چُپ(افسانہ)-سلمیٰ کشم

میں خاموش تھا ہمیشہ کی طرح ۔۔۔میری زبان پہ ازلی تالا پڑا تھا ،کسی سرد شام کی طرح میری حسیں بالکل ٹھنڈی اور دھند پڑے علاقے کی طرح غیر واضح ہوتی جارہی تھیں ۔

میں سن سکتا تھا۔۔۔
میں دیکھ سکتا تھا ۔۔۔۔
بول بھی سکتا تھا ۔۔۔۔۔
لیکن نہیں، اندھا بہرا اور گونگا بن چکا تھا۔

ساتھ والی حویلی سے آج بھی عورت کے چیخنے چلانے کی دل خراش آوازیں آتی رہیں کتنی دیر، پتا نہیں ۔۔۔۔۔ کوئی آدمی جانے کتنی دیر اسے زد کوب کرتا رہا یہاں تک کے اس کا چلانا کراہنے میں بدل گیا۔۔۔۔پھرآہستہ آہستہ آہوں اور سسکیوں کی آواز بھی دب گئی۔

ایک اور تاریک شام رات کے سیاہ فام وجود میں وصال کرگئی۔

میری بہری سماعت نے سب سنا ,
آنکھیں بنا دیکھے تماشائی بنی رہیں مگر میری حس وہ تو مردہ تھی ۔۔۔۔۔۔ کسی مرجھائے گل کی طرح جس کا وجود شاخ سے چٹخ گیا ہو۔
بھار گراں سے قاصر لاچار۔۔۔۔۔۔۔

میں ایسے لمحوں کے اذیت ناک رویے سے بچتا بازار کی بھیڑ بھاڑ میں خود کو گم کرنے کے لیے چل پڑا ۔۔۔۔۔۔۔

بازار بھی میرے لیے اس مردار بستی جیسا تھا جو عرصے سے میرے اندر قیام پزیر تھی ۔۔۔۔۔۔ مجھے ایسی گنجانی پسند تھی جہاں سب کو اپنی پڑی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔اپنے مطلوبہ سامان کی فکر اور لین دین کا تنازع گھنٹوں کو منٹوں کے پر لگا کر اڑا دیتا ہے، وقت گزرنے کا پتا نہیں چلتا۔۔۔۔۔۔

اپنی ہستی اور اپنی مستی بس ۔۔۔۔۔
میں ابھی چوک میں داخل ہی ہو تھا کہ ایک ماسک پہنا شخص برق رفتاری سے دوڑتے ہوئے ایک دم مجھ سے ٹکرایا وہ تیز رفتاری کی وجہ سے گرگیا اس کا ماسک ہٹ گیا ۔

میں اسے اچھے سے پہنچانتا تھا وہ جلدی سے اٹھا اور ماسک چڑھا کر بھاگ نکلا ۔

یہ چوہدری انوار احمد کا بیٹا تھا جو پنچائت میں بیٹھ کر لوگوں کی زندگی کے فیصلے دیتا تھا(چراغ تلے اندھیرا رہ گیا تھا)

اس کے پیچھے ایک اور چھریرے بدن کا لڑکا بیگ اٹھائے بھاگتا ہوا تعقب کرنے والوں سے دور نکل گیا ۔

پیچھے آنے والے لوگوں میں تعقب کی جستجو کم اور وایلا زیادہ تھا۔

وہ دونوں میرے بغل میں تھے میں آسانی سے انھیں پکڑ سکتا تھا مگر کہاں۔۔۔۔ ہمت ہی نا تھی۔

تھوڑا آگے لوگوں کا بڑا ہجوم تھا گولی لگنے کی وجہ سے سنار سیٹھ خون میں لتھ پتھ پڑا تھا۔

یہاں بھی میں نے فقط افسوس کیا اور زیادہ سے زیادہ اس کے گھر جاکر تعزیت کر لیتا اور کیا کرتا۔

میں تعزیت کرنے سوگ کرنے کے کا عادی تھا، میری مٹی کو یہی موسم راس تھا ۔

ہم بھلا کرنے والا کام تھوڑی کرتے ہیں ۔
یہی تو کرسکتا تھا میں گواہی تھوڑی دے سکتا تھا۔

ایک دن دس سالہ بیٹے نے شکایت کی
” کہ ابو مجھے اففی بھائی(تایا زاد)
جب ملتا ہے تنگ کرتا ہے ۔وہ مجھے اچھا نہیں لگتا آپ اس کو ڈانٹیں۔۔۔۔۔”
بیٹے کی آہ زاری پہ پہ غور کرنے کی بجائے ایک پھیکی مسکراہٹ سے اس کی طرف دیکھا۔

“ارے تمھیں تو قاری سے بھی مسئلہ رہتا ہے سکول ٹیچر کی پڑھائی بھی سمجھ نہیں آتی ۔۔۔۔۔۔۔ اپنا رویہ بھی دیکھو ذرا۔۔۔۔”

بیٹے نے اس کے بعد شکایت نہیں کی ،خاموش ہوگیا۔

ایک دن اففی(بھتیجے) کی دی اذیت نے میرے دس سالہ بیٹے کی جان لے لی ۔۔۔۔۔۔

میرے ہی گھر میں میرے بیٹے کی لاش ملی۔
نرم سفید گداز جسم پہ جگہ جگہ دانت کاٹنے کے نشان اور نیل ہی نیل ۔۔۔۔۔۔

میری بیوی پاگل ہوگئی اور میں سودائی
میری اندھی گونگی بہری سماعتیں پہلی بار چیخ اٹھیں ۔۔۔۔۔۔
میرے غم کے سوگ کا پہلو نہیں تھا میری تکلیف کی انتہا نہ تھی میرا دردر میری چھاتی پھاڑ کر روانی چاہتا تھا۔
میری آنکھیں ابل کر باہر آنا چاہتی تھیں ۔
مجھے سب کی الگ الگ تکلیفیں سب کے درد اب محسوس ہورہے تھے ۔

مگر میں چپ تھا۔۔۔ ہاں چپ ۔۔۔۔۔ جامد۔۔۔۔۔ساکت
کہ بچپن سے مجھے یہی سکھایا گیا تھا ۔

جب ابا اپنی ماں کو یا اور میری ماں کو مارتا ، میں دیکھتا شور کرتا روتا تب ابا کہتا چپ ۔۔۔ ایک دم چپ ۔۔۔۔۔ باہر جا کر کھیل۔۔۔۔

جب فیاض ماما ابا کی غیر موجودگی میں اماں سے ملنے آتا ۔۔۔۔۔ میں کہتا کہ ابا کو بتاوں گا۔۔۔۔۔ تو اماں فیاض ماما کی لائی میٹھائی ہاتھ پہ رکھ دیتی اور کہتی چپ ۔۔۔۔۔۔بالکل چپ۔۔۔۔۔

جب دادا دکان پہ سودا دیتے ہوئے باٹ میں ہیر پھیر کرتا اور مجھے سکھاتا کہ چیز ایسے دی جاتی ہے اور گاہک کے سامنے کہتا چپ ۔۔۔۔۔ بس جپ۔۔۔۔۔۔۔

میں چپ کا عادی ہوگیا چپ میرا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔
میرے لبوں پہ چپ کی پپڑی جم گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“میں برسوں کا گونگا ۔۔۔۔۔اگر بولتا تو معجزہ ہوتا ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply