یہودی سازشیں اور کینسر کا علاج۔۔حسن رضا چنگیزی/ آخری قسط

سازشی تھیوری سے متعلق ہمارے ہاں بھی مختلف قسم کے تصورات پائے جاتے ہیں۔  بنیادی تصور تو وہی ہے جو مغربی دانشوروں کا قائم کردہ ہے۔ ہمارا کمال بس اتنا ہے کہ ہم نے اس تصور سے مسیحیت کا لفظ نکال کر اس کے بدلے اسلام  اور پاکستان کے الفاظ اور کچھ دیگر مقامی تصورات کا اضافہ کر دیا ہے۔ جسے ہم اس بین الاقوامی سازشی تھیوری کا ایک لوکل ورژن کہہ سکتے ہیں۔ مثلاً ہمارے ہاں یہ تصور عام ہے کہ  چونکہ  دنیا میں اسلام  بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اس لئے یہودی دنیا بھر میں سازشیں کر رہے ہیں تاکہ اسلام کو پھلنے پھولنے سے روک سکیں۔  ہمارا یہ بھی خیال ہے کہ چونکہ پاکستان دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے اور پاکستانی فوج دینا کی بہترین فوجوں میں سے ایک ہے۔ اس لئے ہمارے تمام دشمن خصوصاً یہود و ہنود ہم سے خائف ہیں اور  مل کر ہمارے خلاف سازشیں کر رہے ہیں  تاکہ ہمیں  کمزور کر کے پاکستان کے ٹکڑے کرسکیں۔

ہمیں اس بات کا بھی یقین ہے کہ یہودی بل گیٹس ہمارے بچوں کو پولیو کے قطرے اس لئے پلا رہا ہے تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کو نامرد بنا کر ہماری آبادی کم کر سکے۔ ہمارا خیال ہے کہ کینسر کوئی مرض نہیں بلکہ یہ وٹامن ڈی کی کمی کا نام ہے اور روزانہ خوبانی  کے پندرہ یا بیس بیج کھا کر اس کا سستا اور فوری علاج کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ بات  یہودی کمپنیاں ہمیں  اس لئے نہیں بتاتیں کہ کینسر کے نام پر ادویات بیچ کر وہ ہم سے سالانہ اربوں ڈالر بٹورتی  ہیں۔  ہم سمجھتے ہیں کہ صدام حسین اور کرنل قذافی اب بھی زندہ ہیں اور ایک امریکی جزیرے پر  پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں۔ ایبٹ آباد  پر حملہ ایک ڈراما تھا جس کا مقصد پاکستان پر دباؤ ڈالنا تھا جبکہ اسامہ بن لادن اس واقعے سے کئی برس قبل وفات پا چکے تھے۔ اسٹیفن ہاکنگ کے ملحدانہ نظریات کا مقصد  سائنس کے نام پر دنیا میں الحاد کا پھیلاؤ تھا۔ دوسرے سیاروں پر ایلینز کی موجودگی کا شوشہ صرف اس لئے چھوڑا گیا ہے تاکہ اسلام کی تعلیمات کو جھٹلایا جاسکے۔ اڑن طشتریاں دراصل جدید امریکی جہاز ہیں جو مسلمانوں کے خلاف بمباری میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ نیل آرم سٹرانگ نے چاند پر اذان کی آواز سنی تھی۔  مائیکل جیکسن مسلمان ہونے والے تھے اس لئے انہیں پراسرار طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ سونامی  کوئی قدرتی آفت نہیں بلکہ امریکہ ایک خفیہ ٹیکنالوجی کی مدد سے جہاں چاہے سونامی پیدا کر دیتا ہے۔ ایلومیناٹی دراصل دجال کے پیروکاروں کی تنظیم ہے جس کا مقصد اسلام کا خاتمہ کر کے زمین پر دجالی نظام قائم کرنا ہے اور پیرامڈ کے اوپر بنی آنکھ دجال کی اکلوتی آنکھ کی شبیہ ہے۔

یہ تو تھے وہ تصورات جو سازشی تھیوری سے متعلق بین الاقوامی اور مقامی سطح پر  وجود رکھتے ہیں۔ اب آتے ہیں اس اہم ترین سوال کی طرف کہ ان سازشی نظریات میں کس حد تک حقیقت ہے اور کتنا مبالغہ؟  میرے خیال میں جتنی پراسراریت سازشی تھیوری اور ایلومیناٹی یا فری میسن سے متعلق داستانوں میں ہے اتنی ہی مشکل اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں بھی ہے۔ اس کے باوجود نہ تو اس تھیوری سے مکمل انکار کیا جا سکتا ہے نہ ہی اس پر آنکھ بند کر کے اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر ہم تھوڑا سا ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو ہمیں کئی ایسے واقعات نظر آئیں گے جن کا اگر گہری نظر سے جائزہ لیں تو شاید ہم اس تھیوری کے بارے میں بہتر اندازے لگا سکیں۔  یہ وہ بڑے واقعات ہیں جو ہماری معلوم تاریخ کا حصہ ہیں لیکن ایک عرصہ گزرنے کے باوجود نہ صرف آج بھی اسرار کے پردوں میں محفوظ ہیں بلکہ  ان میں کئی واقعات تو ایسے بھی ہیں جو ہماری نظروں کے سامنے وقوع پزیر ہوئے ہیں ۔ مثلاً اس بات سے ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بھرے مجمعے میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ لیکن آج تک یہ واقعہ اسرار کے  پردوں میں لپٹا ہوا ہے اور کسی نے اس قتل کے محرکات جاننے کی کوشش نہیں کی۔ اسی طرح جنرل ضیاء الحق  کے طیارے کا حادثہ جس میں ان کے علاوہ کئی اعلیٰ فوجی عہدیداروں اور امریکی سفیر  آرنلڈ رافیل ہلاک ہوگئے تھے، تیس سال گزرنے کے باوجود آج بھی پراسراریت کی گرد تلے دبا ہوا ہے۔ حتٰی کہ ضیاء کو اپنا روحانی باپ کہنے والے اور ضیاء کی انگلی پکڑ کر سیاست کی پرخار وادی میں اترنے والے نواز شریف کو بھی کبھی اس بات کی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس معاملے کی جانچ کرتے۔ بے نظیر بھٹو کو مجمع عام میں قتل کرنے کا واقعہ تو ابھی کل ہی کی بات ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کے حکومت میں آنے اور آصف زدراری کے صدر بننے کے باوجود اس پراسرار قتل کی گتھی نہیں سلجھائی جاسکی۔

1970 کی دہائی کے آخری اٹھارہ  مہینوں کے اندر پاکستان ، ایران اور افغانستان میں بالترتیب حکومتوں کا تختہ الٹ دیا گیا اور خطے میں خونریز جنگوں  کی بنیاد پڑی جس میں لاکھوں لوگ قتل ہوئے اور لاکھوں بے گھر ہونے والوں نے دیگر ممالک میں پناہ ڈھونڈ لی۔ ہم ایک عرصے تک اس خونریزی کو کافروں کے خلاف جہاد سمجھتے رہے کیونکہ ہمیں یہی باور کرایا گیا تھا۔ لیکن جب 25 سال بعد ہیلری کلنٹن نے بتایا کہ وہ جہاد دراصل ایک امریکی ایجنڈا تھا جس کا مقصد سوویت یونین کی پیش قدمی کو روکنا تھا تب ہم جان گئے کہ اس منصوبہ بندی کے پیچھے امریکیوں کا شاطر  دماغ کار فرما تھا۔ یہ ایک المیہ ہی ہے کہ سوویت یونین کب کا ٹوٹ چکا اور امریکی جہاد کا بھانڈا بھی کب کا پھوٹ چکا لیکن جہاد اب بھی جاری ہے اور افغانستان اور پاکستان کی سرزمین اب بھی عام لوگوں کے خون سے رنگین کی جا رہی ہے۔ اسی طرح پہلے پہل ہم جنرل ضیاء کے فوجی کودتا اور آیت اللہ خمینی کے اسلامی انقلاب کو بھی ایک داخلی معاملہ سمجھتے رہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ واقعات بھی امریکی سوچ اور منصوبہ بندی کا ہی نتیجہ تھے تاکہ خطے میں سوویت یونین کے بڑھتے اثرورسوخ کے سامنے بند باندھا جا سکے۔ 1980 سے 1988 تک جاری رہنے والی آٹھ سالہ ایران عراق  جنگ کی داستان بھی بہت زیادہ پرانی نہیں جس میں لاکھوں مسلمان آپس میں لڑ کر قتل ہو گئے۔ 1990 میں کویت  پر عراقی حملےکی بھی آج تک کوئی معقول وجہ سامنے نہیں آسکی جس نے امریکہ کی سربراہی میں اتحادی افواج کو خطے میں قدم جمانے کے مواقع فراہم کئے۔

2003  میں عراق پر اتحادی افواج کے حملے کو بھی محض پندرہ سال گزر چکے ہیں جس کے لئے یہ جواز  پیش کیا گیا تھا کہ صدام کے پاس وسیع تباہی والے ہتھیار ہیں۔ لیکن  2011 میں جب امریکی اور اتحادی فوجیں عراق سے نکلنے لگیں تو انہوں نے اس بات کا اعتراف کرلیا کہ ہمیں عراق میں  وسیع تباہی والے ہتھیار نہیں ملے۔ مگر تب تک عراق کا سارا منظر نامہ تبدیل ہو چکا تھا اور پندرہ لاکھ سے زیادہ عراقی اتحادی افواج  کے ہاتھوں یا آپس میں لڑ کر ہلاک ہو چکے تھے جبکہ لاکھوں لوگ مغربی ملکوں میں پناہ حاصل کرنے کے لئے در بدر ہو چکے تھے۔

2011 میں یمن سے اٹھنے والی عرب بہار اور لیبیا کے صدر معمر قذافی کے قتل کے  واقعات بھی ماضی قریب کی مثالیں ہیں جبکہ شام میں جاری خانہ جنگی جس میں اب تک پندرہ لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور لاکھوں لوگ بے سروسامانی کی حالت میں مغربی ملکوں کے دروازوں پر دستک دے  رہے ہیں، ابھی ماضی کا قصہ نہیں بنی اور روز وہاں سے قتل عام کی خبریں آتی ہیں۔  پراسرار تنظیم داعش کے ظہور کو بھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جس نے نہ صرف شام میں موجود سینکڑوں سال پرانے مقدس تاریخی مقامات کے نام و نشان تک مٹا دیئے بلکہ اسلام کے نام پر قتل و غارت کی ایسی داستان رقم کی جس نے  دہشت و بربریت کے سارے  پرانے ریکارڈ  توڑ دیئے۔ عجیب اتفاق ہے کہ مشہور یہودی ربی اور مبلغ مانس فرائیڈمین (Manis Friedman) نے چند سال قبل اپنے ایک فتویٰ میں کہا تھا کہ “جنگ کو اخلاقی طور پر جیتنے کا واحد طریقہ یہودی طریقہ ہے۔ ان کے مقدس مقامات کو تباہ کر دو۔  مرد، عورتوں اور بچوں کو قتل کر دو۔ اور مویشی بھی”۔ ابو بکر البغدادی کی شخصیت بھی  سات پردوں میں چھپی ہوئی ہے  جسے ہمارے ہاں کچھ “دانشوروں” نے امام مہدی ثابت کرنے کے لئے قرآن اور احادیث  تک سے حوالے دیئے؟ اور یہ جو پچھلے کچھ مہینوں سے سعودی عرب میں سیاسی، معاشی اور معاشرتی اصلاحات کا حیران کن سلسلہ شروع ہوا ہے  جس کے نتیجے میں وہاں کسینوز اور کلبز بن رہے ہیں، سینیما کھل رہے ہیں، خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت مل رہی ہے، ویلنٹائن ڈے سے متعلق “مثبت اور خوشگوار” بیانات آ رہے ہیں، عورتوں کے لباس سے متعلق احکامات نرم کئے جا رہے ہیں، اسرائیل سے اعلانیہ تعلقات بڑھائے جا رہے ہیں اور سب سے اہم بات کہ شہزادہ محمد بن سلمان اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں  کہ “اسی کی دہائی میں سعودی عرب نے وہابیت کو فروغ دینے کی خاطر مختلف ممالک میں مساجد اور مدارس کی فنڈنگ اپنے مغربی اتحادیوں کے کہنے پر کی تاکہ سوویت یونین کا راستہ روکا جاسکے”    کیا محض ایک نوجوان شہزادے کے ذہن کی اختراع ہیں!؟ اور کیا امریکی سٹی بینک سے وابستہ ایک گمنام شخص شوکت عزیز کا پاکستان کا وزیر اعظم بننا اور ورلڈ بینک کے  ایک گمنام ملازم اشرف غنی کا افغانستان کا صدر منتخب ہونا محض اتفاق کی بات ہے؟

ان مثالوں سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کی تقدیر کا فیصلہ ترقی یافتہ اور طاقتور ممالک اور قوتیں کرتی ہیں۔ لیکن کیا ان طاقتور ملکوں اور طاقتوں کی باگ ڈور واقعاً ایلومیناٹی جیسی کسی خفیہ اور پراسرار تنظیم کے ہاتھوں میں ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا صحیح جواب شاید ہی کبھی ملے۔ لیکن ایک بات جو وثوق سے کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے  کہ ہماری تقدیر ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہرگز نہیں۔ ہم بین الاقوامی ایجنڈوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے مکمل ہوتا ہوا دیکھتے ہیں لیکن ہم میں اتنی صلاحیت نہیں کہ ہم ان  کی راہ میں روڑے اٹکا سکیں۔ کیونکہ نہ تو ہم تعلیم میں مغربی اقوام کا مقابلہ کر سکتے ہیں نہ ہی ٹیکنالوجی میں۔ نہ تو ہم میں اتنی صلاحیت ہے کہ ہم اپنی طرف بڑھتے ہوئے طوفانوں کا رخ موڑسکیں نہ ہی اتنی بصیرت کہ شاطروں کے کھیل میں اپنے آپ کو مہرہ بننے سے روک سکیں۔ ہم صرف بڑھکیں مار سکتے ہیں۔ اس لئے بہتر یہی ہو گا کہ ہم کینسر کا خوبانی کے بیجوں سے علاج کرتے رہیں، سبزیوں اور پھلوں  پر مقدس ہستیوں کے نام تلاش کریں اوراس وقت تک “انتظار”  کریں جب  تک خدا ہمارے لئے آسمان سے کوئی نجات دہندہ نہیں بھیجتا۔

یہودی سازشیں اور کینسر کا علاج۔۔۔۔حسن رضا چنگیزی/قسط  1

یہودی سازشیں اور کینسر کا علاج۔۔۔۔حسن رضا چنگیزی/قسط 2

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

حسن رضا چنگیزی
بلوچستان سے تعلق رکھنے والا ایک بلاگر جنہیں سیاسی اور سماجی موضوعات سے متعلق لکھنے میں دلچسپی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply