کان پک چکے ہیں خیبر پختونخوا کی پولیس کے بارے میں سُن سُن کے۔ وہاں کون سا کمال کیا تھا جس کا کریڈٹ عمران خان صاحب لیتے تھکتے نہیں۔ ایک آئی جی اچھا لگایا تھا اور اُس کے کام میں مداخلت کی اجازت نہیں تھی۔ آئی جی نے پولیس چلائی جس کے اثرات اچھے تھے۔ یعنی ایک آدمی کا چناؤ ہی اچھا تھا باقی KPK کی پولیس سکاٹ لینڈ یارڈ نہیں بنی۔ ناصر خان درانی سفارشی آئی جی نہیں لگے تھے۔ یہ صورتحال پنجاب میں نہیں۔ یہاں جو آئی جی لگا ہے‘ سب جانتے ہیں اُس کا سفارشی کون ہے۔ ناصر درانی یہاں لگے ہوتے تو وہ جھوٹ نہ بولے جاتے‘ جو ساہیوال سانحے کے بعد پنجاب پولیس نے بولے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے تازہ فرمان یہ ہے کہ پنجاب میں ماڈل تھانے بنائے جائیں گے۔ ماڈل تھانوں والی بات پرانی کہانی ہے اور ایسی کہانیاں سُنتے سُنتے بھی کان پک چکے ہیں۔ ماڈل تھانے کمپیوٹروں یا رنگ روغن سے نہیں بنتے۔ اچھے اہلکار لگائے جائیں تو فرق محسوس ہوتا ہے۔ ناصر درانی طرز کے لو گ ہوں گے تو پنجاب پولیس میں بہتری آئے گی۔ نہیں تو پنجاب پولیس کی وہی کارکردگی رہے گی جو سانحہ ساہیوال میں دیکھنے کو ملی۔
ناصر درانی کا مجھے کچھ ذاتی تجربہ بھی ہے‘ اور وہ میں بیان کرتا ہوں۔ مشرف دور میں وہ راولپنڈی ڈویژن کے آر پی او تھے۔ ایک شام میں گھر بیٹھا تھا کہ چکوال کی ایک مشہور خواجہ سرا نے دروازے پہ دستک دی اور روتے روتے اندر آئی۔ ایک پولیس والے کے ساتھ اُس کے شاید مراسم تھے‘ اور اُس شام وہ اِس خواجہ سرا کو زبردستی کہیں لے جانا چاہتا تھا۔ خواجہ سرا کے انکار پہ پولیس والا اُسے زدوکوب کرنے لگا۔ اِس بات کی شکایت لے کے خواجہ سرا میرے پاس آئی تھی۔ میں نے اُسی وقت اپنے دوست قاضی ابرار ایڈووکیٹ کو فون کیا‘ اور معاملہ بتایا۔ وہ سیدھا تھانے آئے‘ اور میں بھی سٹی تھانے پہنچ گیا۔ خواجہ سرا کے بیان کے مطابق درخواست دی گئی‘ اور میں نے کہا: یہ پرچہ درج ہونا چاہیے۔ تب رات کے گیارہ ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔ چونکہ پیٹی بھائی کا مسئلہ تھا تو تھانے والوں نے بات کو ٹالنے کی کوشش کی۔ میں نے زور دیا کہ پرچہ درج ہونا چاہیے۔ تھانے والوں کی جب آئیں بائیں شائیں ختم نہ ہوئی تو میں نے درانی صاحب کو فون کیا۔ سارا معاملہ بتایا۔ اُنہوں نے تب کے ڈی پی او چکوال کو حکم دیا کہ پرچہ درج ہونا چاہیے۔ رات بارہ بجے کے بعد ایف آئی آر کٹی اور اُس کی کاپی خواجہ سرا نے تھامی۔ تب ہم تھانے سے گئے۔ ظاہر ہے جرم دار پولیس والا اُس وقت تک رَفوچکر ہو چکا تھا۔ چھ سات ماہ وہ ڈیوٹی سے غیر حاضر رہا، پھر منتیں ترلے کرکے سمجھوتہ ہوا۔ اُس نے پھر کبھی جرأت نہ کی کہ اُس خواجہ سرا کو تنگ کرے۔
اِتنے میں 2008ء کے الیکشن آن پڑے اور میں ایم این اے منتخب ہوا۔ ایک پولیس افسر‘ جس کو میں اچھا سمجھتا تھا‘ کی پوسٹنگ بطور ڈی پی او میں نے کروائی۔ زُعم میں‘ میں یہ کر تو بیٹھا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد ڈی پی او کی زیادتیوں کی خبریں آنے لگیں۔ موصوف اپنے آپ کو بڑا دلاور سمجھتے تھے اور خود ہاتھ چلانے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ ایک دن یوں ہوا کہ دو مسلح افراد نے اپنی کسی ذاتی رنجش کی بنا پہ کسی شخص پہ ضلع کچہری کے قریب حملہ کیا۔ ڈیوٹی پہ مامور پولیس گارڈ ہوشیار تھا اور حملہ دیکھتے ہی اُس نے فائر کھول دیا‘ جس سے ایک حملہ آور وہیں زمین پہ گر پڑا۔ دوسرا قریب موضع چکوڑہ کی طرف بھاگ نکلا۔ پولیس نے اُس کا تعاقب کیا اور چکوڑہ کی گلیوں میں ہی اُسے پکڑ لیا۔ ڈی پی او بھی موقع پہ پہنچ گیا‘ لیکن بجائے اِس کے کہ قابو ہونے والے شخص کو قانون کے مطابق حراست میں لیا جاتا‘ اُسے ایک کھلے کھیت میں موضع کے لوگوں کے سامنے بھگایا گیا‘ اور پھر پولیس نے ڈی پی او کے حکم پہ فائر کھول دئیے۔ اِس وقوعہ کو پولیس نے مقابلے کا نام دیا اور اِس کی اطلاع آر پی او کو دی گئی۔ آر پی او نے وائرلیس پہ چکوال پولیس کو شاباش دی کہ اُس نے دلیرانہ اقدام سے ایک خطرناک مجرم کو مقابلے میں مارا۔
جب یہ ڈرامہ ہو رہا تھا تو میں چکوال اپنے گھر بیٹھا تھا۔ مجھے اطلاعات ملنے لگیں کہ یہ کوئی اِنکاؤنٹر (Encounter) نہیں تھا بلکہ پولیس نے حراست میں لیے ملزم کو اڑا دیا تھا۔ میں موقع پہ پہنچا اور موضع چکوڑہ کے لوگوں سے وقوعے کے بار ے میں دریافت کیا۔ لوگ سہمے ہوئے تھے اور کھل کے بات نہیں کر رہے تھے‘ لیکن پھر ایک نوجوان سامنے آیا اور اُس نے کہا کہ میں سارے واقعے کا چشم دید گواہ ہوں اور ایسا ہی ہوا ہے‘ جیسا مجھے بتایا گیا ہے۔ اُس ایک آدمی کی بات پہ میں نے یقین نہ کیا بلکہ گاؤں میں گھوم کے اپنی تسلی کی کہ جو کچھ سُنا ہے‘ مبنی بر حقیقت ہے۔ اِتنے میں پتہ چلا کہ بڈھیال گاؤں‘ جس گاؤں کا رہائشی متوفی تھا‘ کے لوگ تحصیل چوک میں لاش لیے اکٹھے ہو گئے ہیں‘ اور اُن کا پروگرام ہے کہ لاش کو لے کر وہاں چوک میں دھرنا دیں۔ جب میں وہاں پہنچا تو کہا کہ پہلے پوسٹ مارٹم کراؤ‘ دھرنا بعد میں ہو جائے گا۔ وہ پوسٹ مارٹم کرانے چلے گئے اور پھر لواحقین میرے پاس آئے۔ درخواست تیار کی گئی اور سٹی تھانہ میں درج ہونے کیلئے دی گئی۔ معاملہ ڈی پی او کا تھا‘ اور درخواست میں ڈی پی او کو نام لے کر واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ پولیس والوں کے منہ لال پیلے ہو گئے‘ لیکن میرا اصرار تھا کہ 302 کا پرچہ درج ہو۔ ڈی پی او مجھے فون کرتا رہا۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ 32 کالیں اُس نے کیں‘ لیکن میں نے اُس سے بات نہ کی۔ آر پی او ناصر خان درانی سے رابطہ قائم کیا گیا اور میں نے کہا کہ اِس ڈی پی او نے آپ کو بھی شرمندہ کیا ہے‘ اور آپ نے شاباش کی وائرلیس اِس کے جھوٹ پہ چلا دی تھی۔ رات گئے سٹی تھانے میں ڈی پی او کے خلاف 302 کا پرچہ درج ہو گیا۔
وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو بھی میں نے سارے واقعے سے مطلع کیا اورکہا کہ ایسا آدمی ڈی پی او نہیں رہنا چاہیے۔ اُنہوں نے فوری ایکشن نہ لیا‘ لیکن کچھ دِنوں بعد ڈی پی او کو دفتر جانے سے روک دیا گیا‘ اور وہ گھر سے ہی حکم چلاتے رہے۔ کچھ عرصے بعد ٹرانسفر بھی ہو گئی۔ لیکن پولیس کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے میری منت سماجت کی، میں نے کہا: لواحقین پہ منحصر ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ وہ بیچارے غریب اور کمزور آدمی تھے۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد سمجھوتے پہ راضی ہو گئے۔ میں نے اصرار کیا کہ ڈی پی او کو پیسے دینے پڑیں گے۔ معاملہ 17 لاکھ پہ طے ہوا۔ ڈی پی او نے کہاں جیب سے دینے تھے۔ ضلع پولیس نے اوگرائی کی، پیسے اکٹھے ہوئے اور میری موجودگی میں لواحقین کو ادا کئے گئے۔
ایک واقعہ اور سُناتا چلوں۔ چکوال پولیس میں ایک بہت ہی بدنام قسم کا سب انسپکٹر تھا‘ جس کی آئے روز کہانیاں گردش کرتی تھیں۔ میں نے آر پی او ناصر خان درانی سے کہا کہ اِس آدمی کا ایک ہی علاج ہے کہ اِسے پنجاب کانسٹیبلری میں بھیجا جائے۔ یہ فورس یعنی پنجاب کانسٹیبلری پولیس والوں کے لیے کالے پانی کا درجہ رکھتی ہے۔ ناصر درانی میری بات نہ مانے۔ اُنہوں نے کہا: میں دیکھ لیتا ہوں۔ بغیر کسی کو اطلاع کیے اُنہوں نے از خود سپیشل برانچ کے ذریعے اُس سب انسپکٹر کی انکوائری کروائی۔ انکوائری سے ثابت ہوا کہ سب انسپکٹر واقعی پرلے درجے کا بدنام ہے۔ پھر بغیر کسی کے کہے آر پی او نے اُس کا تبادلہ پنجاب کانسٹیبلری میں کر دیا۔ وہ سب انسپکٹر کتنا رویا‘ میں جانتا ہوں۔
کہنے کا مطلب یہ کہ ہر کوئی ناصر درانی نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی والے تو کہتے تھے کہ ناصر خان درانی پنجاب میں پولیس ریفارمز کے انچارج ہوں گے۔ پہلے تو نیک نام محمد طاہر کو بطور آئی جی پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت برداشت نہ کر سکی۔ جب وہ ہٹائے گئے تو ناصر خان درانی نے بھی اپنے ہاتھ پولیس ریفارمز سے اُٹھا لیے۔ ساہیوال سانحے میں ہم دیکھ چکے کہ پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس نے کیا کارنامے سرانجام دئیے۔ یہ کیا ماڈل تھانے بنائیں گے۔
بشکریہ روزنامہ دنیا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں