نیل کے سات رنگ-قسط1/انجینئر ظفر اقبال وٹو

( ریاست غرب دارفور کے خانہ جنگی والے علاقے کے سفر کی روئیداد)
مارس لینڈ کا جہاز “الجنینہ “ کی ائیرپورٹ نما پختہ پٹی پر اُترنے کے لئے فضا میں منڈلا رہا تھا اور اب تک کوئی چھ سات چکر لگا چکا تھا، ہمیں اس کی لینڈنگ نہ کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ اچانک پائلٹ نے جہاز کو تقریباً ایک ناممکن زاویے پر رن وے کی پٹی پر ڈال دیا۔ شاہ جی کے ہاتھ میں پکڑی کافی ان کے کپڑوں کے اوپر گر چکی تھی اور ہم صدمے کی کیفیت سے دوچار تھے۔ دار فور میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے اس طرح کی لینڈنگ ایک معمول کا عمل تھا تاکہ باغی طیارے کو راکٹ نہ مار سکیں۔ اس وقت ہمیں یاد آرہا تھا کہ پچھلے اتنے عرصے سے خرطوم میں ہماری میزبان کمپنی کے انجینئرز نے ہمیں اس دورے سے باز رکھنے کی کیوں کوشش کی تھی۔

خدا خدا کر کے ہمیں سات مہینوں کے بعدعسکری حکام کی جانب سے ریاست مغربی دار فور میں واقع “الدریسہ ڈیم” کی مجوزہ جگہ کو دیکھنے کا پروانہ ملا تھا اور ہم “مارس لینڈ” کی پہلی میسر پرواز سے وہاں پہنچے تھے۔ عظیم تر دار فور کی پانچ ریاستوں میں سے مغربی دار فور خانہ جنگی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ریاست تھی جس کی ساری آبادی تین چار شہروں میں سمٹ آئی تھی یا پڑوسی ملک چاڈ میں ہجرت کر گئی تھی۔ دیہاتوں کا نام و نشان تک مٹ گیا تھا۔ائیرپورٹ کی بلڈنگ بھٹی کی اینٹ سے بنے دو کوٹھوں پر مشتمل تھی جس کے اندر لوگ بھرے تھے جنہوں نے اس پرواز سے خرطوم واپس جانا تھا۔ محکمہ بجلی اور ڈیم کے اہلکاروں کا ویگو ڈالا ہمار لئے جہاز کی سیڑھیوں کے سامنے رن وے پر آکر لگ گیااور ہم لوگ جہاز سے اترتے ہی سول سیکریٹریٹ روانہ ہوگئے ،جہاں وزیر منصوبہ بندی سے ہماری ملاقات طے تھی۔ ہمارے ساتھ خرطوم سے آنے والے مقامی انجنیئرز کا گروپ بھی اپنی گاڑیوں میں وہاں پہنچ گیا۔

“الدریسہ” ڈیم اس ریاست کا خوابی منصوبہ تھا جس کے بننے سے شاید پانی کے تنازعے پر ہونے والی خانہ جنگی تھم سکتی تھی اور ہم لوگوں نے اسی لئے سارے خطرات مول لے کر اس منصوبے کی جگہ کا دورہ کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ ہم اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے تھے۔ “الدریسہ” ڈیم کا علاقہ یہاں سے سو کلومیٹر سے بھی زیادہ فاصلے پر پہاڑی علاقے میں واقع تھا جو “الجنینہ” سے “زالنگی “ جانے والے راستے میں “مورنی” گاؤں  سے قریب پڑتا تھا۔ تاہم اس پورے علاقے میں شدید قسم کے خوف وہراس کا ماحول تھا جس کا کچھ اندازہ ہم ائیرپورٹ پر اترتے ہی کر چکے تھے۔ تاہم خرطوم سے روانہ ہوتے وقت تک اتنی کشیدہ صورت حال کا اندازہ نہ تھا۔ ہم اسے ایک ایڈونچر ٹرپ سمجھ رہے تھے۔شاہ جی نے تو ویگو ڈالے کے اندر بیٹھتے ہی سگریٹ سلگا کر اعلان کر دیا تھا کہ “ہور ڈیم بنڑاؤ”۔

وزیر منصوبہ بندی سے ملاقات کوئی دو گھنٹے جاری رہی جس کے بعد ہمارے میزبانوں نےہمیں کسٹم کے علاقے میں واقع اپنے ریسٹ ہاؤس چھوڑنا تھا۔ڈیم کی جگہ پر جانے کا پروگرام عسکری اداروں کی جانب سے اجازت اور ہماری ٹیم کے تحفظ کے لئے محافظوں کے انتظام سے مشروط پایا۔ جس کے لئے وزیر صاحب نے اگلے دن ہاتھ پاؤں مارنے تھے۔ہم نے اپنے کیمرے سے اس ملاقات کے کچھ گروپ فوٹو بنائے اور ان سے اجازت لے لی۔ تاہم اپنی سیلانی طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہم نے اپنے میزبان محکمہ بجلی کے افسران سے پرانے شہر کےوسط میں واقع”سوق” کے چھپر بازار سے چائے پینے کی خواہش ظاہر کردی۔ اگرچہ انہیں اس پر کچھ اعتراض تھا مگر ہمارے اصرار پر یہ لوگ ہمارے ساتھ بے دلی سے چل پڑے ۔ ہمیں اس وقت تک کوئی اندازہ نہیں تھا کہ چھپر چائے خانوں میں کون سا خطرہ ہمارا منتظر تھا ۔

یہ کوئی بیس سے زائد جہازی سائز کے چھپر ہوٹل تھے جو ایک بہت بڑے مربع نما علاقے میں آمنے سامنے بنے ہوئے تھے ۔ اندر روایتی طرز کےز مینی دستر خوان بچھے تھے ۔ سب سے نمایاں بات یہ تھی کہ یہ سب چائے خانے خواتین چلا رہی تھیں ۔ وہ گہرے رنگوں کے مقامی لباس زیب تن کئے ہوئے تھیں۔ ان میں عمر کے لحاظ سے تین درجہ بندیاں تھیں ۔ سب سے بڑی عمر کی خواتین منیجر کی سیٹ پر بیٹھی نگرانی کر رہی ہوتیں جبکہ ادھیڑ عمرخواتین پیسے وصول کرنے پر معمور تھیں۔ نوجوان خواتین بن ٹھن کر مہمانوں کو سرو کر رہی تھیں۔ چھپر وں کے اندر کا ماحول ہیری پورٹر کی فلموں کی عمارات جیسا تھا اور اندر نیم اندھیرے میں عرب سازوں پر ہلکی پھلکی موسیقی چل رہی تھی۔روایتی لکڑی کی چینکوں میں چائے قہوہ اور دوسرے مشروبات سرو ہو رہے تھے ۔ اندر کی فضا شیشے کے دھوئیں سے بھری ہوئی تھی ۔ ہم یہاں آکر ایک دم پُرسکون ہو گئے تھے لیکن ہمیں نہیں معلوم تھا کہ اسی ماحول میں ایک خطرہ تیزی سے ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply