• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس اور حقیقی آزادی مارچ/ڈاکٹر ابرار ماجد

فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس اور حقیقی آزادی مارچ/ڈاکٹر ابرار ماجد

فیصل واوڈا کی کانفرنس کا لانگ مارچ سے ایک دن قبل سامنے آنے کی وجوہات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ ان کا جماعت کے ساتھ اختلاف بھی ہو سکتا ہے یا پھر ان کے اندر ارشد شریف کے ساتھ زیادتی ہونے اور اس پر سیاست بارے اعتراضات یا پھر تحریک انصاف کے بقول حقیقی مارچ کو متاثر کرنے کی کوشش۔

اس بات کو بھی وزن دینا ہو گا کہ فیصل واوڈا کا ارشد شریف سے ایک ذاتی تعلق بھی تھا اور اس کانفرنس کے پیچھے ہمدردی اور وفا کا جذبہ بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ وہ بہت سارے حقائق سے واقف تھے کہ ارشد شریف نے کس طرح ایک خاص بیانیے پر کام کیا اور ارشد شریف کے کئی اور ساتھیوں کا خیال ہے کہ ان کے ساتھ مشکل وقت میں فائدہ اٹھانے والوں کا رویہ مناسب نہیں رہا، وہ اپنے مؤقف پر ڈٹے اس لئے رہے کہ ان کے اندر استعمال ہوئے جانے کا غصہ بھی تھا کہ انہیں استعمال کیا گیا۔

اُس وقت تو انہوں نے اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کو مناسب نہیں سمجھا لیکن اب ان کی واپسی کی خبروں کی تصدیق بھی ہو رہی ہے کہ ان کے بول کے ساتھ معاملات طے پا چکے تھے۔ جس سے ان کو استعمال کرنے سے فائدہ حاصل کرنے والوں کو بھی خطرہ محسوس ہو رہا ہو گا کہ کہیں ان کی داستانیں بھی منظر عام پر نہ آ جائیں۔ دونوں اطراف سے تابڑ توڑ حملے جاری ہیں اور اگر ان خدشات، الزامات اور حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے جائزہ لیں تو چند نقاط بہت واضح نظر آتے ہیں۔

ایک تو یہ کہ فیصل واوڈا کی کانفرنس کو جس طرح سے میڈیا پر کوریج ملی اس سے اس کے ساتھ مدد یا ہمدردیوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا جو حکومت کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھی جو کوئی عجیب بات نہیں کیوں کہ اگر کوئی بھی اس طرح سے اپنی جماعت سے اختلاف پر اترتے ہوئے میدان میں کودے تو اس کو امدادی ہاتھ مل ہی جاتے ہیں۔

آج ہی اگر کوئی مسلم لیگ نون سے اس طرح کی پریس کانفرنس کرنے کی کوشش کرے تو اس کو بھی ہمدردیوں اور مدد کی کوئی کمی نہیں رہے گی۔ لہٰذا یہ شک کرنے کی کوئی ٹھوس دلیل نہیں۔ ہاں البتہ اسٹیبلشمنٹ پر تحریک انصاف کی طرف سے الزامات سے اس بات کو تصدیق ضرور ملتی ہے کہ وہ نیوٹرل ہیں۔ اور اس بات پر خود تحریک انصاف بھی گواہیاں دیتے تھکتی نہیں ہے۔

فیصل واوڈا نے البتہ اسٹیبلشمنٹ کے ملوث نہ ہونے پر زور ضرور دیا ہے اور اس بارے پہلے آئی ایس پی آر کی طرف سے بیان بھی آ چکا ہے اور وہ اپنے اوپر مختلف حلقوں سے الزام کو بھانپتے ہوئے حکومت سے جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں جس پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے۔ اور تحقیق کو شفافیت کے تاثر کو قائم رکھنے اور الزامات سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے آئی ایس آئی تحقیقی ٹیم سے بھی اپنے آپ کو علیحدہ کر چکی ہے۔

اس سارے تناظر کے باوجود آج کل جو اسٹیبلشمنٹ پر ماضی کے حوالوں کی بنیاد پر روانی کے ساتھ ہر معاملے میں الزامات کا سلسلہ جاری ہے یہ بھی انتہائی قابل تشویش ہے اور اس کو غیر ذمہ دارانہ اور نا پختہ سوچ کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اور خاص کر ان کی طرف سے جو ماضی میں خود ان حوالوں کا حصہ رہے ہوں انتہائی قابل شرم بھی ہے۔

فیصل واوڈا کی بات میں اس لئے بھی وزن لگ رہا ہے کہ اس نے جس یقین کے ساتھ ارشد شریف کے قتل بارے اپنے رابطوں اور ثبوتوں کا ذکر کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ انکشافات کا یہ ایک آغاز ہے اور اسکے پاس کچھ ایسے ثبوت بھی ہیں جن کی بنیاد پر وہ اتنی جراءت کے ساتھ دعویٰ کر رہا ہے۔ اور پھر بار بار اسکا اپنی جان کو خطرہ لاحق ہونے کے اظہار سے یہ بھی لگتا ہے کہ اس کے پاس جو ثبوت اور دلائل ہیں اور جن کے بارے وہ ثبوت ہیں ان کی عزائم کو بھی سمجھتا ہے اور وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ ان ثبوتوں کو مٹانے کے لئے اس کی جان بھی لی جا سکتی ہے۔

اور اگر تحریک انصاف کے الزام جس میں اس کی اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کے اشارے کا الزام لگایا جا رہا ہے کو سچا مان لیا جائے تو پھر ان ثبوتوں کے بارے باوثوق ہونے سے بھی انکار مشکل ہو جاتا ہے۔ اور ان الزامات کا رخ کس طرف ہے بہت ہی واضح ہے اور ان الزامات کی بنیا د پر اب اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ارشد شریف کے قتل کی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے نہ صرف فیصل واوڈا کو بلکہ عمران خان کو بھی پیش ہونا پڑے گا کیونکہ دونوں ارشد شریف کے ساتھ اپنے رابطوں اور قتل بارے شواہد کا اعتراف کر چکے ہیں۔

جہاں تک اس پریس کانفرنس کے تحریک انصاف یا لانگ مارچ پر اثرات کا تعلق ہے تو اس سے تحریک انصاف کے کارکن تو فیصل واوڈا کو اتنا سنجیدہ نہیں لیں گے کیونکہ جاوید ہاشمی جیسے بڑے لیڈر کے علیحدہ ہونے پر بھی کارکنوں کے خیالات میں عمران بارے منفی سوچ پیدا ہونے کی بجائے جاوید ہاشمی کے متعلق ہی پیدا ہوئی تھی۔ اس کے بعد بھی کئی قائدیں جماعت سے علیحدہ ہوئے مگر عمران کی مقبولیت یا ہمدردیوں میں کوئی فرق نہیں پڑا۔

البتہ فوری طور پر لانگ مارچ میں شمولیت کرنے والے شرکاء جن کو تفریحی مارچ کی خوشخبریاں سنا کر آمادہ کیا جا رہا تو وہ خونی مارچ کی پیشین گوئی سے سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ ان کو شرکت کرنی چاہیے یا نہیں؟ خاص کر وہ لوگ جو فیملیوں کے ساتھ اور عورتیں اور بچے اب اس سے خوف زدہ ضرور ہونگے اور اس سے تعداد پر فرق بھی پڑے گا۔ کیونکہ مزاحمت کا سامنا کرنے کی خبر سے پچھلے لانگ مارچ میں بھی کوئی خاص تعداد نہیں نکل سکی تھی حالانکہ وہ مارچ بھی تحریک انصاف کے اپنے حکومتی صوبے سے آ رہا تھا۔ اور اس عدم شرکت کی وجہ فیڈرل حکومت کی طرف سے سختی سے نمٹنے کا اعلان تھا۔

اب کی بار بھی جیسا کہ میں نے کہا فیصل واوڈا نے لانگ مارچ کے شرکاء کو خونی انقلاب کی پیشین گوئیوں سے یقیناً سوچ میں ڈال دیا ہو گا اور وہ اب اس میں شرکت سے اجتناب برتنے کا سوچ رہے ہونگے اور دوسری طرف سے تحریک انصاف نے بھی پریس کانفرنس کے ذریعے سے فیصل واوڈا پر سوال اٹھاتے ہوئے اس پر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے لانچ کرنے کے الزامات لگا دئے ہیں اور وہ ساتھ ہی اپنے لانگ مارچ کے شرکاء کو یہ تسلیاں بھی دے رہے ہیں کہ شرکت سے کوئی خطرہ لاحق ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔

جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کو متاثر ہونے کا خوف لاحق ہو رہا ہے۔ فیصل واوڈا کی ویسے تو تحریک انصاف کو چھوڑنے کے بعد کوئی خاص کریڈیبلیٹی نہیں مگر جب اس پر اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کے الزامات تحریک انصاف کی طرف سے آئیں گے تو اس سے لوگ یہ ضرور سوچیں گے کہ لانگ مارچ میں شرکت سے مسائل سے دوچار ہوا جا سکتا ہے یا پھر اس کے نتائج فائدہ مند ہونے کے چانس کم ہیں۔

کارکنوں کو تو شائد اس کانفرنس کی حساسیت کا اندازہ نہ ہو مگر تحریک انصاف کی قیادت کو اسے سنجیدہ ضرور لینا چاہیے کیونکہ فیصل واوڈا مرکزی قائدین میں شامل تھا اس لئے وہ کچھ ایسے رازوں سے بھی واقف ہونگے، جن کے بے نقاب ہونے سے جماعت کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اس معاملے کو سنجیدہ لیتے ہوئے معاملات کو نیچرلائز کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور مذاکرات کے ذریعے سے موجودہ سیاسی عدم استحکام کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ان پیشین گوئیوں اور انکشافات سے حکومت کو بھی اس حقیقی لانگ مارچ کو روکنے اور اس کے سدباب کے لئے ایک جواز مہیا ہو گیا ہے۔ وہ عدالت عظمیٰ سے بھی ان حقائق اور الزامات کی بنیاد پر رجوع کر سکتے ہیں اور اس کے لئے فوج اور رینجر کو طلب کرنے کا بھی ایک جواز میسر آ گیا ہے۔

اگر فیصل واوڈا کے پیچھے خاص ہاتھ ہونے کے تحریک انصاف کے الزام کو مان لیا جائے تو پھر اس کانفرنس سے یہ اندازہ لگانا اور بھی آسان ہو جاتا ہے کہ فیصل واوڈا کے پاس ثبوت موجود ہوں گے اور یہ انکشافات کا ایک آغاز ہے جس میں کئی نئے انکشافات اور سیاسی موڑ وقوع پزیر ہو سکتے ہیں۔ جو اس بات کی طرف اشارہ دیتا ہے کہ اس لانگ مارچ سے مطلوبہ مقاصد کے حصول کے چانسز کم ہوتے جا رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہاں اگر عوام ایک بھاری تعداد میں باہر نکل آتی تو اس سے تحریک انصاف اپنی عوامی طاقت کے اظہار سے ان کے بیانیے کو تقویت مل سکتی ہے جس کا حکومت پر پہلے بھی دباؤ ہے اور مزید اضافہ ہو سکتا ہے جس کے اب چانس کم ہوتے جا رہے ہیں اور حکومت کے لئے آسانیاں پیدا ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ ویسے بھی تحریک انصاف کا نیوٹرل ہمدردیوں کے ساتھ یہ دوسرا لانگ مارچ ہے اور پچھلے کا بھی تجربہ حوصلہ افزاء نہیں رہا اور اس بار بھی بے رنگ سا ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ جب آغاز میں ہی اپنوں کے ستم سامنے آنا شروع ہو جائیں تو اسے نقارہ قدرت سمجھ کر اپنی حکمت عملی بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply