افغانستان کو ساختی چیلنجوں کا سامنا/قادر خان یوسف زئی

افغانستان کو بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے، مالیاتی بحران کو دور کرنے کے لیے امریکہ اور افغان طالبان حکام گزشتہ چند ماہ سے مذاکرات کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح افغانستان کے معاشی بحران کو حل کرنے کے لیے منجمد فنڈز تک رسائی دی جائے۔ دونوں فریقین نے فنڈز کے استعمال کی نگرانی کے لئے متبادل نظام کو قائم کرنے پر اصولی طور پر اتفاق تو کیا لیکن بنیادی اختلافات کو حل نہیں کرسکے۔افغان طالبان نے جب سے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا ہے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے لڑنے والی کوئی سابقہ حکومتی فورسز موجود نہیں جس کی وجہ سے پُر تشدد واقعات کی تعداد میں بہت کمی آئی اور امن و امان کی بہتری پر اب بھی کافی تحفظات موجود ہیں کیونکہ دہشت گرد انہ حملے رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں شمالی افغانستان کے صوبہ سر سول کے کوئلے کی پیداوار کرنے والے علاقے میں بھی حالیہ مہینوں میں کوئلے کی تجارت سے حاصل ہونے والی آمدنی کی تقسیم پر اختلافات سامنے آئے۔مقامی مفادات اور نسلی تقسیم کے مابین متضاد عوامل کی واضح تفریق پیدا ہوئی کیونکہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) نے جون کے آخر میں صنعتوں کو نشانہ بنانے، جبری نقل مکانی اور تباہی کے بارے میں عوامی طور پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

افغانستان کی معاشی ترقی کا زیادہ تر انحصار بیرونی امداد پر تھا۔ بیسویں صدی کے پچاس ساٹھ کی دہائی میں افغانستان کے سرکاری بجٹ کا تقریباً آدھا حصہ امریکہ اور سوویت امداد سے آتا تھا۔ 2001ء سے افغانستان کی تعمیر نو کا انحصار بنیادی طور پر بین الاقو امی برادری بالخصوص مغربی ممالک کی مدد پر رہا۔ آج افغان طالبان کی آمدنی بنیادی طور پر بیرونی عطیات، منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ، غیر ملکی تجارت، ٹیکس وصولی وغیرہ سے ہوتی ہے۔ افغان طالبان کو اقتدار میں آنے کے بعد خانہ جنگی سے زیادہ سنگین مسئلہ معاشی صورتحال کی بد ترین سنگین چیلنجز سے پڑا۔ سب سے پہلے، مغرب، خاص طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ کی طرف سے اربوں ڈالر کی امداد میں کٹوتی ہوئی۔

افغان طالبان اگر انتہا پسند گروہوں کے ساتھ تعلقات مکمل طور پر منقطع کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو ان کے لئے مزید مشکلات پیدا ہوں گی اور یہ امر خارج از امکان نہیں کہ ایک بار پھر ملک دہشت گرد تنظیموں کا اڈہ بن جائے۔ در حقیقت داخلی سلامتی کی صورتحال کے مسائل کے علاوہ افغانستان آہستہ آہستہ انتہا پسند تنظیموں کا گڑھ بن چکا ہے اور ہمسایہ ممالک کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ بالخصوص پاکستان، جو افغانستان میں قیام امن کے لئے مرکزی کردار اور اہمیت کا حامل رہا ہے، افغان سرزمین پر موجود انتہا پسندوں اور کالعدم تنظیموں کی وجہ سے سنگین مسائل کا مقابلہ کر رہا ہے۔ بنیادی طور پر اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستانی طالبان (کالعدم ٹی ٹی پی) پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کو انجام دینے کے لیے بھارت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے افغانستان کو ایک بڑے حصے کو پاکستان مخالف سرگرمیوں کے طور پر استعمال کیا اور پاکستان میں حملے جاری رکھے۔ 2021 میں جب طالبان نے آہستہ آہستہ پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا تو پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گرد حملوں کی تعداد میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 84 فیصد اضافہ ہوا۔ افغانستان کے ساتھ سرحد پر انسداد دہشت گردی کی رپورٹس کے مطابق کہ کالعدم ٹی پی پی نے افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستانی قانون نافذ کرنے والے افسران اور اہلکاروں پر حملوں میں اضافہ ہوا۔

ایک ایسے وقت میں جب افغان طالبان ایک عام قومی حکومت بننے سے کوسوں دور دکھائی دیتے ہیں، اگرچہ چین، روس، سعودی عرب اور ایران سمیت تقریباً دس ممالک نے ان کی طرف سے مقرر کردہ سفارتی ایلچیوں کو قبول کر لیا ہے، لیکن افغان طالبان حکومت کو ابھی تک کسی بھی ملک نے قانونی حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ اگرچہ چین اور امریکہ سمیت دیگر ممالک افغانستان کو انسانی امداد کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہیں، اور بین الاقو امی برادری افغان طالبان کے ساتھ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن دنیا اب بھی عام طور پر افغان طالبان کے بارے میں انتظار کرو اور دیکھو کا رویہ رکھتی ہے۔لیکن طالبان کی داخلی پالیسی کی سمت دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ آخر کار بیرونی دنیا انتظار کرو اور دیکھو کو مایوسی میں بدل دے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ افغانستان میں مختلف انتہا پسند تنظیمیں اپنے مخصوص مفادات کے تابع ہیں اور، لوگوں کو   فکر مند ہونا پڑے گا کہ افغانستان انقلابات برآمد کرنے کا اڈہ بن جائے گا ایک انسانی بحران، ملک میں عدم استحکام اور بڑے پیمانے پر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ بین الاقو امی برادری کی گمنامی میں ایسا لگتا ہے کہ افغانستان ایک ٹائم بم بن گیا ہے جو دنیا کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دینے کا انتظار کر رہا ہے افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی نے 20 سال قبل افغانستان کی تعمیر نو کے سیاسی منظر نامے کو ختم کر دیا تھا اور وسطی اور جنوبی ایشیا اور یہاں تک کہ مشرق وسطی میں جیو پولیٹیکل ماحول کو بھی بہت متاثر کیا تھا۔ اس سے افغانستان میں امریکہ کی ”جمہوری تبدیلی” کی حتمی ناکامی ہوئی۔ دیہی اور قبائلی معاشروں کی بنیاد پر مذہبی اور قوم پرست تحریک کے ذریعے افغان طالبان دوبارہ ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ اس سے افغان سیاست کے گہرے ڈھانچے اور پہیلی کی عکاسی ہوتی ہے، یعنی ملک کے قبائلی، نسلی اور فرقہ وارانہ ڈھانچے ایک منفرد سیاسی ثقافت کو پروان چڑھاتے ہیں۔ برسوں سے جاری تنازعات نے سماجی تقسیم اور اختلافات اور یہاں تک کہ تضادات اور عداوت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ سیاسی استحکام تبھی حاصل کیا جا سکتا ہے جب مقامی سیاسی روایات کی بنیاد پر ان مسائل کا فعال طور پر مقابلہ کیا جائے۔ افغان البان نے بغیر کسی خون ریزی کے ا اقتدار تو حاصل کرلیا، لیکن انہیں اب بھی سنگین اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ داخلی طور پر، افغانستان کو ساختی چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا، جیسے بین النسلی تعلقات، مذہب اور سیکولرازم، سماجی مفاہمت، شہری اور قبائلی، غیر مرکزیت اور مرکزیت، اور اقتصادی ترقی، جو گزشتہ 40 سالوں کے تنازع کے دوران افغانستان میں موجود ہیں۔ بہت سے چیلنجز موجود ہیں کہ آیا وہ تنظیمی ارتقا حاصل کر سکتے ہیں اور ڈھیلے اور پیچیدہ ڈھانچے کو تبدیل کر سکتے ہیں یا نہیں۔

Facebook Comments

قادر خان یوسفزئی
Associate Magazine Editor, Columnist, Analyst, Jahan-e-Pakistan Former Columnist and Analyst of Daily Jang, Daily Express, Nawa-e-Waqt, Nai Baat and others. UN Gold medalist IPC Peace Award 2018 United Nations Agahi Awards 2021 Winner Journalist of the year 2021 reporting on Media Ethics

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply