بے مقصد مباحثے اور برہمن و شودر کی تفریق (1)-مرزا مدثر نواز

نوٹ: تحریر کیے گئے الفاظ قلم کار کی تحقیق و دانست کے مطابق ذاتی رائے کا اظہار ہے جس سے قارئین کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ نیز تحریر کا مقصد کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا یا دل آزاری ہر گز نہیں۔

پہلی امّتوں کے مقابلے میں آخری اُمت کو ہر قسم کی آسانیوں اور نعمتوں سے نوازا گیا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ امتحان لینے والا یہ چاہتا ہے کہ امیدوار کسی نہ کسی طرح تھوڑی سی محنت کر کے کامیابی حاصل کر لے۔ چھوٹے چھوٹے آسان سے نیک کاموں پر اتنا عظیم اجر و ثواب شاید ہی کسی دوسری امت کے نصیب میں آیا ہو۔ خالق کائنات کی طرف سے روئے زمین پر آخری پیامبر  سید الانبیاء محمد ﷺ کسی خاص بستی یا قوم کی طرف نہیں بھیجے گئے بلکہ ان کا پیغام قیامت تک آنے والی تمام نسلِ انسانی کے لیے ہے، یعنی اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے۔ اس دینِ فطرت کو سمجھنا اتنا مشکل بھی نہیں جتنا  بنا دیا گیا ہے۔ انتہائی سادہ لفظوں میں اگر بیان کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ سید الانبیاءﷺ  کی اطاعت کرتے ہوئے اور ان کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق تمام مخلوق سے بے پرواہ ہو کر ایک معبود کا مانگت و پجاری بن جانا اور اپنے جیسی مخلوق کی ہدایت کے لیے کوشش و دعا کرنا نیز اس کا درد رکھنا‘ اس کے علاوہ انسانیت کی فلاح و بہبودکے لیے خود کو وقف کرنا ہی ہمارے اس سچّے و آخری مذہب کا پیغام ہے۔ جتنا زور اسلام فلاحِ انسانیت پر دیتا ہے‘ شاید ہی کوئی دوسرا مذہب اس کے ہم پلّہ ہو۔
؎ یہی ہے عبادت‘ یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں (الطاف حسین حالیؒ)

کسی بھی قسم کی تحریک جب جنم لیتی ہے تو اس کے مخالف بھی ایک تحریک پنپتی ہے۔ عرب میں جب اسلام کا سورج طلوع ہُوا تو اس کے مخالف بھی ایک تحریک اُبھری جس کا مقصد اپنے باپ دادا کے مذہب کا دفاع‘ مکّہ کے چودھریوں ، وڈیروں کا اپنی چودھراہٹ کو لاحق ممکنہ خطرے کا مقابلہ کرنا‘ قبائلی عصبیت کے پیش نظر بنو ہاشم کی مخالفت اور نذر و نیاز و چڑھا ؤوں جیسے منافع بخش کاروبار و دکانداری کا تحفظ دکھائی دیتا ہے۔ ہر قسم کے ہتھکنڈوں کے باوجود یہ اعلانیہ تحریک مغلوب ہوئی اور حق غالب آیا۔ مدینہ میں بھی فرزندانِ توحید کو اسی طرح کی مخالف تحریکوں کا سامنا کرنا پڑا، جن میں اعلانیہ مخالفت کی بجائے نفاق کا عنصر غالب تھا اور ایسی تحریکیں زیادہ خطرناک اور مہلک ثابت ہوتی ہیں۔ منافقین کی سازشیں اپنی جگہ لیکن اس کے ساتھ شاطر و خطرناک مخالف‘ یہود قوم اپنی شکست کو نہ بھلا سکی اور اسلام کے عروج کو دیکھتے ہوئے وقتی طور پر اپنے ارادوں سے باز رہی۔ اگر بیان کی گئی تاریخ کو درست مان لیا جائے تو پہلے دو خلفاء کے دور میں مخالفین کو اپنی سازشیں پھیلانے اور ان میں کامیاب ہونے کا کوئی موقع نہ مل سکالیکن تیسرے خلیفہ راشد کے دور میں اسلام کا لبادہ اوڑھے مخالفین کو اپنا مقصد کامیاب ہوتا نظر آنے لگا اور انہوں نے بڑے ماہرانہ انداز میں قبائلی عصبیت والے کارڈ کا استعمال کرنا شروع کر دیا۔ وہ امت بیضاء جس نے روم و ایران جیسی سپر پاورز کے در و دیوار کو  ہلا کر رکھ دیا‘ ایسے اختلافات و مباحثوں کے نرغے میں آ گئی جن کا کوئی مقصد ہی نظر نہیں آتا اور جن کا آخرت میں کوئی سوال ہی نہیں ہو گا۔ اگر کوئی اعلیٰ و افضل ہے تو اسے آپ کی تصدیق کی ضرورت ہی نہیں اور کسی کے ماننے یا نہ ماننے سے اس کے مرتبے میں کوئی فرق نہیں آ سکتا‘ ستارے تو ستارے ہیں جنہوں نے ہمیشہ آسمان پر جگمگانا ہی جگمگانا ہے۔

تاریخ میں ایسی ایسی رنگینیاں بھری گئی ہیں کہ یہ اختلافات تا قیامت ایک حقیقت ہیں اور ان سے چھٹکارہ کسی صورت ممکن نہیں۔ سیاسی اختلاف کبھی نہ کبھی ختم ہو جاتا ہے مگر جب اس کو اعتقادی اختلاف کا درجہ دے دیا جائے تو اس کے ختم ہونے کی صورت نہیں یہانتک کہ مالکِ کائنات خود ظاہر ہو کر فیصلہ فرما دے۔ اس لیے اتحاد کی واحد صورت یہ ہے کہ اختلاف کو احترام کے ساتھ برداشت کیا جائے کیونکہ اختلاف سے خالی انسانی معاشرہ اس زمین پر ممکن ہی نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply