آج ایک قتل اور ہوا۔۔۔۔۔فائزہ عامر

ساحر نے کہا تھا”ہر کوچہ شعلہ زار ہے ہر شہر قتل گاہ “۔پاکستانی معاشرے میں جس پیمانے پرخواتین تشدد   کا شکار ہیں  اس سے یہ  صاف دکھائی پڑتا ہے۔تشدد  کی تصویر کشی کے لیے مندرجہ ذیل اعدادوشمار پہ ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔ 70 سے 90 فی صد خواتین کو کسی نہ کسی طورتشدد کا سامنا ہے۔  ایک سرکاری  رپورٹ  کے مطابق ہر تین شادی شدہ خواتین میں سے ایک کو گھریلو تشدد کا سامنا ہے جس کا تعلق براہ راست جسمانی تشدد سے ہے ۔ذہنی اور نفسیاتی تشدد کا تو ذکر ہی کیا  کہ اسے تو کسی قطار و شمار میں بھی شامل نہیں کیا جاتا۔حالات اتنے گھمبیر ہیں کہ عموماً قتل سےکم درجے کے گھریلو تشدد کو رپورٹ ہی نہیں کیا جاتا۔ ایک وقت تھا پاکستان میں بہت سی عورتیں امور خانہ داری کے دوران چولھے پھٹنے سے جاں بحق ہو جاتی تھیں اور کبھی بھی یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ چولھا کیونکر پھٹتا تھا؟ طرفہ تماشہ تو یہ تھا کہ چولہا صرف سسرال میں بہوؤں کے زیر استعمال ہی پھٹتا تھا  بیٹیوں پر  کبھی پھٹتے نہیں سنا تھا۔  پاکستان میں دستیاب ڈیٹا  کے مطابق ہر سال تقریبا پانچ ہزار خواتین قتل ہوتی ہیں اور عمو ما قاتل کا تعلق خاندان کے قریبی افراد باپ، بھائی، چچا وغیرہ ہوتے ہیں۔ یہ بات انتہائی توجہ کی حامل ہے کہ ہماری کونسی ایسی روایات ہیں جو اتنے قریبی رشتوں کو اس گھناؤنے عمل کی جانب راغب کرتی ہیں اور ان سے چھٹکارہ کس صورت ممکن ہے ؟

اخبار بینی کی عادت کی بنا پہ ہم نے بچپن سے تشدد کے ایسے ایسے واقعات پڑھے اور سنے ہیں کہ بے حسی بہر حال ہماری شخصیت کا بھی کسی حد تک حصہ ہی بن چکی ہے۔ کیونکہ آنکھیں چرانے اور اپنی خیر منانے کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ مگر پھر بھی دل میں اک درد سا اٹھتا تو ہے اور سینے میں دھواں سا بھر جاتا ہے جو آنکھوں سے نہ بہہ پائے تو کہیں اندر ہی اندردھیرے دھیرے جذب ہونے لگتا ہے ۔ پچھلے چند روز سےنور مقدم ، قرات العین ،زینب اور نجانے کتنے نام ایسے ہیں جن کا کبھی ذکر ہی نہیں سنا۔۔۔۔۔ان کے چہرے مسلسل نظروں کے سامنے گھومتے ہیں۔ اگر نظریں چراؤں تو اپنی بیٹیاں دکھائی دینے لگتی ہیں ۔جب بھی کو ئی قتل ہوتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانیت قتل ہوگئی ۔کیونکہ انسانیت کی معراج محبت ہے، دوستی ہے ۔جب ایک انسان محبت ،رواداری اور دوستی کے نگینوں سے سجا ہوتا ہے تو ایک خوب صورت انسان ہوتا ہے۔ ایسے خوب صورت لوگ انھی خصوصیات کو اپنے دوستوں میں بھی منتقل کرتے ہیں اور یوں گلشن میں کئی ایک پھول کھلنے لگتے ہیں جن کی خوشبو ہرسو پھیل بھی سکتی تھی مگرافسوس ایسا کبھی ہو نہیں پایا جبکہ یہ بدبو ہر طرف محسوس کی جا سکتی ہے۔خون ناحق کی تعفن زدہ گلی سڑی لاش کی بدبو ،جو نتھنوں سے ہوتی ہوئی دماغ تک جا پہنچی ہے ۔یہ ایک اوربہت ہی تکلیف دہ منظرہے ۔آنکھوں میں بار بار ایک بے بس نازک سی لڑکی کا چہرہ دکھائی دیتا ہے جو بات بات پہ مسکرا رہی تھی جس کی آنکھوں میں ذہانت اور آنے والے دنوں کے سہانے خواب تھے جسے ہر گز اندازہ نہ تھا کہ اس کا بچپن کا دوست اچانک ایک انسان کے مرتبے سے گرتا ہوا وحشی درندہ بن جاے گا اور اپنے خونخوار پنچوں سے اسے چیر پھاڑ دے گا ۔ مگر یہ سب کچھ ہو گیا ۔سوٹ بوٹ میں ملبوس طاقت کے نشے سے سرشار شخص جو خود رجسٹرڈ تھیراپسٹ تھا ۔کیا ایک ذھنی مریض تھا اس بات کا جواب تو کو ئی ماہر نفسیات ہی دے سکتا ہے مگر یہ واقعہ اپنے پیچھے کئی ایک ایسے سوال چھوڑ گیا ہے جن پہ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج کی تیز رفتار دنیا میں انسان ،انسان کم اور مشین زیادہ بن گے ہیں وہ مشینوں کی طرح بھاگتے دوڑتے اپنے آپ کو بھول رہے ہیں اور مختلف قسم کی ذھنی ، جذباتی اور معاشی مسائل کے گرداب میں جکڑے ہوے ہیں اس قسم کے ماحول میں عموماً اپنی ذات کو بھول جاتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتےہیں کہ اس بھا گ دوڑ میں ہم جہاں بہت سوں سے آگے نکلنا چاہ رہے ہوتے ہیں وہیں خود کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ جاتے ہیں یہ حا لات انسان کوکئی طرح کےذہنی اور نفسیاتی مسائل سے دو چار کر دیتے ہیں۔ فارغ اوقات میں بھی عموماً صحتمندانہ سرگرمیوں کی بجاے نشہ آور اشیا پہ انحصار کرتےہیں جو کہ مزید ذھنی اور نفسیاتی مسائل کا باعث بنتی ہیں اور بالآخر معاشرے میں تشدد کی نئی قسمیں جنم لیتی ہیں۔ جہاں کمزور عورتوں اور بچوں کا معاشی ، معاشرتی اور جذباتی استحصال تو عام سی بات ہے بلکہ جسمانی تشدد اورقتل کےواقعات کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم بے حس لوگ کیوں ہیں؟ کیوں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بسنے والی اکثریت آبادی کے دل میں خوف خدا نہیں جو آج نور مقدم کے قتل کو اس کی بے راہروی سے جوڑ رہے ہیں اور اس کی وجہ عورت کی بے جا آ زادی قرار دے رہے ہیں. یہ قابل ترس معاشرہ کے وہ نام نہاد شہری ہیں جنہیں ہنگامی بنیادوں پہ امداد کی ضرورت ہے جو انہیں اس بے حسی کے بھنور سے نکال سکے ۔ہر اس روایت سے جان چھڑانے میں مدد کرے جس سے انسانیت کی تذلیل ہو ۔تشدد زدہ معاشرہ اور اس کے باسی قابل رحم ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب، ثقافت اور فرقے سے ہو جو انھیں نفسیاتی اور جذباتی طور پہ بانجھ پن کا شکار کر دے اوروہ کسی کے دکھ پہ مر ہم رکھنے کی بجا ے مزید نمک چھڑکانے لگیں    ۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply