• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • تبلیغی اجتماع کے نزدیک خود کش دھماکہ۔۔۔طاہر یاسین طاہر

تبلیغی اجتماع کے نزدیک خود کش دھماکہ۔۔۔طاہر یاسین طاہر

لاہور ایک بار پھر لہو لہو ہو گیا ہے۔دنیا دیکھ لے کہ کیا پاکستان دہشت گردوں کا پشتی بان ہے یا خود دہشت گردی کا شکار ملک؟ بے شک آخر الذکر ہی حقیقت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیاں بے مثال ہیں۔گذشتہ سے پیوستہ روز تبلیغی اجتماع کے نزدیک ہونے والے خودکش حملہ آور کا نشانہ بہ ظاہر پولیس والے ہی تھے۔ہمارا سماج کیوں انتہا پسندی کا اکھاڑہ بنا؟ کیوں بھانت بھانت کی مذہبی تنظیمیں بنیں اور انھوں نے اپنے اپنے “اسلام” کو بیچنا شروع کر دیا؟ کیوں فتویٰ بازی کی حوصلہ افزائی کی گئی؟کیوں تکفیر ی رویوں کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی؟اور بالخصوص جب پاکستان میں خود کش حملے شروع ہوئے تو کیوں نہ ایک قومی بیانیہ اپنایا گیا؟خود کش حملوں کی اگر مگر کے ساتھ مذمت کرنے کے بجائے کھل کر اس عمل کی مخالفت کیوں نہ کی گئی؟ہم سب جانتے ہیں کہ دہشت گردوں کے حوالے سے نرم رویہ رکھنے والے کون کون سے لوگ ہیں۔
تحریک طالبان کالعدم جماعت ہے،اور پاک فوج سے شکست خوردہ۔ اس جماعت کا ایک ترجمان اداروں کی حراست میں ہے۔اصل چیز بیانیہ ہے جو قریب قریب تمام دہشت گرد گروہوں کا ایک سا ہے۔سب اپنے طور پر نام نہاد” مجاہد” ہیں اور اسلام کی سربلندی کے لیے مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ یہ صرف پاکستان ہی میں نہیں ہو رہا بلکہ یمن، شام صومالیہ بھی بری طرح اس بیانیے کی زد میں ہیں اور وہاں بھی معصوم انسانون کا خون مذہبی بیانیے کی پیاس بجھا رہا ہے۔جی چاہتا ہے کہ ایک تحقیقی کام اس حوالے سے کیا جائے کہ مذہبی تنظیموں اور جماعتوں نے مذہب کی خدمت کیا کی؟ اور مذہب کے نام پر انسان کشی کس قدر کی۔یہ بحث فضول ہے کہ خود کش حملے ردعمل ہیں۔کس چیز کا ردعمل؟ کیا ریاست کے اندر دہشت گردوں کے ہمدردوں کو ریاست قائم کرنے کی اجازت دے دی جائے؟کالعدم لشکر جھنگوی ،کالعدم لشکر جھنگوی العالمی،کالعدم تحریک طالبان پاکستان، کالعدم نفاذ شریعت محمدی،کالعدم جماعت الاحرار سمیت اسی فکری رویے کی دیگر مسلح جماعتیں اصل میں کالعدم دہشت گرد تنظیم داعش کی طرف دیکھ رہی ہیں اپنی کامیابی کے لیے۔ ان سب کالعدم جماعتوں کے وحشیوں کے نزدیک اللہ کے پسندیدہ بندے یہی ہیں کہ جن کے ذریعے اسلام کا جھنڈا دنیا پہ لہرائے گا۔ اس نیک کام کے لیے یہ عقل کے اندھے مسلمانوں کا ہی خون بہا رہے ہیں۔
ریاست کا اہم ادارہ حکومت ہوا کرتا ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کا تحفظ کرے۔تمام تر قربانیوں اور جراتوں کے باوجود یہ حقیقت بھی تکلیف دہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ہو یا نون لیگ کی، سب نے مرنے والوں کی لاشوں کی قیمت لگائی اور لواحقین کو ادا کر دی۔ بلکہ بعض واقعات کے شہدا کے لواحقین اور زخمی تو ابھی تک اعلان کردہ رقم کے حصول کے لیے تگ و دو میں ہیں۔جیسا کہ حضرت لعل شہباز قلندر کی درگاہ میں ہونےو الے خودکش حملے کے کئی زخمی ابھی تک امدادی رقم کو ترس رہے ہیں۔دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ اس وقت تک ہو ہی نہیں سکتا جب تک دہشت گرد کو مقامی سپورٹ حاصل نہ ہو۔یہی مقامی سپورٹرز سہولت کار کہلاتے ہیں اور بد قسمتی سے ہر شہر میں اب بھی پائے جاتے ہیں۔ صرف ان سہولت کاروں نے اپنی زبانوں کو لگام دے لی ہے، اپنا حلیہ تبدیل کر لیا ہے، قدرے گوشہ نشین ہو رہے ہیں مگر اپنے ہدف کے حوالے سے مستعد ہیں۔ ان سب کا ہدف ملک میں افراتفری، قتل و غارت گری اور اپنے اپنے فہم ِ اسلام کی جدوجہد ہے۔سب دہشت گردوں کی نظریں داعش کی طرف ہیں، کبھی القاعدہ کی طرف ہوا کرتی تھیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان جن علاقوں میں موجودتھی اور اپنی وحشتوں کا ثبوت دے رہی تھی وہاں سے اسے پاک فوج کے ہاتھوں بری طرح شکست ہوئی۔دہشت گرد یا تو بارڈر پار افغانستان بھاگ گئے یا جہنم واصل ہوئے، اس کے باوجود یہ خطرہ بہر حال موجود ہے کہ دہشت گرد پلٹ کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہیں گے اور اب کی بار ان کا ہدف بڑے شہر ہیں۔ایسا اس لیے ہو گا کہ داعش کا طریقہ واردات یہی ہے، کشت و خون اس بڑے پیمانے پر کہ خوف و ہراس آخری حدودں کو چھونے لگے۔لاہور والے تازہ دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے،لیکن کیا اس تحریک میں ابھی بھی جان ہے کہ وہ لاہور جیسے بڑے شہر میں،ایک بڑے مذہبی اجتماع کے دوران دہشت گردی کر سکے؟یقیناً کالعدم تحریک طالبان پاکستان اپنی مرکزیت کھو چکی ہے، اکا دکا گروہ اپنی وحشیانہ طبع اور
فہم ِاسلام سے مجبور ہیں۔عالمی طاقتیں بھی پاکستان کو اکھاڑہ بنانے کے لیے ایک ہی طرح کے فکری رویے کی حامل نظر آرہی ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے لیے بہت ضروری چیز سیاسی استحکام ہے۔ ایک ایسی حکومت جس کی اولین ترجیح داخلی و خارجی سطح پر امن کی تلاش ہو۔ہمیں پاک فوج،پولیس اور عام شہریوں کی دہشت گردی کے خلاف جانی قربانیوں کا بے حد اعتراف ہے۔ ہاں مگر نیشنل ایکشن پلان کو مت بھولیے گا۔ اس کی ہر شق پہ من و عن عمل ہی ملک میں امن کی ضمانت ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنک کو نظر انداز کر کے ہم امن کی نوید کیونکر سن سکتے ہیں؟دہشت گردی کے خلاف بہت سارا کام ہو چکا ہے، بہت سارا کام ابھی باقی ہے لیکن جو باقی کام ہے وہ فکری سطح پہ دہشت گردوں کے بیانیے کی شکست ہے۔ اس کے لیے علمائے حق کو اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے لیے حق بات کہنے کو آگے آنا ہو گا۔بے شک پاکستان دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑ رہا ہے، بے شک دہشت گردوں کا مقدر دائمی شکست ہے۔لیکن صرف دہشت گردوں کو ہی نہیں بلکہ ان کے خاموش سہولت کاروں کو بھی شکست دے کر اس ملک کو امن والا پاکستان بنانا ہے۔یہی ہماری آرزو ہے یہی پاکستان کی سر بلندی کا نکتہ آغاز ہے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply