• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پنجاب میں اساتذہ اور سرکاری ملازمین کا احتجاج/سیّد حیدر جاوید

پنجاب میں اساتذہ اور سرکاری ملازمین کا احتجاج/سیّد حیدر جاوید

لاہور میں پنجاب کے سول سیکرٹریٹ کے باہر اپنے مطالبات کے حق میں دھرنا دینے والے اساتذہ کرام اور سرکاری ملازمین پر گزشتہ سے پیوستہ روز پنجاب پولیس کے “شیر جوان” بھوکے بھیڑیوں کی طرح جھپٹے، لاٹھیوں، مکوں اور ٹھڈوں سے احتجاجی اساتذہ کی بھرپور خدمت کرکے اپنے فرض کی لاج رکھنے کے ساتھ درجنوں اساتذہ کو گرفتار بھی کیا۔

احتجاجی اساتذہ الزام لگارہے ہیں کہ پولیس نے لاٹھی چارج کے دوران خواتین کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ پولیس تردید کررہی ہے کہ ہم نے معلمات سے بدسلوکی نہیں کی لیکن گزشتہ روز فیصل آباد میں ایس ایچ او سمن آباد نے جس طرح ایک خاتون معلمہ سے ہاتھ پائی اور بدتمیزی کرتے ہوئے ان کا موبائل چھین کر نہر میں پھینکا اور ننگی گالیاں دیں اس سے یہ سمجھنا آسان ہے کہ لاہور میں سیکرٹریٹ کے باہر پولیس کے شیر جوانوں نے کس اخلاق اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہوگا۔

فیصل آباد میں خاتون ٹیچر سے بدتمیزی کرنے والے ایس ایچ او ذیشان کو یہ ناگوار گزرا کہ ان کے ایس پی کے حکم پر کی جانے والی “کارروائی” کو معلمہ اپنے موبائل میں ویڈیو بناکر محفوظ کررہی تھیں۔ یہاں پولیس نے 15 اساتذہ اور طلبا کو گرفتار بھی کیا۔

صوبہ پنجاب میں پچھلے چند دنوں سے جاری احتجاج میں صرف اساتذہ ہی نہیں دوسرے سرکاری محکموں کے ملازمین بھی شامل ہیں۔ احتجاج کرنے والوں سے تحمل و تدبر سے بات چیت کی جانی چاہیے تھی لیکن پنجاب پر مسلط ایک غیرقانونی نگران حکومت اپنے غیرقانونی فیصلوں کو منوانے کے لئے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہی ہے۔

فنڈز کی کمی کا رونا رونے والی اس پنجاب حکومت نے چند دن قبل محکمہ جیل خانہ جات کے افسروں کو نئی گاڑیاں عطا کیں۔ گزشتہ روز پنجاب ہائی وے پٹرولنگ پولیس کو نئی 313 گاڑیاں بھی دیں۔

اسی صوبہ پنجاب میں پچھلے چند ماہ سے بلدیاتی اداروں کے سابق سکولوں (یہ سکول پرویز مشرف کے دور میں بلدیاتی اداروں سے لے کرمحکمہ تعلیم کو دیدیئے گئے تھے) کے سینکڑوں ریٹائر معلمین و معلمات سمیت متعدد محکموں کے پنشنرز کو تین ماہ سے پنشن نہیں ملی۔ بعض صوبائی محکموں میں تنخواہوں کی ادائیگی کی صورتحال بھی افسوسناک ہے۔

مالیاتی نظم و ضبط سے محروم صوبہ پنجاب کی نگران حکومت بطور نگران بھی قانونی حیثیت سے محروم ہے۔ یہ حکومت چودھری پرویزالٰہی کی جانب سے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے پر قائم ہوئی تھی۔ اصولی اور قانونی طور پر اس کی کی معیاد 90 دن تھی۔

پنجاب اسمبلی کی تحلیل پر آئینی بحث یا سپریم کورٹ میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے لئے جانے والے ازخود نوٹس اس کے فیصلے اور پھر فیصلے پر عدم عمل کے خلاف نظرثانی کی درخواست کی سماعتوں اور فیصلے کے مرحلہ میں قانون دانوں نے ہی نہیں ہم خیال بنچ نے بھی اس قانونی نکتہ پر غور کیا نہ کوئی حکم دیا کہ جب نگران حکومت کی مقررہ آئینی مدت ختم ہوچکی ہے تو وہ کس قانون کے تحت کام کررہی ہے؟

معاف کیجئے یہ دو حوالے پڑھنے والوں کے سامنے رکھنا ازبس ضروری تھے۔ اولاً یہ کہ پنجاب کی نگران حکومت اس وقت قانونی حیثیت کی حامل نہیں ہے۔ ثانیاً یہ کہ صوبے میں مالیاتی نظم و نسق کا فقدان ہے۔ صوبے کے روزمرہ کے امور کو چلانے کے لئے جو مالیاتی انتظام کیا گیا تھا وہ 30 ستمبر کو ختم ہوچکا۔ یہ الگ بات ہے کہ خود اس مالیاتی انتظام کے قانونی ہونے پر بھی سوالات تھے مگر سیاسی عمل میں شریک جماعتوں میں سے کسی نے اس پر بات نہیں کی۔

پنجاب میں اساتذہ اور سرکاری ملازمین کے احتجاج کی وجہ صوبائی حکومت کے بعض ایسے فیصلے ہیں جن سے اتفاق ممکن نہیں۔ مثلاً صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا کہ مدت ملازمت ختم ہونے پر ریٹائر ہونے والے ملازمین کو ان کی چھٹیوں یعنی لیو ان کیش منٹ کی رقم ادا نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح ادائیگی پنشن میں 65 فیصد پنشن اور 35 فیصد گریجویٹی کا تناسب ریٹائر ہونے والے ملازم کی اس تنخواہ پر طے ہوتا ہے جو وہ بوقت ریٹائرمنٹ لے رہا ہے۔

مگر حکومت نے فیصلہ کیا کہ 65 اور 35 کا یہ تناسب آخری تنخواہ کے مطابق نہیں بلکہ 2017ء کے پے سکیلز کی بنیادی تنخواہ پر طے ہوگا۔

پنجاب حکومت نے اس قانون کا اعلان 30 جون 2023ء کو کیا اور یہ بھی کہا کہ اس کا اطلاق ماضی سے ہوگا۔ بار دیگر عرض کردوں کہ لیو ان کیش منٹ کی رقم 12 ماہ کی تنخواہوں کے مساوی ہوتی ہے۔ 25 یا تیس سال کی مدت ملازمین کے خاتمے پر نجی شعبہ کے اصول کے مطابق سالانہ ایک یا دو تنخواہوں کے حساب سے نہیں۔

دوسری بات حکومت 30 جون 2023ء کو بنائے گئے قانون کا بوجھ ان پر کیوں ڈال رہی ہے جو 1986ء یا اس کے بعد سرکاری ملازمت میں آئے۔

اصولی طور پر ایک غیرقانونی نگران حکومت کسی قسم کی قانون سازی کا حق نہیں رکھتی۔ کسی بھی طرح کی قانون سازی نگران حکومت کا کام ہی نہیں اس نے اپنی آئینی مدت جو 60 یا 90 دن جو بھی ہو میں صرف روزمرہ کے امور انجام دینے ہیں۔ ملازمت، بنیادی پے سکیل یا پنشن کے قوانین بھی دوسری قانون سازی کی طرح اس کے دائرہ اختیار میں نہیں۔

چلیں اس ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہوتا ہے۔ نگران حکومت نے قانون بنادیا تو پھر اس کا اطلاق یکم جولائی 2023ء کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کرنے والوں پر ہوتا ہے اس کے لئے بھی ضروری ہے کہ حکومت اشتہار ملازمت کے ساتھ نئے قوانین کو بھی بطور خاص مشتہر کرے تاکہ سرکاری ملازمت کے حصول کے خواہش مند امیدوار فیصلہ کرتے وقت سوچ سمجھ لے کہ انہیں سرکاری ملازمت کرنی ہے۔ نجی شعبہ میں جانا ہے یا پھر کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرنا ہے۔

پنجاب کی غیرقانونی نگران حکومت جس طرح صوبے سے کھلواڑ کررہی ہے اس پر سیاسی جماعتوں کی خاموشی بھی جرم کے زمرے میں آتی ہے۔ خیر اس معاملہ پر خاموشی اختیار کرنے والی سیاسی جماعتوں کو بوقت “ضرورت” پتہ چل جائے گا کہ رائے دہندگان میں شامل ان سرکاری ملازمین کے خاندان کیا کرسکتے ہیں۔

ایک بار پھر یہ نکتہ آپ کے سامنے رکھنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ پنجاب کی نگران حکومت کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں ایک مقررہ مدت جو آئین میں لکھی ہے کے بعد یہ حکومت غیرقانونی طور پر صوبے پر مسلط ہے۔

اس غیرقانونی دور میں اس کے اقدامات کے جائز ہونے کا جواز کیا ہوگا؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ ماہرین دستور کو اس پر لب کشائی کرنا چاہیے۔

غیرقانونی نگران حکومت کے غیرقانونی فیصلوں کے خلاف احتجاج کرنے والے اساتذہ و سرکاری ملازمین پر پولیس تشدد اور ان کے خلاف نگران وزیراعلیٰ یا آئی جی پنجاب کے ایما پر من گھڑت مقدمات کا اندراج شرمناک ہے۔

ایسا لگتاہے کہ نگران وزیراعلیٰ صوبے کے سرکاری ملازمین کو اپنے میڈیا ہائوس کا ملازم سمجھتے ہیں۔ اسی لئے ان کا سرکاری ملازمین سے وہی رویہ ہے جو اپنے میڈیا ہائوس کے ملازمین کے ساتھ ہوتا ہے۔

یہ بھی درست امر ہے کہ سرکاری ملازمین اور اساتذہ کو پنجاب کی نگران حکومت کے غیرقانونی فیصلوں کے خلاف پرامن احتجاج کے ساتھ اسے عدالتوں میں چیلنج کرنا چاہیے۔ غالباً اس سلسلے میں چند درخواستیں لاہور ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہیں۔ ملازمین کی دادرسی کو کم از کم اتنی اہمیت تو عدالتوں خصوصاً ہائیکورٹ کے ججوں کو دینا چاہیے جتنی وہ بعض پسندیدہ سیاسی شخصیات کے مقدمات کو دیتے ہیں۔

سیاسی شخصیات آسمان سے اتری مخلوق اور سرکاری ملازمین راندہ درگاہ نہیں انصاف کا حصول دونوں کا حق ہے۔

اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ عدالتیں بلاامتیاز انصاف کریں تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ انصاف بھی طبقاتی نظام کے زیراثر ہے۔

حرف آخر یہ ہے کہ اپنے حق کے لئے احتجاج کرنے والے اساتذہ اور ملازمین سے پچھلے دو دنوں میں پولیس نے جو سلوک کیا وہ شرمناک حد تک قابل مذمت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پنجاب پولیس کے ملازمین بھی بوقت ریٹائرمنٹ اسی قانون کی زد میں آئیں گے تب انہیں احساس ہوگا کہ قانون کی عملداری کے نام پر انہوں نے غیرقانونی کام کئے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply