جنید جمشید محبت کے سفیر کو سلام

ہم آج اکیسیوی صدی میں زندہ ہیں۔ ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جب دنیا کو گلوبل ولیج کہا جاتا ہے۔ لیکن اس جدید دور میں بھی ہمارے ملک کی تہذیب جنگلوں کو شرماتی ہے کہ
سُنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے
لیکن ہمارا ایک ہی قانون اور ہمارا ایک ہی فرقہ
نفرت اور بے ایمانی، نیچے سے لے کر اوپر تک کرپشن کے جال میں اُلجھی قوم اور نفرتیں بو کر کاٹتا اور پھیلاتا ہمارا یہ معاشرہ۔ اور اسی معاشرے میں کچھ چاند چہرے بھی تھے کچھ ایسے سر پھرے جنہوں نے ہاتھوں میں گٹار تھام کر دل دل پاکستان اور جان جان پاکستان کا ایسا راگ الاپا کہ لاکھوں لوگوں کے دل پل بھر میں جیت لئے ۔
وائٹل سائن کا ووکلسٹ ایک حسین خوابوں کے شہزادے جیسا جنید جمشید اپنی زندگی کے ایک چمکتے دور میں داخل ہو گیا۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں دلوں کی دھڑکن بن گیا۔ لیکن تیر اس دور میں بھی اٹھے تھے نفرتیں تب بھی مراثی ہونے کے طعنے دیتیں تھیں لیکن محبتیں نفرتوں سے زیادہ ہی تھیں کہ آج دو دہائیاں سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی ہم نےدل دل پاکستان جیسے نغمے کو مرنے نہ دیا۔اور پھر کامیابیوں اور شہرتوں کی ایک سنہری داستان رقم ہوئی ایک کےبعد ایک کامیابی کا سفر جو رکنے میں نہیں آتا تھا۔اور پھر دیکھنے والوں نے دیکھا اور سننے والوں نے سنا کہ سانولی سلونی سی محبوبہ ۔۔اور تمہارا اور میرا نام درختوں پہ۔۔رقم کرنے والے نے ایک نیا سُر الاپا اور ایک نئی راہ پہ چل پڑا ہم سب نے وہ پکار سنی۔میرا غفلت میں لپٹا دل بدل دے ۔جو قبول کرلی گئی۔دنیا کی غفلت میں لپٹا دل بدل دیا گیا۔ جس میٹھی آواز سے لوگوں کے دل لبھایا کرتا تھا اسی آواز سے اپنے خالق کو راضی کرنے کی سعی کر ڈالی اور پھر جس رب نے کہا کہ تم میرا طرف چل کے آو گے تو میں تمہاری طرف دوڑ کے آؤں گا۔ اس رب نے جنید جمشید کا دل بدل ڈالا۔
باوجود اسکے کے مذہب کے نام پہ چلتے اس کاروبار پہ کی مذہبی بیوپاریوں کی اجارہ داری تھی اور ہے اور باوجود اس سچ کہ،کہ سب سے زیادہ نفرتیں مذہب کے نام پہ بانٹی جاتی رہیں ہیں اوربانٹی گئیں۔ جنید جمشید اس صف میں بھی شہزادہ ہی رہا۔ جس کی آواز کی نرمی دلوں کو موہ لیتی ہے۔ جو اپنی نمازوں کے زعم میں اور تبلیغ کے شوق میں لوگوں کو حقیر نہیں جانتا۔ وہ جس کا شیوہ گٹار پکڑ کر بھی محبتیں بانٹنا تھا۔ تبلیغ کا عصا تھام کر بھی صرف محبت کی تجارت ہی کرتا رہا۔ مجھ جیسے لاکھوں لوگ جنہوں نے مذہب کے نام پہ نفرتیں بانٹتے اس گروہ کی کبھی حرف ثناء کا سوچا بھی نہ ہوگا وہ بھی اس صف میں کھڑے سنہری پیشانی والے اور نرم لہجے والے جنید جمشید کے بارے میں غلط سوچنے کا تصور نہ کرسکے۔لیکن نفرتوں کے الگ الگ قبیلوں نے کئی مرتبہ ان کی قبا کو داغدار کرنے کی کوشش کی۔ مذہب کے نام پر زہر اگلتی زبانوں اور منافقت کا نقاب اوڑھے بازی گروں نے جنید جمشید پہ حرفِ ملامت اور دشنام طرازی کا کوئی موقع نہ گنوایا۔لیکن ایسے نفرت کے ٹھیکے داروں اور مداریوں سے اوپر والے کی ذات بہت بڑی ہے جس نے عزت اورذلت کا ترازو اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔
پریوں کے دیس کا شہزادہ اللہ کی راہ کا مسافر بن کے بھی ہم جیسے مایوس لوگوں کے لئے ہمیشہ نئی صبح کا استعارہ ہی رہا۔ محبتیں بانٹنے والا اور سنت نبوی پہ چل کہ آسانیاں تقسیم کرنے والا انسان۔ جس سے ہم دنیا داروں نے صرف محبت ہی کی۔ اور پھر سات دسمبر کا دن بھی ہم بد نصیبوں نے دیکھا۔ کرپشن سے لتھڑے اداروں میں سرِ فہرست پی آئی اے کی ایک خونی پرواز ہمارے پیارے جنید جمشید سمیت چھیالیس اور لوگوں کے ساتھ حادثے کا شکار ہوگئی۔سوال تو کئی ہیں ان گنت اور ہمیشہ اٹھائے جاتے ہیں کہ سوال کی حرمت ہی اسکے پوچھنے میں پنہاں ہیں۔ بس جواب دہ کوئی نہیں نہ پی آئی اے نہ سرکار۔آگ اور خون پہاڑوں پہ دور دور پھیلا میرے ملک کے حکمرانوں سے سوال کرتا رہا۔ لیکن انہوں نے ہمیں جواب میں وہی دیا ہے جو ہمیشہ سے دیتے آئے ہیں۔حادثے، ناگہانی اموات، امدادی کام، حادثے کی مذمت، مرنے والوں سے تعزیت ، امدادی رقوم کا اعلان، انکوائری کمیشن کا قیام، انصاف کے وعدے اور کم یادداشت رکھنے والی بے حس قوم کے ہم جیسے لوگ۔لیکن بات یہاں کب ختم ہوتی۔
حکمرانوں کی بے حسی کا راگ تو ہم ہمیشہ الاپتے ہی ہیں لیکن اس دفعہ گِدھوں کی بن آئی ہے۔ کہ مردار کھانا تو ان کی فطرت ہے۔ اب کئی فرقے ہیںکئی گروہ ہیں۔ کوئی فرقہ واریت کا راگ الاپ رہا ہے تو کوئی ان کے مرنے پہ جشن منانے اور مٹھائیاں بانٹنے کی۔ سب کی بَن آئی ہے اپنی اپنی دکان کھولے سب اپنی اپنی سوداگری میں مصروف ہیں۔ منڈیوں میں نفرتوں کا کاروبار عروج پہ ہے اور محبتیں ایک زوال پذیر جنس، جس کے خریدار نایاب ہیں۔ جنید بھائی آپ خوش نصیب ٹھہرے کہ نفرتوں کی اس دنیا سے جلد چلے گئے ۔مجھے یقین ہے جس رب نے آپکا دل بدل ڈالا اور جس رسول کے عشق میں آپ نے نفرتوں کے تیر سہے اور دشنام طرازیوں کی ازیتیں اُٹھائیں وہاں آپکے لیے صرف محبتیں ہی محبتیں اور رحمتیں ہی رحمتیں ہونگی-
الوادع محبتوں کے سفیر الوادع ،،،،،،

Facebook Comments

ثمینہ رشید
ہم کہاں کہ یکتا تھے، کس ہنر میں دانا تھے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”جنید جمشید محبت کے سفیر کو سلام

Leave a Reply