انتہا پسند بھارتی سیاست اور مسلمان۔۔سید محسن علی

حریت رہنما یاسین ملک کی بھارتی عدلیہ کے سامنے پیشی سے قبل ہی اندازہ تھا کہ اس کی سزا کا فیصلہ بھی کسی ہندوتواکٹرپن نظرئیے کی روشنی میں ہی ہوگا۔ بھارت میں نریندر مودی اور بی جے پی جیسی انتہا پسند تنظیم کے برسر اقتدار میں آنے کے بعد صرف کشمیر ہی نہیں، دیگر ریاستوں میں بھی مسلمانوں کی مشکلات زندگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ روز نت نئے تنازعات نکل کر سامنے آرہے ہیں۔ جو کبھی حجاب سے شروع ہوتے ہیں پھر رمضان کے آتے ہی مساجد سے لاؤڈ اسپیکرہٹانے کی سرکاری مہم شروع ہوجاتی ہے۔ عید کے موقعے پر رش کے باعث مساجد کے باہر نماز ادا کرنے پر بھی وبال اٹھادیا گیا اور ہندو مسلم دنگے فساد ہوئے۔ یاد رہے اسی حکومت کی پالیسی کے تحت دو سال قبل بھی دہلی ہندو مسلم فسادات سے لرز اٹھا تھا۔

اب کہیں انکروچمنٹ کے نام پر بغیر کوئی نوٹس دئیے مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کیاگیا تو بابری مسجد کی شہادت کے بعد گیان واپی مسجد کے نیچے بھی مندر کی موجودگی ثابت کی جارہی ہے۔ ساتھ ہی ہند میں مسلمانوں کی عظیم و شان سلطنتوں اور منظم حکومتوں کی تاریخ کو مسخ کرکے انہیں ایک تاریک ماضی سے تشبیہہ دے کر مسلمان بادشاہوں کے وہ اسباق ، جو سالوں سے نصاب کی کتابوں میں پڑھائے جارہے تھے ختم کیے جارہے ہیں۔

یہ تمام افسوسناک واقعات کوئی اتفاق نہیں بلکہ اس بھارتی انتہاپسند سیاسی نظریے کی کھلی حقیقت ہیں جن کی بدولت بھارت میں نفرت کی سیاست کی جاتی ہے اور بھارتی جنتا کے سامنے ہر وقت مسلم دشمنی اور پاکستان کا راگ الاپا جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں بھارتی میڈیا بھی اپنی حکومت کی اس منفی سوچ کی بھرپور معاونت کا کردار ادا کرتا ہے ۔ حکومتی سطح پر ایسی فلموں کی بھی پذیرائی اور سپورٹ کی جاتی ہے جس میں مسلمان کو ظالم اور ہندو کو مظلوم دکھایا جائے جس کی حالیہ بڑی مثال کشمیر فائلز نامی بھارتی فلم ہے۔

معروف بھارتی کرکٹر عرفان پٹھان بھی بھارت میں حالیہ عرصے میں ہونے والے مسلم کش فسادات اور مسلمانوں کے خلاف ہوتی منظم نفرت انگیز کاروائیوں پر آواز اٹھائے بغیر نہیں رہ سکے ۔ انہوں نے اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ۔

میرا ملک میر ا خوبصورت ملک دنیا کا عظیم ترین ملک بننے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن۔۔

یہ ٹوئیٹ انہوں نے جہانگیر پوری میں ہونے والے مسلمان آبادی کے مکانات کو بذریعہ بلڈوزر مسمار کیے جانے کے تناظر میں کیا تھاجس پر ان کے کچھ ساتھی کرکٹرز اور مودی حکومت کے آئینہ کار بھارتی میڈیا نے انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ کچھ عرصے قبل بھی عرفان پٹھان کو اسی قسم کے افسوسناک رویے کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی فیملی فوٹو شیئر کی جس میں ان کی بیگم نے حجاب کیا ہوا تھا جس کے جواب میں انتہا پسند  ہندوؤں نے ان پر تنقید کی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ساتھ ہی انتہا پسند وں نے مساجد کے بعداب تاج محل اور قطب مینار کی جانچ کا بھی پُرزور مطالبہ کردیا کہ یہ عمارات بھی مندروں کے اوپر قائم کی گئی ہیں ۔ اس مطالبہ کے ساتھ ہندوؤں کی ایک جماعت نے قطب مینار میں ہنومان چالیسہ بھی پڑھا۔ مگر بھارتی حکومت اور عدلیہ اتنی بھی بیوقوف نہیں جو دنیا بھر میں مشہور اپنی ان تاریخی عمارات کی شہرت کو نقصان پہنچائے۔ اسی لیے عدلیہ نے مسجد کے اندر تو سروے کی اجازت دیدی لیکن تاج محل کی جانچ کی پٹیشن کو برخواست کردیا۔ ان حالات میں وہاں کا مسلمان اگر اس دوہرے پن پر سوال اٹھائے تو غدار کہلاتا ہے اور اگر حکومتی موقف کی تائید کرے، ساتھ پاکستان کو گالی دے تو محب وطن قرار پاتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply