• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • قائدِکشمیر امان اللہ خان اور تحریکِ آزادئ کشمیر

قائدِکشمیر امان اللہ خان اور تحریکِ آزادئ کشمیر

تحریک آزادئ کشمیر سے اگر مرحوم امان اللہ اور مقبول بھٹ شہید کا نام نکال دیا جائے تو یقیناََ تحریک کی صورت آج وہ نہ ہوتی۔ 1971 میں جمود کا شکار اس تحریک میں ایک نیا عزم اور ولولہ لیکر آنے والی ان دو شخصیات نے اپنی زندگی صرف آزادی کشمیر کیلئےوقف کردیں۔ مقبول بھٹ 1984 میں بھارت میں شہید ہوگئے دوسری طرف امان اللہ خان نے اس تحریک کو دنیاکے ہر فورم پر پیش کیا کشمیر سے متعلق ہر مسئلے کو لیکر دنیا بھر کے سربراہان سے تعلقات استوار کئے ان سے بھی جن سے انهیں اختلافات تھے وہ کشمیریوں کو اپنی آزادی کیئے متحد دیکھنا چاہتے تھے اور اس مقصد کیلئے انهوں نےتمام عمر شدید تگ ودو کی.
آج ساری دنیا سمیت پاکستان اور بھارت پر یہ بات مکمل طور پر واضح ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کی بنیادی وجہ ستر دہائیوں سے جوں کا توں پڑا ہوا مسئلہ کشمیر ہے جس کا حل صرف یہ ہے کہ دنیا کےباقی آزاد ممالک کی طرح کشمیریوں کی بھی ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہونی چاہئیے جہاں وہ اپنی تہذیب و ثقافت کے مطابق آزادی سے زندگی گزار سکیں مگر انتہائئ تکلیف دہ تصویر یہ ہے کہ سالہا سال کے ظلم و ستم، بربریت اور انسانی حقوق کی حد درجہ پامالی کی یہ ناختم ہونے والی داستاں کہیں اختتام پذیر ہوتی نظر نہیں آتی۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی بھی حادثہ پیش آجائے تو میڈیا، سوشل میڈیا سے لے کر انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اس سانحے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ثابت کرنے اور مجرموں کو کیفِ کردار تک پہنچانے کیلئے اپنا پورا زور لگادیتی ہیں لیکن کشمیریوں پر روز کرفیو لگ جاتا ہے، ہر روز نہتے کشمیریوں پر آنسو گیس، لاٹھی چارج، تھپڑ، مکے ،فائرنگ ایک روٹین کی بات ہے اور تو اور سکول و کالج کے طلبا و طالبات بھی بھارتی فوج اور پولیس کے شر سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔ ان کو سرِعام بناکسی قصور کے شدید چوٹوں اور زخموں سے ستایا جاتا ہے مگر دنیا کی کوئی تنظیم اس روزمرہ کی ناختم ہونے والی بربریت کو انسانیت سوزی کے زمرے میں شمار نہیں کرتی نہ ہی کشمیر کو حالتِ جنگ میں شمارکیا جاتاہے بلکہ بھارتی حکومت اپنے مفاد پرست پروپیگنڈے کے ذریعے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ اور کشمیری حریت پسند عوام کو جہادی اور تخریب کار قرار دیتی ہے ۔اپنی آزادی کیلئے لڑنے والوں کو اگر تخریب کار قرار دیاجائے تو تاریخ بهری پڑی ہے ایسے تخریب کاروں سے۔
کشمیریوں کی نسلیں آزادی کے خواب کو آنکھوں میں لئےبرسوں سے انڈین آرمی کے ہاتھوں دن رات استحصالی کا شکار ہوتے آرہے ہیں انکی صبح اس امید پر شروع ہوتی ہےکہ شاید آج کی صبح آزادی کا سورج طلوع ہوجائے مگر یہ حسرتیں دلوں میں لئے کتنے حریت پسند آزادی کی شمع جلاتے ہوئے شہید کردئیے گئے۔ مقبول بھٹ، افضل گرو اور ظفر گل وانی جنهوں نے بھارتی بربریت کے سامنے گھٹنےٹیکنے کی بجائے اپنی جانیں راہِ حق پر نثار کر دیں۔ ظفر گل وانی کی شہادت تو میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کی نظروں کے سامنے آئی پھر اس کی شہادت پر عالمی برادری کا دل کیوں نہیں تڑپا۔ بھارتی ظلم و جبر کو ریاستی دہشت گردی کیوں نہیں قرار دیاگیا۔ اس کے قتل کی کوئی انکوائری نہیں ہوئی۔ نہ ہی اس کے گھر والوں کے پرسے کو کوئی پہنچا اور نہ ہی کسی این جی او نے اس کے مقصد کو سپورٹ کرنےکا عزم کیا۔ کئی بزرگ آزادی کیلے اپنی زندگیاں وقف کرگئے آج تحریک آزد کشمیر کے عظیم قائد امان اللہ کے انتقال کو بھی سال ہوگیا مگرالمیہ یہ ہے کہ ابھی بھی وادی کے عوام غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں آج بھی ان کو صرف پاکستان کے حق میں نعرہ لگانے پر بھارتی آرمی سے ڈنڈے، مکے اور لاتیں کھانی پڑتی ہیں اس سے بھی سنگین سزائیں دی جاتی ہیں جن کا سوچ کے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔
پاکستان کو دہشت گرد قرار دینے والے اس وقت کہاں ہوتے ہیں جب سکولوں، کالجوں اور ہسپتالوں میں گھس کر بھارتی فوج حملے کرتی ہے۔ آج امان اللہ خان صاحب کی برسی پر دل واقعی رو رہا ہے کہ آزادی کے متوالے یہ خواب آنکھوں میں لئے عاقبت کی نیند سوگئے وہ لوگ جنهوں نے تمام عمر محض حصول آزادی کیلئے جدوجہد کی وہ بھی اس خواب کی تعبیر لئے بغیر دنیا سے رخصت ہوگئے خدا کرے کہ ہم وہ دن دیکھ سکیں جب دنیا سے انسانیت سوزی کا ایک باب ختم ہو اور ہم کمشمیریوں کو آزادی کا دم بھرتے دیکھ سکیں۔

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply