• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سویت یونین: روس اور پرانے اتحادیوں میں گزرے ہوئے دنوں کا ’ناسٹیلجیا‘ آج بھی برقرار۔۔ثقلین امام

سویت یونین: روس اور پرانے اتحادیوں میں گزرے ہوئے دنوں کا ’ناسٹیلجیا‘ آج بھی برقرار۔۔ثقلین امام

آج سے 30 برس قبل دسمبر کی آٹھ تاریخ کو یونین آف دی سوویت سوشلسٹ ری پبلکس کی 15 جمہوریاؤں میں سے تین کے رہنماؤں: روس کے صدر بورس یلسن، یوکرین کے صدر لیونِڈ کراوچُک اور بیلاروس کے سپریم سوویت چیئرمین رہنما سٹینِسلاو شُشکیوِچ نے یونین آف دی سوویت سوشلسٹ ری پبلکس (سوویت یونین) کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا۔

تینوں رہنماؤں نے بیلووِشسکایا پُشچا (بیلاروس) کے ایک وِسکولی نامی قصبے کی ایک سرکاری تفریحی عمارت میں سوویت یونین کے آئین کے آرٹیکل 72 کے مطابق یونین سے علحیدہ ہونے کے حق کا استعمال کرتے ہوئے سوویت یونین کو تحلیل کرنے کی دستاویز پر دستخط کے بعد آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ کے قیام کا اعلان کیا۔

انھوں نے اسی دستاویز میں سوویت یونین کو قائم کرنے والی سنہ 1922 کی دستاویز کی مذمت بھی کی۔ اتفاق کی بات ہے کہ ان ہی تین ریاستوں نے سوویت یونین کے قیام والی دستاویز یعنی سوویت یونین کے پہلے آئین پر دستخط کیے تھے۔ اس اعلان نے عالمی طاقت سوویت یونین کو برقرار رکھنے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

چار دن بعد 12 دسمبر کو روسی جمہوریہ کی سپریم سوویت نے اس اعلامیے کی توثیق کی۔ اور بالآخر خود سوویت یونین کے صدر میخائیل گورباشیف نے 26 دسمبر کو سوویت یونین کے خاتمے کا اعلان کر کے خود مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔

سنہ 1917 کے انقلاب کے بعد کمیونسٹ رہنما ولادیمیر لینِن کی قیادت میں تشکیل پانے والی پہلی سوشلسٹ ریاست یونین آف دی سوویت سوشلسٹ ری پبلکس نے غربت ختم کرنے، امن قائم کرنے اور نجی ملکیت کے خاتمے کے بعد اجتماعی منصوبہ بندی کے ذریعے اپنے ملک کے عوام کی ترقی کے ایک نئے دور کے آغاز کا وعدہ کیا تھا۔

لیکن دنیا کا یہ منفرد تجربہ اپنی زندگی کے 74 برس مکمل ہونے سے قبل ہی ناکام ہو گیا۔ سوویت یونین کے خاتمے کی مختلف توجیحات پیش کی گئیں۔ کسی نے کہا کہ خاتمے کے ذمہ دار گورباشیف تھے، کچھ نے اس نظام کو ہی ناکام کہا، اور کچھ نے سرد جنگ کو اس ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا۔

تاہم ‘دی اینڈ آف دی سوویت یونین’ کے مصنف سرگئی پلوخی کہتے ہیں کہ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ سویت یونین کے انہدام کے ساتھ سرد جنگ ختم ہوئی اور کمیونزم کی موت واقع ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تینوں باتیں ایک دوسرے سے مکمل اور واضح طور پر جدا ہیں۔

ان کے مطابق حقیقی معنوں میں سرد جنگ اس وقت ختم ہو گئی تھی جب مشرقی اور وسطی یورپ کے ممالک سنہ 1989 اور سنہ 1990 کے دوران سوویت یونین سے آزاد ہوئے اور انھوں نے اپنا اشتراکی نظام ختم کیا۔ یہ وہی دور تھا جب سوویت یونین کے اندر بھی کمیونسٹ نظام ایک جماعت کی حکمرانی کے خاتمے کے ساتھ ختم ہوا تھا۔

سوویت یونین
سوویت روس اور پھر سوویت یونین کے پہلے حکمران ولادیمیر لینن جو انقلابی کمیونسٹ رہنما تھے۔ سوویت یونین کا قیام اُن کے نظریات کی بنیاد پر ہی عمل میں آیا

 اقتصادی تباہی

ٹوٹنے سے پہلے اپنے آخری سالوں میں سوویت یونین کو شدید اقتصادی دباؤ کا سامنا تھا۔ وہ اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کر پا رہی تھی۔ سوویت یونین کے آخری دنوں اور اس کے خاتمے کے بعد کے حالات میں روسی سماج کی ایک تصویر میڈیکل ریسرچ کے معروف جریدے دی لانسیٹ نے جنوری سنہ 2018 کے شمارے میں شائع کی۔

’ایک سادہ پیمانہ لے لیں، متوقع عمر کے ایک جائزے نے ظاہر کیا کہ سوویت یونین سنہ 1970 اور سنہ 1980 کی دہائیوں کے دوران مغربی یورپ سے بتدریج مزید پیچھے چلا گیا تھا۔‘

’یہ ملک کسی حد تک اپنی آبادی کی مادی ضروریات پوری کر رہا تھا — نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات کافی کم تھی، اور لوگوں کے پاس کھانے کے لیے کافی تھا — لیکن سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے آخری جنرل سیکریٹری اور سوویت صدر میخائل گورباچوف کے بقول یہ نظام روحانی ضروریات پوری نہیں کر پا رہا تھا۔‘

’دل کی بیماری سے ہونے والی اموات زیادہ تھیں، جبکہ تشدد اور شراب سے بھی اموات ہو رہی تھیں۔ ایک غیر صحت مند سوویت یونین کی سماجی اور سیاسی وجوہات بھی 70 سال کی بظاہر ناقابل تسخیر کمیونسٹ حکمرانی کے بعد اس کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہیں۔‘

تاہم کمیونسٹ نظام کے خاتمے سے حالات درست نہیں ہو گئے۔ سنہ 1990 کے بعد صحتِ عامّہ کی خراب صورت حال بدتر ہوگئی۔ اس کے سنہ 1991 میں انہدام کے بعد اگلے 10 برسوں میں مختلف اندازوں کے مطابق معمول سے 30 لاکھ سے لے کر 70 لاکھ زیادہ اموات ہوئیں۔

شرحِ نِمو کا جمود

سنہ 1985 سے پہلے تک یعنی گورباچوف کے کمیونسٹ پارٹی کے صدر بننے سے پہلے تک روس میں اقتصادی ترقی میں گذشتہ دو دہائیوں سے ایک جمود چلا آ رہا تھا۔

’دی سٹرگل ٹو سیو دی سوویت اکانومی‘ کے مصنف اور یونیورسٹی آف ٹفٹ کے تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر کرِس ملر کے مطابق سنہ 1965 میں سوویت یونین کی فی کس آمدنی 3000 ڈالر تھی جو سنہ 1985 تک 3500 ڈالر تک پہنچ گئی۔ یعنی 20 برسوں میں صرف 500 ڈالر کا اضافہ ہوا جو ؟؟؟؟؟؟

سنہ 1965 تک امریکہ اور روس دونوں کا دفاعی بجٹ برابر یعنی 60 ارب ڈالر تھا۔ سنہ 1985 تک روس کا دفاعی بجٹ 80 ارب ڈالر ہو گیا جبکہ امریکہ کا 70 ارب ڈالر ہوا (ماہرین عموماً سوویت یونین کے اعداد و شمار کے بارے میں اندازے پیش کرتے ہیں، نہ کہ حقیقی یا مکمل قابلِ بھروسہ جائزے)۔

میڈیسن پراجیکٹ ڈیٹا کے مطابق روس کی مجموعی قومی پیداوار کا حجم سنہ 1965 میں تقریباً 400 ارب ڈالر تھا جبکہ امریکہ کا 743 ارب ڈالر تھا۔ سنہ 1985 میں یہی بالترتیب تقریباً 550 ارب ڈالر اور 4339 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔

سوویت یونین
دوسری عالمی جنگ کے دوران روسی لڑاکا طیارے ایک ایئربیس پر کھڑے ہیں۔ امریکہ اور سوویت یونین نے نازی جرمنی کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا تھا مگر عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد جلد ہی دونوں کے درمیان سرد جنگ شروع ہو گئی

سبسڈیز اور تیل کی قیمت

پورا نظام جدید دور کے تقاضے، چلینجز اور ضروریات پوری کرنے میں ناکام چلا آ رہا تھا۔ ریاست ہر شعبے میں بھاری سبسڈی (مالی اعانت) دے رہی تھی۔ روس کے ایک معاشی امور کے صحافی، سرگئی کرگانوو کہتے ہیں کہ حکومت مجموعی قومی پیداوار کا 40 فیصد مختلف جمہوریاؤں کو دے رہی تھی۔

دفاع میں کل ملا کر 25 فیصد لگ رہا تھا (اس میں سوویت یونین کی اپنے اتحادیوں کو دی جانے والی فوجی امداد بھی شامل تھی)۔ ان حالات میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرنی شروع ہو گئیں۔

چونکہ روس کی معیشت کا تیل کی برآمد پر کافی انحصار ہو گیا تھا، اس لیے تیل کی برآمد سے کم ہوتی آمدن نے برا اثر پیدا کیا۔ معیشت کی دگرگوں حالت میں سوویت کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل لیونیڈ بریزنیف کی وفات کے بعد یوری آندروپوو 15 ماہ جنرل سیکریٹری رہے۔ اُن کی وفات کے بعد 72 برس کے کنسٹانٹِن چرننکو 11 ماہ بعد ہی انتقال کر گئے۔

گورباشیف اور اصلاحات

اس کے بعد کمیونسٹ پارٹی نے 54 برس کے میخائیل گورباشیف کو پارٹی کا سربراہ منتخب کیا جنھوں نے سویت یونین کے جامد نظام میں اصلاحات کے سلسلے کا آغاز کیا جنھیں انھوں نے گلاسنوسٹ (شفافیت) اور پیریسٹروئیکا (تعمیرِ نو) کے نام سے متعارف کروایا، مگر عوام کو ان اصلاحات کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔

سنہ 1985 کے بعد سے جنرل سکریٹری گورباشیف نے سوویت یونین میں گلاسنوسٹ اور پیریسٹروئیکا کے نام سے لبرل پالیسیاں متعارف کروانی شروع کیں۔ ان لبرل پالیسیوں کے نتیجے میں سوویت یونین میں نظام کی مخالفت کرنے والوں کا سیاست کے مرکزی دھارے میں دوبارہ خیرمقدم کیا گیا۔

گورباشیف کی تبدیلی کی اس پالیسی کو اگرچہ سیاسی طور پر پذیرائی ملی لیکن اس تبدیلی کی وجہ سے افراطِ زر میں خوفناک اضافہ دیکھا گیا۔ ڈاکٹر کرس ملر کی تحقیق کے مطابق افراطِ زر سنہ 1985 سے پہلے صفر تھی، پھر یہ 30 فیصد بڑھی، سنہ 1986 میں 38 فیصد، سنہ 1987 میں 65 فیصد ہو کر 1989 میں تقریباً 55 فیصد ہو گئی۔

اس کے ساتھ سوویت یونین کی علاقائی جمہوریاؤں میں آزادی کی تحریکوں نے مزید زور پکڑنا شروع کر دیا۔ مولدووا میں تصادم ہوئے، جارجیا کے علاقے ابخازیا کے مسلمانوں نے بھی خود کو جارجیا سے مختلف نسلی گروہ کہہ کر روسی جمہوریہ کا حصہ بننے کو ترجیح دی۔

گورباشیف نے سنہ 1980 کی دہائی کے اواخر میں یہ کہتے ہوئے کہ میڈیا میں کھلی بحث کے لیے کوئی بھی موضوع محدود نہیں ہے، گلاسنوسٹ کے دائرہ کار کو مزید بڑھانے کا عمل جاری رکھا۔ گورباشیف ان لبرل پالیسیوں کی وجہ سے سیاسی طور پر مقبول ہوئے اور مغربی میڈیا نے انھیں پیار سے ‘گوربی’ کہنا شروع کر دیا۔

مشرقی یورپ میں تبدیلی

اسی عرصے کے دوران سوویت یونین کے حاشیہ بردار مشرقی یورپ میں وارسا معاہدے کے اتحادی ممالک میں بھی تبدیلیوں کا آغاز شروع ہو گیا۔ پولینڈ میں ٹریڈ یونین کی احتجاجی تحریک جلد ہی سوویت یونین مخالف تحریک بن گئی اور پولینڈ سنہ 1988 میں ایک مکمل آزاد ملک بن گیا۔

اس کے بعد ہنگری میں 1989 میں شروع ہونے والی سوشلسٹ مخالف تحریک سنہ 1990 میں کامیاب ہوئی۔ مشرقی جرمنی میں بھی سوویت مخالف اور سوشلسٹ مخالف مظاہرے شروع ہو گئے جو سنہ 1990 میں دیوارِ برلِن کے انہدام اور مشرقی جرمنی میں سوشلسٹ نظام کے خاتمے پر منتج ہوئے۔

دیوار برلن
جرمن شہری دیوارِ برلن گرانے کی کوشش میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، نو نومبر 1989

رومانیہ میں چاؤشسکو کو فوجی بغاوت میں اُن کی بیوی سمیت ایک فوجی فائرنگ سکواڈ نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ بلغاریہ میں قدرے پر امن تبدیلی آ گئی اور رومانیہ جو پہلے سے قدرے ایک لبرل ملک تھا، اس میں بھی سوشلسٹ نظام کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔

چیکوسلاواکیہ میں بھی نسلی تناؤ پیدا ہوا اور اس لہر میں وہاں بھی کمیونسٹ حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ اور پھر بعد میں یہ ملک بھی نسلی بنیادوں پر چیک جمہوریہ اور سلاوک جمہوریہ تقسیم ہوگیا۔

یوگوسلاویہ اُس خطے میں روس کا واحد اتحادی ملک تھا جہاں سنہ 1991 تک سوشلسٹ نظام سے بغاوت نہیں ہوئی تھی۔ تاہم یہی ملک اگلے برس ایک بہت ہی خونی نسلی اور مذہبی جنگ کا شکار ہوا۔

بعد میں یہاں کروشیا، سلووینیا، میسیڈونیا، بوسنیا ہرزیگووینیا، اور وفاقی جمہوریہ یوگو سلاویہ کے ناموں سے نئے مملک ابھرے (یوگو سلاویہ کی توڑ پھوڑ کا یہ سلسلہ مزید کچھ عرصے جاری رہا اور پھر یہاں بھی سربیا اور مونٹینیگرو کے ناموں سے الگ الگ ملک بن گئے)۔

سوویت جمہوریاؤں میں علحیدگی پسند تحریکیں

17 مارچ سنہ 1991 کو سوویت یونین کی تمام جہموریاؤں میں ریفرنڈم ہوا جس میں 76.4 فیصد ووٹرز نے اصلاح شدہ سوویت یونین کو برقرار رکھنے کی حمایت کی۔ ریفرنڈم میں کامیابی ایک لحاظ سے عوام کا گورباشیف کی پالیسیوں پر بھرپور اعتماد کا اظہار تھی۔

لیکن 12 جون سنہ 1991 کو بورس یلسن نے روسی جمہوریہ کے بنائے گئے عہدہِ صدارت کے انتخابات میں 57 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ گورباشیف کے پسندیدہ امیدوار کو شکست ہوئی۔ اپنی انتخابی مہم میں یلسن نے ‘مرکز کی آمریت’ پر تنقید کی۔ یلسِن اپنے سیاسی کریئر کے لیے گورباشیف کو رکاوٹ محسوس کرتے تھے۔

اس دوران مختلف جمہوریاؤں میں علحیدگی کی تحریکیں زور پکڑ رہی تھیں۔ بڑھتی ہوئی علیحدگی پسندی کا سامنا کرتے ہوئے گورباشیف نے سوویت یونین کو ایک کم مرکزیت والی ریاست میں دوبارہ تشکیل دینے کی کوشش کی۔

فوجی بغاوت

20 اگست سنہ 1991 کو روسی جمہوریہ ایک نئی یونین بنانے کے معاہدے پر دستخط کرنے والی تپی جس نے سوویت یونین کو ایک مشترکہ صدر، خارجہ پالیسی اور فوج کی حامل آزاد جمہوریاؤں کی فیڈریشن میں تبدیل کر دینا تھا۔

تاہم زیادہ تر اصلاح پسند تیزی سے اس بات پر قائل ہو چکے تھے کہ آزاد منڈی والی معیشت میں تیزی سے منتقلی کی ضرورت ہے۔

19 اگست سنہ 1991 کو گورباشیف کے نائب صدر گیناڈی یانایف، وزیر اعظم ویلنٹین پاولوف، وزیر دفاع دمتری یازوف، کے جی بی کے سربراہ ولادیمیر کریوچکوف، اور دیگر اعلیٰ حکام نے ‘ہنگامی حالت کی جنرل کمیٹی’ تشکیل دے کر نئی یونین کے معاہدے پر دستخط ہونے سے روک دیا۔

سنہ 1991 میں اگست کی 20 تاریخ کو سوویت یونین کے کمیونزم نظام کے کٹر حامیوں کے گروہ نے نائب صدر کی قیادت میں فوج اور انٹیلیجینس ایجنسی کے سربراہوں کے ساتھ مل کر فوجی بغاوت کردی اور اس کے بعد گورباشیف کو ایک تفریحی مقام پر نظر بند کر کے باہر کی دنیا سے اُن کا رابطہ منقطع کر دیا۔

گورباشیف
میخائل گورباشیف کو اُن کی اصلاح پسند پالیسیوں کی وجہ سے مغرب میں پذیرائی حاصل ہوئی تو اپنے ہی ملک میں اُنھیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا

بغاوت کے خلاف مزاحمت

ان باغیوں نے پریس سمیت کئی شہری آزادیوں پر پابندیاں عائد کر دیں، ماسکو میں فوج طلب کر لی گئی تاہم عوام نے اس بغاوت کے خلاف مزاحمت شروع کر دی۔ روسی جمہوریہ کے صدر یلسن عوام کے ہمراہ سڑکوں پر نکل آئے اور ایک ٹینک پر چڑھ کر اس بغاوت کے خلاف تقریر کی۔

اس موقعے پر سوویت فوج جس نے بغاوت کی تھی وہ ایک سخت کارروائی کر کے مظاہرین کو کچل سکتی تھی لیکن وہاں ایسا نہ ہوا۔ اس بارے میں مختلف خیالات موجود ہیں، مثلاً یہ کہ فوج ماسکو میں ایک بڑا قتلِ عام نہیں کرنا چاہتی تھی، یا یہ کہ بڑی تعداد میں عوام ’وائٹ ہاؤس‘ (روسی پارلیمان) کے ارد گرد جمع ہو گئے تھے۔

تاہم سوویت فوجیوں کے افغانستان میں جنگ کے تجربات پر فوجیوں کی کہانیاں جمع کرنے والی مصنفہ سوِیتلانا الیگزیوِچ اپنی کتاب جس کا انگریزی ترجمہ ’زنکی بوائز‘ کہلاتا ہے، میں کہتی ہیں کہ افغانستان کی جنگ سے واپس آنے والے روسی اور بیلاروسی فوجی جو ’افغانتسی‘ کے نام سے مشہور ہو گئے تھے، باغی فوجیوں کے سامنے رکاوٹ بن گئے تھے۔

 قصہ مختصر تین دن کے بعد یہ بغاوت ناکام ہو گئی۔ باغیوں کو حراست میں لے لیا گیا اور گورباشیف صدر کے طور پر واپس آئے، تاہم اب ان کی سیاسی طاقت کم ہو چکی تھی اور ان کی جگہ بورس یلسن زیادہ طاقتور رہنما بن چکے تھے۔ اُن کی باغیوں کے ایک ٹینک پر چڑھ کر تقریر آج بھی سرکشی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔

ناکام بغاوت کے بعد

بحال ہونے کے بعد 24 اگست سنہ 1991 کو گورباشیف نے سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کو تحلیل کر دیا، پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، خود سوویت یونین کے صدر بن گئے اور حکومت میں موجود تمام پارٹی یونٹوں کو تحلیل کر دیا۔

پانچ دن بعد سپریم سوویت نے سوویت سرزمین پر کمیونسٹ پارٹی کی تمام سرگرمیاں غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دیں، اور ملک کو متحد رکھنے والی واحد باقی ماندہ قوت یعنی کمیونسٹ پارٹی کو تحلیل کر دیا۔ سوویت یونین سنہ 1991 کے آخری حصے میں بہت تیزی سے اپنے انجام کی جانب بڑھنا شروع ہو گئی۔

علیحدگی پسندی

اس ناکام فوجی بغاوت کا ایک تو یہ نتیجہ نکلا کہ سیاسی اور انتظامی طور پر گورباچوف کمزور ہوگئے، اور یلسن ایک طاقتور روسی رہنما کے طور پر ابھرے، اس کے علاوہ دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ سویت یونین کی جمہوریاؤں میں اب فوجی مداخلت کا خوف قطعی طور پر ختم ہو گیا اور اکثر نے اپنی علحیدگی کا اعلان کرنا شروع کر دیا۔

اگرچہ سوویت یونین کی 50 فیصد آبادی روسی جمہوریہ سے تعلق رکھتی تھی اور عملاً روس باقی تمام جمہوریاؤں پر حاوی تھی، لیکن اس جمہوریہ میں بھی خود مختاری کی تحریک نے زور پکڑا اور ایک ریفرنڈم کے ذریعے روسی رہنما بورس یلسن روسی جمہوریہ کے صدر بن گئے۔ یلسن کمیونزم کے بہت خلاف تھے۔

انہی حالات میں آرمینیا اور آذربائیجان کا پہلے تو نسلی بنیاد پر جھگڑا ہوا پھر ان جمہوریاؤں میں سویت یونین سے علحیدگی کی تحریکوں نے زور پکڑا۔ تاجکستان، کرغزستان، ازبکستان، قازقستان، بیلاروس، ترکمانستان اور جارجیا سب سے پہلے علیحدہ ہوئیں اور پھر لیٹویا، مولڈووا، اور یوکرین بھی آزاد ہو گئیں۔

سوویت یونین کے انہدام کے بعد روس ایک بنیادی تبدیلی سے گزرا اور مرکزی منصوبے کے تحت چلنے والی معیشت سے عالمی سطح پر مربوط مارکیٹ کی معیشت کی طرف بڑھ گیا۔ بدعنوان اور بے ترتیب نجکاری کے عمل نے بڑی سرکاری فرموں کو سیاسی طور پر منسلک ‘اولیگارک’ (چند امراء کے گروہ) کے حوالے کر دیا جس کی وجہ سے دولت چند لوگوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہوئی۔

سوویت یونین
نومبر 1990 میں روس کے شہری ماسکو کے ایک سٹور کے باہر خوراک کے حصول کے لیے قطار میں کھڑے ہیں

سب کچھ غیر متوقع تھا

جب مارچ سنہ 1985 میں میخائیل گورباشیف کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری بنے تو ان کے ہم عصروں میں سے کسی کو بھی ایسے انقلابی بحران کی توقع نہیں تھی جو سوویت یونین کے انہدام پر منتج ہوتا۔ اگرچہ سوویت نظام کے مسائل کی جسامت اور گہرائی پر اختلافات تھے، لیکن کسی نے بھی انہیں تباہ کن نہیں سمجھا تھا۔

ایسی دور اندیشی کا فقدان کیوں تھا؟ مغربی ماہرین کی سوویت یونین کے انہدام کا اندازہ لگانے میں ناکامی کو جزوی طور پر ایک طرح کی تاریخی نظرثانی کی وجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسے ’اینٹی کمیونزم‘ یا کمیونزم کی مخالفت کہا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے مغربی تجزیہ کار سوویت حکومت کے استحکام کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے۔

پھر بھی دوسرے لوگ جو کمیونزم کے بارے میں نرم رویہ نہیں رکھتے، وہ بھی اس کے انہدام سے اتنے ہی پریشان تھے جتنا کہ اس کے حامی ہو سکتے تھے۔ روس کے معروف امریکی تاریخ دان اور امریکی صدر رونالڈ ریگن کے مشیر رچرڈ پائپس نے اس انقلاب کو یکسر ’غیر متوقع‘ قرار دیا۔

سرد جنگ میں امریکی حکمت عملی بنانے والوں میں سے ایک، جارج کینن نے سویت یونین کے انہدام کے بارے میں لکھا ہے کہ ’جدید دور میں بین الاقوامی معاملات کی پوری تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے کسی بھی واقعے کے بارے میں سوچنا زیادہ عجیب اور چونکا دینے والا ہے، اور پہلی نظر میں ناقابلِ فہم، اس عظیم طاقت کی اچانک اور مکمل ٹوٹ پھوٹ اور گمشدگی کے مقابلے میں… جس کو پہلے روسی سلطنت اور پھر سوویت یونین کے نام سے جانا جاتا ہے۔‘

آج کی روسی نسل

روس میں اب سوویت یونین کے انہدام کو روسی تاریخ کا ایک برا واقعہ سمجھا جا رہا ہے۔ گورباشیف کی سوانح عمری لکھنے والے بوسٹن میں ایمہرسٹ کالج کے پروفیسر ولیم ٹاب مین نے چند برس پہلے جب ماسکو کا دورہ کیا تو انھوں نے دیکھا تھا کہ روسی گورباشیف سے عموماً نفرت کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کو 20 ویں صدی کی ’سب سے بڑی جغرافیائی سیاسی تباہی‘ قرار دیا تھا۔ پوتن نے سنہ 2005 کی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ’ہمارے لاکھوں ساتھی شہریوں اور ہم وطنوں نے خود کو روسی سرزمین سے باہر قرار پایا۔‘

اگرچہ تمام روسی ضروری طور پر پوتِن کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں تاہم روس اور وسطی و مشرقی یورپ کے 17 دیگر ممالک کے سنہ 2015 اور سنہ 2016 کے پیو ریسرچ کے سروے کے مطابق شاید تمام روسی پوتن سے متفق نہ ہوں، لیکن زیادہ تر لوگ سنہ 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کو ایک ’بُرا واقعہ‘ سمجھتے ہیں۔

افغانستان میں فوجی مداخلت

افغانستان میں سوویت فوجوں کی مداخلت کے بعد جنگ تیزی سے تعطل میں بدل گئی اور 10 سال تک جاری رہی۔ ایک لاکھ سے زیادہ سوویت فوجیوں نے بڑے شہری علاقوں اور قصبوں پر قبضہ کر لیا اور ان مجاہدین کو کچلنے کی کوشش کی جنھوں نے گوریلا جنگ کی حکمت عملی اختیار کی۔

افغانستان کے وسیع پہاڑی دیہی علاقوں میں پناہ لیے ہوئے افغان مجاہدین جنھیں اس وقت کے امریکی صدر رونلڈ ریگن نے حریت پسند قرار دیا، بڑی حد تک سوویت حملوں سے بچے رہے۔ امریکہ نے باغیوں کو مجاہد کہا اور پاکستان کے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ضیا الحق سے مل کر افغان ’جہاد‘ کی سرپرستی کی۔

جب سوویت افواج اپنی فضائی طاقت کے ذریعے افغان مجاہدین کو کچلنے کے قریب تھیں تو امریکہ نے افغان جنگجوؤں کو بھاری فوجی اسلحے کے علاوہ جدید میزائل یہاں تک کہ طیارہ شکن میزائل بھی فراہم کیے تاکہ مجاہدین کے مراکز اور پناہ گاہیں سمجھے جانے والے دیہی علاقوں پر سوویت طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی بمباری کو روکا جا سکے۔

سوویت یونین
امریکہ کے صدر رونلڈ ریگن افغان مزاحمتی قیادت کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں، دو فروری 1984

مداخلت کے سویت یونین پر اثرات

اس جنگ نے سوویت یونین کی پہلے سے ہی زوال پذیر معیشت کو مزید کمزور کردیا اور عالمی سطح پر سوویت فوج اور حکومت دونوں کی شہرت اور ساکھ کو داغدار کیا۔ تخفیفِ اسلحہ کے دوسرے بڑے معاہدے SALT-II سے امریکہ دستبردار ہو چکا تھا، اس کے علاوہ، اقوام متحدہ نے جنگ کی مذمت ک، اور کئی ممالک نے حملے کے جواب میں ماسکو میں 1980 کے اولمپکس کا بائیکاٹ بھی کیا۔

تاہم جب میخائل گورباشیف سنہ 1985 میں سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری بنے تو اُنھوں نے سوویت یونین کی سنگین معاشی اور سیاسی صورتحال کو تسلیم کیا اور معیشت میں اصلاحات لانے اور حکومت کو جدید بنانے کا عزم کیا، جس کی وجہ سے افغانستان سے فوجی انخلا کی کوششیں تیز کی گئیں۔

انھوں نے جنگ کے خاتمے اور فروری سنہ 1989 تک افغانستان سے تمام سوویت فوجیوں کو نکالنے کے لیے ایک امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ سوویت-افغان جنگ کے خاتمے تک ملک کا سیاسی اور اقتصادی ڈھانچہ اصلاحات کی زد میں آ کر کافی حد تک تباہ ہو گیا تھا۔ اس جنگ کے سبب سوویت یونین کو اربوں روبلز کا خسارہ پہنچ رہا تھا۔

افغانستان میں تو لاکھوں افراد ہلاک ہوئے جبکہ سوویت فوجیوں کی ہلاکتیں سرکاری طور پر 15 ہزار بیان کی جاتی ہیں اور اس سے دوگنی تعداد میں زخمیوں کی تعداد تھی، لیکن افغانستان کی فوجی مداخلت کی وجہ سے پیدا ہونے والے اقتصادی دباؤ کی وجہ سے سویت یونین کے اندر کا نسلی، سیاسی اور اقتصادی خلفشار گہرا ہوتا گیا۔

افغانستان اور سوویت یونین کا انہدام

امریکی انٹیلیجنس ادارے سی آئی اے کے اندازے کے مطابق جب سوویت یونین نے افغانستان میں فوجی مداخلت کی تھی تو اس کے اخراجات پانچ ارب ڈالر کے قریب تھے، لیکن سنہ 1986 تک یہ آٹھ ارب سالانہ سے زیادہ بڑھ چکے تھے۔ اس طرح ان چھ برسوں میں سوویت یونین اس مداخلت پر 48 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کر چکا تھا۔

یونیورسٹی آف واشنگٹن کے دو اساتذہ، رافیل ریوینی اور اسیم پرکاش کی سنہ 1999 کی ایک مشترکہ تحقیق میں کھل کر دعویٰ کیا گیا کہ عموماً سوویت یونین کے ٹوٹنے کی وجوہات میں تعلقات، عالمی طاقتوں کی مسابقت، سوویت سیاست اور اقتصادی صورت حال کو بیان کیا گیا ہے جس کی وجہ سے افغانستان میں مداخلت کے سبب کو نظر انداز کیا گیا۔

گورباشیف کی اصلاح پسند قیادت اور سوویت یونین کے نظام کے نقائص کو اس کے ٹوٹنے میں کلیدی کردار قرار دینے کی یہ وضاحتیں افغانستان میں سوویت فوجوں کی مداخلت اور جنگ کی کلیدی حیثیت پر کم ہی توجہ دیتی ہیں۔ ’یہ حیران کُن ہے کیونکہ بہت سے سکالرز جنگوں کو سلطنت کے ٹوٹنے کے اہم عوامل کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘

سوویت یونین
25 دسمبر 1991 کو سوویت یونین کے صدر کے طور پر اپنا استعفیٰ دینے سے قبل میخائل گورباشیف وقت دیکھ رہے ہیں

دونوں محققین دعویٰ کہتے ہیں کہ ’افغانستان میں جنگ سوویت یونین کے ٹوٹنے کی ایک بنیادی وجہ تھی، اگرچہ یہ واحد نہیں تھی۔‘ ان کے مطابق اس جنگ نے سوویت سیاست کو چار طریقوں سے اس طرح متاثر کیا کہ اُس کے ٹوٹنے کے عمل میں تیزی آئی۔

  • اس کی ساکھ پر اثرات: اس جنگ نے سوویت یونین کی ساکھ کے بارے میں، یعنی سوویت یونین کو متحد رکھنے اور بیرونی ممالک میں مداخلت کے لیے فوج کے استعمال کی افادیت، کے سلسلے میں میں اس کے اتحادی ممالک کے حکمرانوں اور رہنماؤں کے خیالات کو بدل دیا۔
  • فوجی اثرات: اس نے ریڈ آرمی کو بدنام کیا، پارٹی اور فوج کے درمیان دراڑ پیدا کی۔ اور یہ تاثر مضبوط کیا کہ سوویت فوج ناقابلِ تسخیر نہیں ہے، جس نے دیگر سوویت جمہوریاؤں میں آزادی کی تحریکوں کی حوصلہ افزائی ہے۔
  • قانونی اثرات: اس نے غیر روسی قوموں کو یہ قانونی جواز فراہم کیا کہ سوویت یونین نے افغانستان میں جنگ روس کے مفادات کے لیے غیر روسی فوجیوں کے ذریعے لڑی، اس لیے وہ اب روس کے آلہِ کار نہیں رہنا چاہیں گے بلکہ روس سے آزادی مانگیں گے۔ اور
  • شرکت کے اثرات: اس جنگ کی وجہ سے سویت یونین میں سیاسی شراکت کی نئی شکلیں وجود میں آئیں۔ گلاسنوسٹ کے اعلان کے آغاز سے ہی پریس/میڈیا کے کردار میں تبدیلی آنی شروع ہو گئی تھی، اور اس آزادی کی وجہ سے افغان جنگ میں شرکت کرنے والے سابق فوجیوں کی تنظیمیں (افغانتسی) بننا شروع ہو گئی تھیں جو کمیونسٹ پارٹی کی سیاسی بالادستی کو کمزور کر رہی ہیں۔

سوویت یونین ایک کثیرالقومی ملک تھا۔ آئینی طور پر یہ آزاد ریاستوں کی یونین تھی جس میں روسی جمہوریہ سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد ملک کی آبادی کا 50 فیصد تھی جبکہ دیگر جمہوریاؤں کی کل ملا کر 50 فیصد آبادی تھی۔ مرکزی حکومت پر ہمیشہ روسیوں کا تسلط رہا تھا۔

لیکن کمزور معیشت، سیاسی اصلاحات، آزاد پریس، کمیونسٹ پارٹی کے اختیارات میں کمی اور مغربی طرز کی جمہوری اصلاحات کی وجہ سے اب مرکز مخالف مزاحمتی تحریکیں سوویت یونین سے علحیدگی کی تحریکوں میں بدلتی گئیں، کیونکہ اب کسی کو مرکز کی فوج کا خوف نہیں تھا۔

تاہم سویت یونین کے آخری دنوں کے حالات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے 8 دمسبر کے اگلے روز لکھا کہ ‘اگست کی بغاوت کے بعد سے، سوویت یونین جو ایک طویل عرصے سے اپنی موت آپ مر رہی تھی، اس کے اذیت کے آخری مہینے بحران اور گفت و شنید پر پھیلے ہوئے تھے، جِسے صرف ایک شخص میخائل گورباشیف زندہ رکھے ہوئے تھا، آج اُس یونین کی موت ہوگئی – مستقبل کے مؤرختن مریض کے اپنے دستخط شدہ موت کے وارنٹ کو بطور ثبوت قبول کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ بی بی سی اُردو

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply