• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • گیان واپی مسجد۔ بابری مسجد کا ری پلے۔۔افتخار گیلانی

گیان واپی مسجد۔ بابری مسجد کا ری پلے۔۔افتخار گیلانی

90ء کی دہائی کے اوائل میں جب بھارت کے اتر پردیش صوبہ کے ایودھیا شہر میں بابری مسجد کو مسمار کیا گیا ، تو مجھے یا د ہے کہ دہلی کے نظام الدین ویسٹ کالونی میں مولانا وحید الدین خان اپنے بنگلہ میں ملاقاتیوں کو تاکید کیا کرتے تھے، کہ مسلمانوں کو مسجد کی جگہ اب رضاکارانہ طور پر ہندووں کو حوالے کردینی چاہئے۔ ان کا استدلال تھا کہ اس سے دونوں فرقوں کے درمیان نفرتیں کم ہو جائیں گی اور اس کے بدلے دیگر مساجد کے تحفظ کی گارنٹی لی جاسکتی ہے۔ چونکہ انہی دنوں پارلیمنٹ نے مذہبی مقامات ایکٹ 1991بھی پاس کیا تھا ، جس کی ر و سے بابری مسجد کے بغیر دیگر تمام عبادت گاہوں کی پوزیشن جو 1947میں تھی، جو ں کی توں برقرار رکھی جائیگی، اسلئے ان کی یہ بھی دلیل تھی کہ اب بقیہ تمام مساجد کو قانونی تحفظ فراہم ہو گیا ہے، اسلئے مسلمانوں کو اب گھبرانے یا خواہ مخواہ ایشو بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
خیر جس طرح پہلے الہٰ آباد ہائی کورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے قضیہ سے متعلق اپنے فیصلوں میں قانون کو طاق پر رکھ کر عقیدہ کو بنیاد بنا کرمسمار شدہ مسجد کی زمین ہندو فریقین کے سپرد کی، اس سے شہہ پا کر کئی ہندو تنظیموں نے اب وارانسی یا بنارس کی تاریخی گیان واپی مسجد اور آگرہ کے پاس متھرا کے عید گاہ مسجد پر دعویٰ درج کرکے ان کوہندووں کے حوالے کرنے کی اپیل کی ہے۔ جس طرح بابری مسجد کے کیس میں بھگوان رام کر فریق بنا کر اس کی طرف سے عرضی دائر کی گئی تھی، بالکل اسی طرح ان دونوں کیسوں میں بھی بھگوان وشیویشوراور بھگوان کرشن کو فریق بنا کر عرضی دائر کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے باضابط رام لیلا کو فریق مان کر مسجد کی زمین اسی کے سپرد کی اور سماعت کے دوران یہ بھی تسلیم کیا کہ چونکہ رام لیلا نابالغ ہے اسی لئے ویشو ہندو پریشد کی سرپرستی میں ان کے وکیل سی ایس ویدیا ناتھن ان کا کیس لڑیں گے۔
مستقبل میںشاید ہی کوئی یقین کرے گا، کہ 21ویں صدی میںدنیا کے کسی جمہوری ملک کی سپریم کورٹ نے ایک اساطیری شخصیت کو فریق بنا کر اس کے دلائل ریکارڈ پر لاکر اس کے حق میں فیصلہ بھی سنادیا۔ مگر یہ اب ایک کھلی حقیقت ہے کہ قانون اور آئین کی پروا کیے بغیر عدالت نے کہا کہlaw of limitation کا اطلاق ہندو دیوتائوں پر نہیں ہوتا اور نہ ہی ان جگہوں پر ہوتا ہے جہاں ان دیوتائوں کی نشانیاں ہوں۔ دوسرے لفظوں میں کسی بھی جگہ پر کوئی شخص کوئی مورتی، چاہے وہ پتھرکا ٹکڑا یا کسی درخت کی شاخ یا پتا ہی کیوں نہ ہو، رکھ کر اس پر مالکانہ حقوق جتا سکتا ہے، چاہے اس جگہ کا مالک وہاں صدیوں سے ہی مقیم کیوں نہ ہو۔یہ بھی اب حقیقت ہے کہ سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو ریٹائرمنٹ کے بعد اسی فیصلہ کی وجہ سے ا یوان بالا یعنی راجیہ سبھا کا رکن بنایا گیا۔
بنارس کی ایک عدالت میں جب ہندو انتہا پسندوں کے وکیل نے گیان واپی مسجدپر دعوی ٰ درج کیا، تو پارلیمنٹ کے 1991کے قانون کا حوالہ دیکر اسکو پہلی سماعت کے دوران ہی خارج کردینا چاہئے تھا۔ مگر فاسٹ ٹریک کورٹ نے کیس کو سماعت کیلئے نہ صرف منظور کیا بلکہ آثار قدیمہ کو مسجد کے احاطہ کے سروے کرانے کا حکم دے دیا تاکہ معلوم کیا جائے کہ وہاں کسی مندر کے آثار تو نہیں ہیں۔ کیونکہ ہندو وکیل نے دعویٰ کیا ہے کہ مسجد دراصل پاس کے ویشویشور مند ر کا حصہ ہے۔ ہندو وکیل وجئے شنکر رستوگی کا کہنا ہے کہ عدالت نے اتر پردیش کی حکومت کو سروے کرانے اور اسکا خرچہ برداشت کرنے کا حکم دے دیا ہے اور آثار قدیمہ کی ٹیم میں پانچ ماہرین کو شامل کیا جائیگا۔
اگر یہ کہا جائے کہ بابری مسجد کیس کا ری پلے ہو رہا ہے، تو بے جا نہ ہوگا۔ اسی طرح اس کیس میں بھی آثار قدیمہ کو بابری مسجد کی جگہ پر کھدائی کرنے کا حکم دیا گیا تھا تاکہ اس کی بنیادوں کے نیچے کسی مندر کے آثار پتہ کئے جائیں۔ خیر بابری مسجد کی بنیادوں کے بارے میں آثار قدیمہ نے یہ تو رپورٹ دی کہ 16ویں صدی میں جب مسجد کی بنیاد رکھی گئی تھی، اس وقت وہاں کو ئی عمارت موجود نہیں تھی۔ ہاں اس جگہ پر جو آثار ملے، ماہرین کے مطابق وہ زیادہ سے زیادہ 11ویں یا 12ویں صدی کے ہوسکتے تھے ۔ یعنی مسجد کی تعمیر سے قبل 400سال تک اس جگہ پر کوئی عمارت موجود نہیں تھی، جس کو مبینہ طور پر مسمار کرکے مسجد بنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
دستور میں موجود قانون حد یعنی Law of Limitation کو نظر انداز کرکے آثار قدیمہ یا اساطیری شخصیات کو فریق بنا کر اور عقیدہ کی بنیاد پر عدالتی فیصلے دینا نہایت ہی خطرناک رجحان ہے۔ دنیا میں شاید ہی کو ئی ایسی عمارت یا جگہ ہوگی، جس کے نیچے کسی نہ کسی قدیم تہذیب کے آثار نہ پائے جائیں گے۔ اسکو اگر واقعی بنیاد بنایا گیا تو بھارت میں شاید ہی کوئی مندر بچ جائیگا، کیونکہ ایک وقت پوری آبادی نے بدھ مت اختیار کیا تھا ۔ جب آدی شنکر اچاریہ نے ہندو ازم کا احیا کیا تو بدھ عبادت گاہوں کو مسمار کرکے مندر تعمیر کروائے گئے تھے۔
ایک اندازہ کے مطابق زمین کی عمر 4.54بلین سال کے لگ بھگ ہے اور اس میں انسانی آبادی کا وجود 50ہزار سال سے ہے۔ اس دوران کئی تہذیبوں یا انسانی آبادیوں نے اس کو آباد کیا ۔ پھر تلاش معاش کی وجہ سے یا تو ہجرت کرکے دیگر علاقوں کی طرف چلے گئے یا جنگوں یا آفات سماوی کی وجہ سے نیست نابود ہو گئے۔ لہذا دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ ہوگا ، جہاں کھدائی کرکے کچھ نہ کچھ آثار برآمد نہیں ہونگے۔ اسی لئے اس اندیشہ کے پیش نظر کہ کوئی شخص کسی جائیداد یا جگہ پر یہ دعویٰ کرے کہ ہزار یا کئی سو سال قبل یہ اس کے آباو اجداد کی ملکیت تھا، دنیا کے تمام ملکوں کے دستورں میں قانون حد یعنی Law of Limitation شامل کیا گیا ہے، جس کی رو سے ایک خاص مدت کے بعد کوئی بھی عدالت ملکیتی دعویٰ کا کوئی بھی کیس سماعت کیلئے منظور نہیں کرسکتی ہے۔
اس کی ایک واضح مثال لاہور کا شہید گنج گوردوارہ ہے۔ 1762ء میں لاہور پر سکھوں کے قبضے کے بعد اس مسجد پر ان کے فوجیوں نے ڈیرہ ڈالا اور بعد میں اس کوگوردوارہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ 1849ء میں جب پنجاب برطانوی عملداری میں شامل ہوا تو مسلمانوں نے اس مسجد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ پریوی کونسل نےlaw of limitationکو بنیاد بنا کر اس کا فیصلہ سکھوں کے حق میں کیا۔ 1850ء میں مسجد کے متولی نور احمد نے عدالت میں فریاد کی اور وہ 1880ء تک قانون کے مختلف دروازوں پر دستک دیتے رہے، مگر ہر بار limitation Law of کا حوالہ دے کر عدالتیں ان کی اپیلوں کو خارج کرتی رہیں۔پاکستان بننے کے 74سال بعد بھی یہ گوردوارہ آب و تاب کے ساتھ لنڈا بازار میں کھڑا ہے۔ لاہور میں جس طرح اس مسئلے نے جذباتی رخ اختیار کیا تھا، آزادی کے بعداندیشہ تھاکہ اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے مگر کسی پاکستانی سیاستدان نے برطانوی عدالت کا فیصلہ رد کرنے کی کوشش نہیں کی۔
بنارس کی گیان واپی مسجد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اسے مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے سترہویں صدی میں تعمیر کرایا تھا لیکن تاریخی طور پر یہ بات ثابت نہیں ہے۔ کیونکہ بعض مخطوطوں کے مطابق مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے عہد حکومت میں بھی یہ مسجد موجود تھی ۔ یہ جامع مسجد شہر کے قلب میں دریائے گنگا کے کنارے للتا گھاٹ کے قریب واقع ہے اور اس شہر سے گذرنے والی ٹرین سے بھی اس کا دور سے نظارہ کیا جاسکتا ہے ۔ متھرا کی شاہی عیدگاہ اور مسجد کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے کہ بھگوان کرشن کا جنم استھان کا حصہ ہے ۔ یہ دونوں ہی قدیم مساجد ہیں، جہاں مسلمان برسہا برس سے نمازیں پڑھتے آئے ہیں۔
بنارس کی اس مسجد کے بارے میںمورخوں کا کہنا ہے کہ آسام پر فوج کشی کے واپسی کے بعد جب اورنگ زیب کی فوجوں نے اس شہر میں پڑاو ڈالا، تو اسکے راجپوت کمانڈروں کی بیویاں مندر میں پوجا کرنے کیلئے گئیں۔ رات تک جب گجرات کے کچھ علاقہ کے مہارانا گیان سنگھ کی رانی اور اس کی دو داسیاں واپس نہیں لوٹیں ، تو اگلی صبح مندر کے تہہ خانہ کی تلاشی کے دوران گیان سنگھ نے دیوار سے لگے بھگوان گنیش کے بت کو جھنجھوڑ ڈالا، تو اسکے نیچے تہہ خانے کو جاتی سیڑھیاں نظر آئیں۔ نیچے جا کر پتہ چلا کہ کچھ کی مہارانی ادھ موئی پڑی تھی اور اسکے کپڑے تار تار تھے۔ اورنگ زیب نے یہ کیس کچھ کے راجا کے حوالے کر دیا، جس نے مندر کے برہمن پجاریوں کو احاطہ کے اندر ہی موجود کنوئیں میں پھینکوا کر، اوپر سے کنواں بند کرا دیا اور اسکے اوپر مندر کو ازسر نؤ تعمیر کرادیا ۔
مغل بادشاہ کو خوش کرنے کے لئے اس مندر کی دیوار سے متصل ایک مسجد بھی تعمیر کرائی ۔مگر کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ اس نے مسجد کی مرمت کروائی، کیونکہ یہ پہلے سے ہی موجود تھی۔ یہ بھارت میں واحد مسجد ہے جو اپنے سنسکرت نام یعنی گیان واپی( علم کا کنواں) کے نام سے موسوم ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مشہور شہنائی نواز استاد بسم اللہ خان جو ایک مذہبی انسان تھے، صبح کی نماز ادا کرنے اسی مسجد میں آتے تھے اور پھر اپنے ماموں علی بخش کے ساتھ پاس کے مندر میں جاکر ریاض کرتے تھے۔

Facebook Comments