بلوچ مزاحمت کا نیا رنگ/ذوالفقار علی زلفی

کوہلو، بلوچستان میں مری قبائل کا سرکاری صدر مقام ہے (قبائلی “کاہان”) ـ مریوں کی معلوم تاریخ خون ریز جنگوں سے عبارت ہے ـ ،انگریز نوآبادکار اس قبیلے سے اس حد تک نفرت کرتے تھے کہ انہوں نے مقولہ ایجاد کیا “نو مری، نو پرابلم ـــ مور مریز ، مور پرابلمز” ـ “مہذب” انگریزوں نے ہر مری کے سر پر انعام رکھ دیا تھا۔

قصہ مشہور ہے بگٹی قبائل کے افراد مہینوں تک پشتون چرواہوں کو قتل کرکے انہیں مری قرار دے کر انگریز سے انعام وصول کرتے رہے ـ مہینوں بعد انگریزوں کو ہوش آیا ـ وہ حیران تھے کہ اتنے مری قتل ہوگئے مگر مزاحمت ہنوز برقرار ہے، ـ تحقیقات کے بعد بگٹیوں کی “چالاکی” کھل گئی ـ، مری اور بگٹی نفسیات میں یہ فرق آج بھی موجود ہے۔

دسمبر 2005 ـ پاکستانی فوج کے سربراہ و صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف اپنی دھاک بٹھانے کوہلو گئے، ـ فوج کے سائے میں “عوامی” جلسہ منعقد کیا گیا ـ، حسبِ معمول مشرف نے وہاں مُکّے لہرا لہرا کر دھمکیاں دیں ـ، اسی دوران ان کے جلسے پر راکٹوں سے حملہ ہوگیا ـ، پاکستانی اخبارات نے بعد میں لکھا؛ حملے میں 19 فوجی اہلکار “شہید” ہوگئے۔

اس حملے کی ذمہ داری سردار خیربخش مری کے فرزند بالاچ مری اور نواب اکبر خان بگٹی پر عائد کی گئی۔ ـ پاکستانی فوج نے پوری قوت کے ساتھ مری و بگٹی قبائل پر جارحانہ چڑھائی کردی۔ـ
اگست 2006 ـ  کو اطلاع آئی  کہ بزرگ بلوچ رہنما نواب اکبر خان بگٹی؛ مری قبائل کے علاقے میں جان سے گزر گئے، ـ بلوچ سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے سرکاری نمک خوار رازق بگٹی نے اس قتل/شہادت کے بعد کہا ،اب پوری توجہ سخت جان اور نظریاتی مریوں پر دی جائے گی۔ ـ اگلے سال نوجوان مزاحمتی رہنما بالاچ مری کی شہادت کی خبر بھی آگئی ـ ،گویا پاکستانی فوج نے دو اہم قلعے “فتح” کر لئے ـ۔

پاکستان نے مری اور بگٹی قبائل کا قبائلی اسٹرکچر توڑ کر ان قبائل سے اپنے وفاداروں کے جتھے بنائے، ـ قبائلی اتحاد کی شکست و ریخت پر مبنی پالیسی کے باعث رفتہ رفتہ مری بگٹی محاذ سرد ہوتے چلے گئے ـ۔مریوں کے نمائندے جہاں پہلے سردار خیر بخش مری، حیر بیار مری اور بالاچ مری (شہید) سمجھے جاتے تھے ،اب وہاں محبت خان مری اور چنگیز مری کے نام لئے جانے لگے۔

دسمبر 2019 ـ کوہلو میں جنرل پرویز مشرف کی حمایت میں ریلی نکالی گئی ـ انہیں ایک پاکستانی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی ـ، ریلی کے شرکا کے مطابق جنرل پرویز مشرف نے کوہلو کو آزادی دلائی ہے، اس لئے وہ ایک ہیرو ہیں ،ـ اس ریلی نے بظاہر واضح کردیا  کہ مری قبیلے کا خطہ اب بلوچ مزاحمتی جنگ کا حصہ نہیں رہا۔

ـقبائلی اسٹرکچر کی شکست و ریخت کی پالیسی لیکن پاکستانی نوآبادکاروں کے گلے پڑ گئی، ـ قبائل اور قبائلی سرداروں کی قیادت کے باعث پاکستانی نوآبادکار بلوچ مزاحمت کو سرداروں کی ترقی دشمنی سے تعبیر کرتی تھی، ـ اس تعبیر کو پاکستانی بالخصوص شہری سندھ اور شہری پنجاب کے مڈل کلاس من وعن تسلیم بھی کرتے تھے ـ ،قبائلی اتحاد ٹوٹنے کے بعد مزاحمت کا بوجھ مڈل کلاس پر آگیا، ـ بالخصوص مکران جو پاکستان سے جبری الحاق کے بعد کبھی بھی مزاحمت کا حصہ نہیں رہا ، اس نے تحریک کی قیادت سنبھال لی۔

2008 سے شروع ہونے والی “مارو اور پھینک دو” پالیسی کے نتیجے میں جب نوجوانوں کی ایک پوری نسل صفحہ ہستی سے مٹا دی گئی تو یہ قیادت مڈل کلاس خواتین کو منتقل ہوگئی۔

سردار خیر بخش مری نے ایک دفعہ کہا تھا “جنگ محکوم اقوام کی یونیورسٹی ہے، جہاں سے اقوام کے اراکین مختلف ڈگریاں لے کر نکلتے ہیں”۔ ـ ان کی یہ بات درست ثابت ہوئی ،ـ جنگ نے بلوچ سماج کا نقشہ ہی بدل دیا ـ ،سردار اور اس کے وفادار قبائل کی جگہ نظریاتی سیاسی کارکن صف ِاوّل پر آگئے ،ـ قبائلی معیشت اور سماجی نظام کی بندشوں سے آزاد نظریاتی سیاسی کارکن سے ڈیل کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے ـ پاکستانی نوآبادکار اپنے ہی بچھائے جال میں پھنستے چلے گئے ـ۔

اس سے نکلنے کا واحد راستہ قتلِ عام ٹھہرا ـ سو یہ بھی کیا گیا ـ جنگ عورتوں کی صفوں میں سرایت کرگئی ـ ایک ایسا سخت مردانہ سماج جہاں خواتین کو سانس لینے کی آزادی بھی نہیں تھی اس سماج کے مستقبل کی بھاگ ڈور خواتین نے سنبھال لی ـ۔

دسمبر 2023 ـ مکران و جہلاوان سے سیکڑوں افراد نوجوان خواتین کی قیادت میں کوہلو پہنچ گئے ـ وہ کوہلو جہاں خواتین کا باہر نکلنا سختی سے منع ہے ـ وہ کوہلو جہاں چند سال قبل پاکستانی پرچموں کے ساتھ پرویز مشرف نامی عفریت کی حمایت میں ریلی نکالی گئی تھی ـ وہ مری جو خواتین کے معاملے میں جابر مشہور ہیں ـ اس کوہلو میں، مری مردوں کی ایک بہت بڑی تعداد خواتین کے استقبال کے لئے گھروں سے نکل آئی ـ چشمِ فلک نے دیکھا قبائلی مرد ادب و احترام سے بیٹھا نوجوان بلوچ خاتون کی مزاحمتی تقریر سن رہا ہے ـ

شکست خوردہ مشہور کئے گئے کوہلو نے پوری قوت کے ساتھ نہ صرف اپنی تاریخی مزاحمت کا اعادہ کیا بلکہ اس دفعہ وہ سردار نہیں مکران و جہلاوان کے عام گھرانے کی لڑکیوں کی قیادت میں اکھٹا ہوگیا ـ ایک “ماہ رنگ” خاتون نے درخواست کی کل آپ لوگ زیادہ تعداد کے ساتھ ہمیں رخصت کریں ـ مری بلوچ؛ عورت کی سنتا ہے؟ ـ ہاں اس نے سنا اور وہ دوسرے دن زیادہ جوش و ولولے کے ساتھ نکلا ـ قومی اتحاد تشکیل پانے کو ہے ـ بلاشبہ یہ ایک انقلاب تھا ـ ایک روشن صبح کی نوید ـ سردار مری ، بابائے بلوچ سچ ثابت ہوئے “جنگ محکوم اقوام کی یونیورسٹی ہے” ـ

جنگ نے بلوچ کو یک جان کردیا ہے ـ دوست اور دشمن واضح ہوچکے ہیں ـ وہ جو کوئٹہ کے سرینا ہوٹل میں ایک پنجابی وائسرائے کے سامنے بچھے جارہے تھے، وہ جو ڈھٹائی سے کیچ میں گرینڈ شمولیتی پروگرام کا ڈرامہ کر رہے تھے، ان مسترد شدہ عناصر نے اپنی صفیں درست کرلی ہیں ـ دوسری جانب عوام ہیں ـ غریب و تہی دست جمہور، انہوں نے بھی اپنی صفیں ترتیب دے دی ہیں ـ لکیر کھنچ چکی ہے ـ
سردار مری مسکرا رہے ہوں گے ـ وہ تب بھی مسکرائے ہوں گے جب ان کا جنازہ عورتوں نے اٹھایا ـ وہ طلوع ہو رہے ہیں ـ

خواتین کی قیادت میں یہ لانگ مارچ اب ڈیرہ غازی خان پہنچ چکا ہوگا ـ کٹے پھٹے نوآبادیاتی صوبے کے نام پر بلوچ قومی سیاست سے بے دخل کئے جانے والے اس خطے کو بھی جنگ نے، بلوچ عورت نے دوبارہ قومی اتحاد کا حصہ بنا دیا ہے ـ

Advertisements
julia rana solicitors london

بلوچ مزاحمت ایک نئے عہد میں داخل ہوچکی ہے۔

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply