• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • “کاکی نوں الوداع کہنا اوکھا کم سی”۔۔عامر حسینی

“کاکی نوں الوداع کہنا اوکھا کم سی”۔۔عامر حسینی

میں نے چشم تصور میں دیکھا کہ ہسپتال کی دوسری منزل سے “عفت” کا مردہ جسم ایک اسٹریچر پر نیچے منتقل کیا جارہا ہے، اسے سفید براق چادر نے ڈھانپا ہوا ہے – آصف (اُس کا شوہر، کزن) پھول، چاند، کامران، بلّو، عمران (ہمارے دیگر کزن) اُس کے اسٹریچر کو اسٹریچر بوائے کی رہنمائی میں نیچے گراؤنڈ فلور پر لیکر جارہے ہیں – آصف بہت نڈھال اور غم زدہ ہے –
یہ ایسا منظر تھا جسے دیکھنے کے باوجود مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا –
مجھے 23 تاریخ کو چھوٹے بھائی سے پتا چلا –
22 تاریخ کو عفت شدید ترین برین ہمیرج کے حملے کا نشانہ بنی تو اوکاڑا جیسے شہر میں آج تک اس سے نمٹنے کی کوئی سہولت سرکاری یا پرائیویٹ ہسپتال میں تھی نہیں اور نہ ہی ڈویژن بن گئے ساہیوال میں تھی جو آدھے گھنٹے کی مسافت پر ہے – (میرے اپنے شہر میں نہیں ہے مگر نصف گھنٹے کی مسافت پر ملتان میں یہ سہولت موجود ہے) اُسے پونے دو گھنٹوں میں جنرل ہسپتال لاہور لیجایا گیا اور وہاں پر تین دن تک نہ تو آئی سی یو میں جگہ ملی اور نہ ہی وینٹی لیٹر پر اُسے منتقل کیا جاسکتا کیونکہ وہاں گنجائش ہی نہیں تھی – اگرچہ میں نے اپنے طور پر اور کئی اور میرے دوست احباب نے کوشش کی لیکن کچھ بن نہ پایا –
یہاں طاقت اور پیسے سے سب کچھ مہیا کیا جاسکتا ہے لیکن “عفت” جیسوں کے لیے یہ سب میسر نہیں ہوتا – اگرچہ ہمارے خاندان والے ایسا نہیں سوچ رہے تھے وہ اسے بس تقدیر کا لکھا مان کر دل کو تسلی دے رہے تھے –
رہ رہ کر میری نظر میں وہ مناظر گھوم رہے تھے جب ہم سب اکٹھے ہوتے خوب ادھم مچاتے “کاکی” کی شرارتیں اُس کی ذہانت کو ہویدا کیا کرتی تھیں – اور اکثر کاکی کی شرارتوں کا نشانہ میں بنا کرتا تھا-
عفت کو ہم سب پیار سے “کاکی” کہہ کر بلاتے تھے، وہ مجھ سے عمر میں ایک سال بڑی تھی اور میری دوسری بڑی بہن سے دو سال چھوٹی تھی-
وہ رنگ روپ میں اپنی ماں یعنی میری ممانی پر گئی تھی، سرخ و سفید رنگ، جسامت بھی ممانی جیسی تھی، دبلی پتلی چھریری سی اور آنکھیں بھی انھی پر تھیں چینی گڑیا جیسی مگر قد میں وہ بعد میں ممانی پر سبقت لے گئی تھی ، 5.6 فٹ کا قد جبکہ ممانی تو 5 فٹ کی ہیں
کاکی بہت شرارتی سی، تیکھے تیکھے سوالات کرنے والی اور بچپن میں میرا تو ناک میں دَم کیے رکھتی تھی اگرچہ میں بھی کم شرارتی نہیں تھا-
گرمیوں کی چھٹیاں جیسے ہی ہوا کرتیں، ابا کسی روز ہم بچوں کو جو اس وقت تین تھے، دو بہنیں اور ایک بھائی ( اب ہم کُل ملا کر تین بہنیں اور تین بھائیو‍ں کے ساتھ چھے ہیں) ریل گاڑی کے زریعے اوکاڑا نانا کے گھر چھوڑ آتے اور ہم گرمیوں کی چھٹیاں وہیں گزارتے – ساون کے مہینے میں اُن دنوں چھاچھوں مینہہ برستا، اُس سے پہلے گھنگھور کالی سیاہ گھٹائیں آسمان پر چھا جاتیں تو ہم سب بچے باہر گلی میں نکلتے اور پھر سڑک پہ آجاتے اور یک زبان ہوکر پکارا کرتے
رام برسو کڑاکے سے
بڑھیا مرگئی فاقے سے (کچھ پتا نہیں تھا کہ اس کا مطلب کیا ہے)
اوکاڑا میں ہمارے کزن بھائی اور کزن بہنیں پنجابی زبان میں کہتے
کالیاں اٹاں کالے روڈ
مینہہ ورسا دے جوروم جور( شاید زورم زور ہوگا)
کاکی ہم بچوں کے جلوس کی قیادت کررہی ہوتی تھی – وہ گلے کا پورا زور لگاکر نعرے لگایا کرتی تھی – اُن دنوں ساون اپنے بھی پورے جوبن کے ساتھ آیا کرتا تھا اور ساتھ ہی سیلاب بھی کبھی ناغہ نہیں کیا کرتے تھے –
کاکی اور میری سب سے بڑی بہن سے چھوٹی بہن صائمہ کے ساتھ بہت نبھتی تھی، دونوں کی خوف دوستی تھی – دونوں نے گڑیاں پٹولے بنانے اور ان کے لیے مطلوبہ سلائی کڑھائی کی مہارت دوسروں کے مقابلے میں کم وقت میں سیکھ لی تھی اور زرا اور بڑے ہونے پر یہ دونوں نت نئی گڑیاں، گڈے، اُن کی سہیلیاں بناتیں، ان کے لیے لباس تیار کرتی تھیں – دونوں بعد میں سلائی کڑھائی میں بھی بڑی ماہر ہوگئی تھیں –
صائمہ کو جس روز کاکی کو برین ہیمرج ہونے کا پتا چلا تب سے وہ اُسی کی باتیں کیے جارہی ہے – وہ ہم سب سے زیادہ کاکی سے اٹیچ تھی – کاکی نے اپنے والد کے بغیر قریب قریب اپنا سارا بچپن گزارا اور ہم سب بچوں کو تو وہ یاد ہی نہیں تھے کیونکہ وہ پہلے سعودی عرب اور پھر کینیا میں ایک اسلامک تعلیمی مرکز کے پرنسپل رہے اور کئی سال وطن سے باہر گزارے – پھر پاکستان آئے تو این ایچ اے سے وابستہ ہوگئے اور حیدرآباد شفٹ ہوگئے – تب کئی سال ہم گرمیوں میں حیدرآباد اُن کے گھر جاتے رہے – ماموں کی چار بیٹیاں ہوئیں، بیٹا نہیں تھا اور اُن سب نے تعلیم حیدر آباد میں رہ کر مکمل کی- اور ان چار میں کاکی (عفت) ہم میں نہیں ہے – ماموں بھی کافی عرصہ پہلے برین ہیمرج سے چل بسےتھے – میرے تین میٹرنل انکلز کی ڈیتھ کا سبب بلڈ پریشر سے برین ہیمرج بنا-
میں جب کبھی حیدرآباد جاتا تو رفعت (کاکی کی سب سے بڑی بہن) کاکی، زینب اور ثنا سب ہی بہت تپاک سے ملا کرتیں، کاکی اور ثنا کی شادی اوکاڑا میں دو کزنز کے ہاں ہوئی تھی- کاکی کا شوہر آصف مجھ سے ایک سال چھوٹا ہے اور ان دونوں کے کوئی اولاد نہیں ہوئی تو انہوں نے کزن کا ایک بیٹا گود لے رکھا تھا – آصف خود بھی خوبرو، چھریرے بدن والا آنکھوں میں کھب جانے والا جوان ہے اور دونوں کی جوڑی خوب سجتی تھی – دونوں ساتھ چلتے تو پرفیکٹ جوڑا لگتے اور لوگوں کی آنکھوں میں بے اختیار ستایش، رشک نظر آیا کرتا –
ہم سب کزنز کی عمروں میں تھوڑا بہت ہی فرق ہے – کاکی کب بلڈ پریشر کی مریض ہوئی یہ تو مجھے پتا نہیں کیونکہ گردش ایام نے تشکیلی دور میں میرے پیر میں کوئی ایسا چکر رکھا کہ میں قریب قریب سب سے کٹ گیا اور سالہا سال ملاقاتیں نہ رہیں، میری بہنیں، چھوٹے بھائی، خاندان اور کنبے والے باقی سب تو خوشی، غمی اور اہم ایام میں ملتے جلتے رہے – آخری بار کاکی سے میں کویڈ کی وبا کے آنے سے ایک سال پہلے حیدرآباد میں ممانی کے ہاں ملا تھا – رفعت کے بالوں میں چاندنی جھلک رہی تھی اور ممانی تو ایسا لگتی تھیں جیسے اچانک اُن پر بڑھاپا حاوی ہوگیا ہو- گھر سائیں سائیں کررہا تھا، اتنی خاموشی کہ لگتا تھا وہاں کوئی رہتا نہ ہو، ماموں کا ریڈنگ روم تو تھا ماموں نہیں تھے – ہم ٹی وی لاؤنج میں بس خاموش بیٹھے تھے کہ کاکی اور آصف کمرے میں داخل ہوئے اور کاکی نے مجھے دیکھتے ہی کہا، عامی بھابھی اور بچوں کو بھی کے آتے نا، اور ساتھ ہی کہا،
“بالوں کو کلر کیا کرو، روزانہ شیو بنایا کرو، مجھ سے تو چھوٹے ہی ہو، خوامخواہ بزرگ لگنے کے چکر میں اپنی شخصیت برباد مت کرو” ، اور ساتھ ہی میرے پیٹ کی طرف اشارہ کرکے کہا “اسے ڈھول بننے سے روکو، ورنہ اسے بجانے سے مجھے کوئی روک نہیں سکے گا”، اس پہ سب ہنسنے لگے اور ممانی نے مصنوعی خفگی کے ساتھ کاکی کو ڈانٹا،” کیوں پریشان کرتی ہو، چھوڑو”، بیچ میں آصف بولا کہ” ہاں نا ڈھول بنا تو نہیں”، ساتھ ہی کاکی، رفعت اور باقی سب بھی ہنسنے لگے – کاکی میرے صحافت کو پروفیشن چننے پر زرا خوش نہ تھی، وہ ماموں کی خواہش کے مطابق مجھے تدریس کے شعبے میں دیکھنا چاہتی تھی – اسے سیاست سے زرا دلچسپی نہیں تھی حالانکہ بچپن اور لڑکپن تک وہ ہم سب کی لیڈر رہی تھی، اسے سیاست دان ہونا چاہیے تھا –
کچھ دیر پہلے مجھے محمود انکل بھرائی ہوئی آواز میں بتایا ” پُتر ہنے کاکی نوں دفنا آئے آں، اودھی دادی دے نال، دوجے پاسے اودھے دادے دی قبر ہے تے نال کرکے اودھے دو چاچے ابدی نیندر سُتے پئے نیں وہ ہن تاقیامت آرام کرے گی، اودھے سارے دکھ، تکلیفاں مک گیئاں ہِن اوہنوں الوداع کہنا بہتا اوکھا کم سی”

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply