بے مقصد مباحثے اور برہمن و شودر کی تفریق (2)-مرزا مدثر نواز

نوٹ: تحریر کیے گئے الفاظ قلم کار کی تحقیق و دانست کے مطابق ذاتی رائے کا اظہار ہے جس سے قارئین کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ نیز تحریر کا مقصد کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا یا دل آزاری ہر گز نہیں۔

پہلی قسط کا لنک

تاریخ تو تاریخ ہے جو کسی صورت سو فیصد سچ اور کسی کی ذاتی پسند و ناپسند سے پاک نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا اگر کوئی اپنی عقیدت کی بدولت قابلِ احترام ہستیوں کے بارے میں آپ کو شکوک و شبہات میں مبتلا کرنے کی کوشش کرے تو تاریخی مندرجات و روایات کی بجائے شہد کی مکھّی بن کر ایک ایسی کتاب کی طرف رجوع کرنا جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ اصحابِ رسول تاریخی شخصیات نہیں بلکہ قرآنی شخصیات ہیں جن کے تذکرے و اوصاف قرآن کے علاوہ پہلی آسمانی کتابوں میں بھی بیان کیے گئے ہیں۔

”جنگِ قادسیہ 14ھ میں جب دونوں فوجیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی تھیں‘ ایرانی لشکر سے ان کا ایک مشہور پہلوان گھوڑے پر سوار ہو کر نکلا۔ اسلامی لشکر سے عاصم بن عمروؓ اس کے مقابلہ کے لیے باہر آئے۔ ابھی ایک دو وار ہی ہوئے تھے کہ ایرانی شہسوار بھاگا۔ عاصم بن عمرو نے اس کا پیچھا کیا۔ وہ اپنے لشکر کی صفِ اوّل کے قریب تک جا چکا تھا کہ عاصم بن عمرو پہنچ گئے۔ انہوں نے اس کے گھوڑے کی دُم کو پکڑ کر اس کو روک لیا۔ سوار کو اس کے اوپر سے اٹھایا اور زبردستی اپنے گھوڑے پر اپنے آگے بٹھا لیا اور اس کے بعد گھوڑا دوڑاتے ہوئے اپنے لشکر میں آ گئے۔ اس قسم کے بہادر لوگ جمل و صفین 36ھ کی باہمی لڑائیوں میں 90ہزار کی تعداد میں کٹ گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر خلافت راشدہ کے آخر میں آپس کی لڑائیاں شروع نہ ہو گئی ہوتیں تو طاقت و قوت کا بے پناہ سیلاب جو عرب سے اٹھا تھا‘ ایشیاء‘ افریقہ اور یورپ کے تمام علاقوں کو توحید کا علاقہ بنا دیتا۔ صرف آسٹریلیا اور امریکہ ہی ممکن طور پر اس سے مستثنیٰ رہ جاتے، جو وسیع سمندروں کے دوسرے طرف قدیم زمانہ میں ناقابلِ عبور تھے۔ وہ کیا چیز تھی جس نے اس سیلاب کے رُخ کو باہر کے بجائے خود اپنی طرف موڑ دیا۔ یہ کہنا بڑی حد تک درست ہو گا کہ یہ ایک خاندانی جھگڑا تھا جس نے بڑھ کر قومی جھگڑے کی شکل اختیار کر لی اور بالآخر ساری اسلامی تاریخ پر چھا گیا۔ (اسباقِ تاریخ از مولانا وحید الدین خاں)“

سر سیداحمد خان نے اپنی رائے کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے کہ ”علمِ دین تو وہ خراب ہوا ہے جیسا خراب ہونے کا حق ہے۔ اس معصوم سیدھے سادے سچے اور نیک طبیعت والے پیغمبر نے جو اللہ تعٰالیٰ کے احکام بہت سدھاوٹ و صفائی و بے تکلفی سے جاہل‘ اَن پڑھ‘ بادیہ نشین عرب کی قوم کو پہنچائے تھے‘ اس میں وہ نکتہ چینیاں‘ باریکیاں گھسیڑی گئیں اور وہ مسائل فلسفہ اور دلائل منطقہ ملائی گئیں کہ اس میں اس صفائی اور سدھاوٹ اور سادہ پن کا مطلق اثر نہیں رہا۔ بہ مجبوری لوگوں کو اصلی احکام کو جو قرآن و معتمد حدیثوں میں تھے‘ چھوڑنا پڑااور زید و عمر کے بنائے ہوئے اصول کی پیروی کرنی پڑی“۔

قرآن مجید میں سورہ الحجرات کی آیت نمبر13میں ارشادِ باری تعٰالیٰ ہے کہ ”ترجمہ: اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مردوعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لیے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو ،کنبے اور قبیلے بنادیئے ہیں‘ اللہ کے نزدیک تم سب میں سے با عزّت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے“۔

یعنی تم سب کی اصل ایک ہی ہے ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو۔ مطلب ہے کسی کو محض خاندان اور نسب کی بِنا پر فخر کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ سب کا نسب حضرت آدمؑ سے ہی جا کر ملتا ہے۔ مختلف خاندانوں‘ برادریوں اور قبیلوں کی تقسیم محض تعارف کے لیے ہے تا کہ آپس میں صلہ رحمی کر سکو۔ اس کا مقصد ایک دوسرے پر برتری کا اظہار نہیں ہے، جیسا کہ بد قسمتی سے حسب و نسب کو برتری کی بنیاد بنا لیا گیا ہے حالانکہ اسلام نے آ کر اسے مٹایا تھا اور اسے جاہلیت سے تعبیر کیا تھا۔ اللہ تعٰالیٰ کے ہاں برتری کا معیار خاندان‘ قبیلہ اور نسل و نسب نہیں ہے جو کسی انسان کے اختیار میں ہی نہیں ہے بلکہ یہ معیارِ تقویٰ ہے جس کا اختیار کرناانسان کے ارادہ و اختیار میں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply