا:

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

محمد حسین آزاد کے بقول یہ لڑکا کچھ عرصہ کے بعد جل کر مر گیا۔ کالی داس گپتا رضا کی تحقیق کے مطابق یہ شعر ایک کشمیری شاعر پنڈت مہتاب رائے تاباں کا تھا۔ انہوں نے یہ شعر اصل میں یوں پڑھا تھا؎

شعلہ بھڑک اٹھا مرے اس دل کے داغ سے

آخر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

بڑے بڑے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے پھیلنے والے شعری مغالطوں کو دور کرنے کیلئے محمد شمس الحق نے اپنی تحقیق کو ایک کتاب کی صورت میں شائع کر دیا ہے جس کا نام ہے ’’اردو کے ضرب المثل اشعار، تحقیق کی روشنی میں‘‘۔ شعری مغالطے رفع کرنا کوئی مشکل نہیں لیکن سیاسی مغالطے دور کرنا بہت مشکل کام ہے۔

جو لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں ان کے سیاسی مغالطے صرف ان کے لئے نہیں بلکہ پوری قوم کیلئے سیاسی سانحے پیدا کر دیتے ہیں اور اسی لئے جو سیاسی فلم ہمارے سامنے چل رہی ہے اسے دیکھنے والے اکثر ناظرین نے اپنے دل تھام رکھے ہیں۔ خدشہ ہے کہ ’’دی اینڈ‘‘ میں کسی ’’گریٹ ٹریجڈی‘‘ کا سامنا نہ ہو جائے۔

جو مجھ سے بار بار پوچھتے ہیں کہ آگے کیا ہو گا ان کو ٹال ٹال کر تنگ آ گیا ہوں۔ پوچھتے ہیں یہ جو دوسری دفعہ جیل سے جہاز میں بیٹھ کر سات سمندر پار چلا گیا، یہ واپس آئے گا یا نہیں؟ جواب میں عبدالحمید عدمؔ کا شعر عرض ہے؎

شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ

محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں

یہ جانے والا تین دفعہ وزیراعظم بنا اور تیسری دفعہ واپس آنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس سزا یافتہ مجرم کا جہاز پر چڑھنا بھی حیران کن ہے اور اس کی واپسی بھی حیران کن ہو گی۔ واپسی سے پہلے اینٹی کلائمکس شروع ہو چکا ہوگا اور آپ کو ہر طرف بدنامیوں کا گرد و غبار نظر آئے گا۔

فلم کے آخری مراحل میں اتنے زیادہ سیاسی جھٹکے آئیں گے کہ آپ کی چیخیں بھی نکل سکتی ہیں لیکن آخر میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ہیرو ولن اور ولن ہیرو بن جائے گا۔ ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کو یقین ہے کہ یہ فلم بہت سے سیاسی مغالطے ختم کر دے گی اور اس فلم کا اسکرپٹ رائٹر اصل ہیرو بن کر سامنے آئےگا لہٰذا ’’آگے کیا ہوگا، آگے کیا ہوگا‘‘ پوچھنا بند کیجئے۔ خاموشی سے فلم دیکھئے کیونکہ ’’دی اینڈ‘‘ بہت دردناک ہے اور انہیں رلائے گا، جو کہتے تھے ’’میں تمہیں بہت رُلائوں گا‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply