شہزادہ احمد الکمال۔۔تحریر : واشنگٹن ارونگ /ترجمہ : عاطف ملک

نوٹ:یہ ترجمہ لفظ بہ لفظ نہیں بلکہ مترجم نے “کچھ بڑھا بھی دیتے ہیں زیبِ داستاں کے لیے”    کا استعمال  اس ترجمے میں مختلف مقامات پر کیا ہے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ غرناطہ کے اندلسی حکمران کا ایک ہی بیٹا تھا، جس کا نام اُس نے احمد رکھا۔ احمد کی ذہانت و فطانت دیکھ کر کم عمری میں ہی لوگوں نے اسے الکمال کے نام سے پکارنا شروع کردیا، سو باپ کے دیے گئے نام نے بڑھ کر احمد الکمال کی شکل اختیار کر گیا۔

نجومیوں نے اس کے زائچہ بنائے اور پیشنگوئی کی کہ وہ ایک دانشمند حکمران ہوگا جس کا دورِ حکومت تاریخ میں اپنا الگ مقام رکھے گا مگر غرناطہ کے سب سے بڑے نجومی نے بادشاہ کو ایک خطرے سے  آگاہ کیا۔ شہزادے کی عاشق مزاجی اُس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے خصوصاً اگر وہ کم عمری میں اس آزار میں مبتلا ہوگیا۔ بادشاہ خود بھی حُسن پرست تھا اور جانتا تھا کہ یہ کتنا بڑا خطرہ ہے مگر اس کا بچاؤ مشکل تھا کہ غرناطہ کی آب و ہوا حُسن کی ترویج کرتی تھی۔ اندلس کی وادیاں،  دریائے درو کا پانی، پھلوں سے جھکے اشجار و باغات، غزال آنکھیں، الجھی زلفیں، خوش گلو دوشیزائیں سب غرناطہ میں بکھرے پڑے تھے۔ سلطنتِ غرناطہ کی خوشحالی دور دور سے حسن اور ذہانت کو اکٹھا کر لائی تھی، اور کون تھا جو  غرناطہ میں حسن کے وار سے بچ سکتا تھا۔  بادشاہ نے اپنے بچپن سے ہی سُن رکھا تھا کہ دنیا میں اندھا ہونا بدقسمتی ہے مگرغرناطہ میں اندھا ہونا بدترین بدقسمتی ہے۔

اس سنگین خطرے سے بچاؤکے لیے بادشاہ نے سوچا کہ احمد کی پرورش اکیلے میں کی جانی چاہیے ایسے کہ وہ کسی دوشیزہ کے سائے سے بھی دور رہے اور محبت کے لفظ سے ناواقف ہو۔ سو اس خاطر بادشاہ نے الحمرا کے اوپر پہاڑ کی چوٹی پر ایک عالیشان محل تیار کروایا۔ اس محل کے اردگرد خوبصورت باغات، آبی گذرگاہیں اور حوض تھے مگر یہ سب اونچی دیواروں کے احاطے میں تھا کہ مکین کو باہر کی دنیا کا کچھ علم نہ ہو۔ اس محل میں شہزادے کو اسیر کر دیا گیا اور اس کی تربیت کے لیے بادشاہ نے ابن بنین کو مقرر کیا۔ ابن بنین غرناطہ میں موجود محققین میں قابل ترین استاد تھا جو قابل ترین ہونے کے ساتھ ساتھ خشک ترین بھی تھا۔ ابن بنین نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ مصر کے اہرام میں کنداں قدیم تحریروں کو سمجھتے اور حنوط شدہ لاشوں پر تحقیق کرتے گذارا تھا۔ اس کو خواتین میں کوئی دلچسپی نہ تھی بلکہ وہ حنوط شدہ ممی  کو کسی شعلہ بدن پر ترجیح دیتا تھا۔ بادشاہ نے اتالیق کو حکم دیا کہ وہ شہزادہ احمد کو تمام علوم سے بہرہ مند کرے، مگر محبت، عشق، علوم الفت و اعمال چاہ کے اسباق اس پر بند ہیں۔

” اے عقلمند، غرناطہ کے آسمان کے ماہتاب، اے ابن بنین، جو کچھ بھی تجھے کرنا پڑے کر مگر شہزادے احمد کے لیے محبت کا علاقہ ممنوع ہے۔ اگر میرے بیٹے نے تیری تربیت کے دوران عشقیات کا سبق پڑھا تو تیری گردن ہی اس  قصور کی سزوار ہوگی”۔

اس پر ہوشیار ابن بنین کے جھریوں زدہ چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی، ایسی مسکراہٹ جس کی اس کے چہرے کی جھریوں سے تفریق کرنا ممکن نہ تھا۔ ” اے صاحبِ منزلت ، ملک فارس میں ایک دانا نے مجھے پڑھایا تھا کہ عقل منداں را اشارہ کافیست کہ عقل مند کے لیے ایک اشارہ کافی ہوتا ہے۔ اے بادشاہ ، اپنے دل کو اپنے بیٹے کے بارے میں مطمن کرلے کہ آپ اُسے ایک ایسے شخص کی تربیت میں دے رہے ہیں ہیں جس نے ساری زندگی  ذہنی سوچ و فکر میں گذاری ہے اور ہر حقیقت کو عقلی میزان پر تولا ہے۔ اے والیِ غرناطہ، کیا آپ کو لگتا ہے کہ میں ایسا شخص ہوں جس کے نزدیک محبت جیسے لغو کام کی کوئی اہمیت ہے؟”۔

اس پر بادشاہ مطمن ہوگیا اور دنیا کی آنکھوں سے اوجھل محقق ابن بنین کی زیرِنگرانی شہزادہ احمد تربیت حاصل کرنے لگا۔ ابن بنین نے اُسے علوم مصر میں تیار کرنا شروع کیا۔ جیومیٹریکل اشکال، علمِ کیمیا، علمِ زراعت کے بارے میں پڑھایا کہ اہل مصر ان علوم میں دنیا کے رہبر رہے ہیں۔ شہزادہ ایک ذہین اور مودب طالب علم تھا، وہ گھنٹوں جمائیاں روکے توجہ سے اپنے قابل استاد کا درس سنتا۔ اس کی آنکھوں سے ان اسباق کی دلچسپی جھلکتی۔ شہزادے کے سوالات اس کی ذہانت کے آئنیہ دار تھے، مگر ابن بنین کو جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ شہزادے کو فلسفے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے مگر دوسرے مضامین میں وہ مہارت حاصل کر رہا تھا۔ نوجوان شہزادے کی ذہانت اورلیاقت اس کے نام الکمال کی پاسداری کررہے تھے۔

اس دوران میں شہزادہ بیس سال کا ہو گیا۔ اُس وقت شہزادے کے مزاج میں اچانک ایک عجب تبدیلی آئی۔ اس نے پڑھائی میں دلچسپی لینا چھوڑ دی بلکہ وہ اکثر باغ میں ٹہلتا، کسی گہری سوچ میں بہتے پانی کوغور سےدیکھتا نظر آتا۔  حوض کے کنارے بیٹھے وہ رنگ برنگی مچھلیوں کا دیکھتا رہتا یا درختوں پر بیٹھے پرندوں کی آوازوں پر توجہ دے رہا ہوتا۔ شہزادے نے اپنی مروجہ تعلیم میں موسیقی کی کچھ تعلیم پائی تھی، مگراب یکایک اس کا میلان گانے بجانے کی طرف بہت بڑھ گیا تھا۔ موسیقی کے ساتھ ساتھ شاعری سے بھی اس کی رغبت بہت زیادہ ہوگئی۔ زیرک ابن بنین نے فوراً خطرے کی گھنٹی محسوس کرلی اور یکایک الجبرے کی مقدار بڑھا دی کہ الجبرا کس بل نکالنے کے لیے دنیا میں اثیر مانا جاتا ہے۔ مگر شہزادے نے الجبرا پڑھنے سے انکار کردیا۔

” اے میرے استاد، میں الجبرا برداشت نہیں کر سکتا، اے عقلمندوں کے عقلمند، اے ابن بنین، مجھے کچھ ایسا سبق دے جو میرے دل سے بات کرے”۔

جہان دیدہ ابن بنین نے تاسف سے اپنا سر ہلایا اور سوچا، ” لگتا ہے کہ آج سے فلسفے اورمنطق کی تعلیم ختم کہ شہزادے کو علم ہو گیا ہے کہ وہ دل بھی رکھتا ہے”۔

اپنی جان کے بچاو اور شہزادے کی بہتری کے لیے ابن بنین نے شہزادے کو پھولوں اور اشجار کے ماحول سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا، اور شہزادے کو محل کے سب سے اونچے مینار میں منتقل کر دیا گیا۔

الجبرا کو فہرست سے خارج کر کے ابن بنین نے سوچا کہ اب شہزادے کو کس علم کی تعلیم دے کہ شہزادہ اب ایسا علم چاہتا تھا جو اس کے دل پر اثرپذیر ہو۔ ابن بنین عقلمند تھا سو اس نے پرندوں کی زبانوں کا علم شہزادے کو سکھانا شروع کیا۔ یہ علم ابن بنین نے مصر کی وادی الملوک میں قیام پذیر ایک طویل العمر گدھ سے حاصل کیا تھا جو حضرت سلمان علیہ سلام کے پرندوں کے لشکر میں رہا تھا اور عربی زبان پر عبور رکھتا تھا۔ شہزادے احمد نے پرندوں کی بولیاں سیکھنے میں بھرپور دلچسپی لی اور اپنی ذہانت کی بنا پر جلد ہی اپنے اتالیق کی مانند پرندوں کی زبانوں کا ماہر بن گیا۔

اب شہزادے کے لیے برج کی تنہائی کم ہوگئی کہ وہ مختلف پرندوں سے باتیں کر سکتا تھا۔ اُس کی سب سے پہلے دوستی ایک عقاب سے ہوئی جس نے اپنی رہائش فصیل کی ایک اونچی دراڑ میں بنا رکھی تھی۔ یہاں سے وہ شکار کی تلاش میں آسمان کی بلندیوں اور زمین کی وسعتوں میں گھومتا اُڑتا تھا۔ مگر عقاب شہزادے کو پسند نہ آیا کیونکہ وہ ایک خود پسند پرندہ تھا جس کے پاس اپنےحملوں اور معصوم پرندوں کو ادھیڑنے کی کہانیوں کے علاوہ کوئی قصہ نہ تھا۔

شہزادے کا دوسرا شناسا ایک الو بنا: ایک بڑے سر والا عقل مند پرندہ جس کی گردن کا کچھ پتہ نہ چلتا تھا۔ وہ سارا دن ایک پرانی اونچی دیوار کے سوراخ میں بیٹھا، گہری سوچ میں ڈوبا اپنی گول گول آنکھیں گھماتا رہتا تھا اور جب کچھ اس کی سمجھ میں آجاتا تو یکایک اُس وقت اس کی گردن ایک جانب کو گھومتی۔ مگر یہ گردن کی یکایک حرکت کبھی کبھی  ہی ہوتی تھی کہ الو کبھی بھی علاقائی یا چھوٹے مسائل پر اپنا وقت ضائع نہیں کرتا تھا بلکہ اس کی سوچ کے مسائل آفاقی تھے اور ایسے معاملات کی سمجھ تو اقوام مل کر بھی نہ پا سکیں۔  الو رات کو اپنے آستانے سے اٹھتا اور تاریک علوم کے حصول کے لیے کھنڈرات کا رُخ کرتا۔ الو کی گفتگو سے شہزادہ احمد بہت متاثر ہوا کیونکہ یہ گفتگو دانائی سے پُر ہوتی تھی۔ دنیا کے داخلی اور غیر مادی امور پر اُس چُغد کے خیالات بڑے جامع تھے، نیز چاند اور تاریک علوم کے بارے میں بھی الو کی عملی تحقیق تھی۔ وہ الو شہزادے احمد کو اکثر موقعوں پر استاد ابن بنین سے  آگے محسوس ہوا۔

اور پھر ایک چمگاڈر تھی جو سارا دن ایک کھنڈر میں اپنے پنجوں پر الٹی لٹکی رہتی تھی مگر شام ہوتے ہی اُس کی صبح ہوجاتی اور وہ انگڑائی لے کر اپنی جگہ سے ایسے غیر محسوس انداز سے اڑتی کہ جب تک قریب نہ پہنچے کسی کو اُس کا پتہ نہ چلتا۔ مگر چمگاڈر کا علم محدود تھا کہ زیادہ وقت الٹا رہنے کی وجہ سے اس کے خون کا بہاو پیروں سے دماغ کی جانب ہو گیا تھا۔ چمگاڈروں کی مختلف نسلوں نے اس  حیاتی تبدیلی کو محسوس کرلیا تھا اور اب انہیں اپنی سادہ زندگی کے علاوہ کسی چیز میں دلچسپی نہ تھی۔

اور پھر وہ چھوٹا سا بے صبر پرندہ ابابیل تھا، جس کی پھرتی و تیزی دیکھ کر شہزادہ دنگ رہ گیا تھا۔ ابابیل مینار کے اردگرد تیزی سے چکر لگاتا تھا، دائیں اُڑتے اُڑتے اُس کا یکایک بائیں طرف کو اُسی تیزی سے مڑ جانا حیران کُن تھا۔ ابابیل بڑا باتونی تھا، تیز تیز بولتا اور ایک موضوع سے دوسرے موضوع پر اتنی تیزی سے چھلانگ لگاتا کہ سننے والا اُس کی رفتار کا ساتھ نہ دے سکتا۔ ابابیل ظاہر ایسے کرتا تھا کہ جیسے اُسے ہر چیز کو علم ہے مگر حقیقتاً وہ سطح کو چھو کر آگے نکل جانے والا پرندہ تھا۔ شہزادے احمد کو جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ اس باتونی کا علم سطحی ہے کہ اس کی افتادِ طبع کسی تحقیق کی متحمل نہ تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

شہزادے کو انہی چند پرندوں سے بات چیت کرنے کا موقع ملا کیونکہ دوسرے پرندوں کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ مینار کی اونچائی تک اڑ کر اندر آسکتے ۔ شہزادہ نے جلد ہی ان پرندوں کی گفتگو کو بے معنی پایا کہ یہ اُس کے دل کے ساتھ تعلق پیدا کرنے میں ناکام رہے  تھے۔ الو کی فلسفیانہ باتیں متاثر کُن تھیں مگر وہ عقلی باتیں دل کے میزان پر کچھ وزن نہ رکھتی تھیں۔ نتیجتاً شہزادہ جلد ہی دوبارہ اکیلے پن اور دل شکستگی کا شکار ہو گیا۔

Facebook Comments

عاطف ملک
عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پڑھاتے ہیں۔ پڑھانے، ادب، کھیل ، موسیقی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی ہے، اور آس پاس بکھری کہانیوں کو تحیر کی آنکھ سے دیکھتے اور پھر لکھتےہیں۔ یہ تحاریر ان کے ذاتی بلاگ پر بھی پڑھی جاسکتی ہیں www.aatifmalikk.blogspot.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply