گمانِ محبت(3)-جمیل آصف

دن بدن  بھڑکتے سیاسی آتش فشاں نے معاشرے کو اپنی تپش کی لپیٹ میں لیا ہوا تھا ۔ہر شخص کا سیاسی شعور اپنے من پسند راہنما کے دفاع کے لئے تاویلات گھڑتا، مختلف مباحث اور محافل میں دفاع کے لیے دلیلیں پیش کرتا ۔
“سوال تو بڑا پیچیدہ ہے ۔ دراصل ہمارے ہاں اقتدار کی غلام گردشوں میں کچھ سیڑھیاں ایسی ہیں جن  کے استعمال سے طاقت کا حصول آسان ہوتا ہے ایک مذہب، دوسرا بھارت کے ساتھ خارجہ پالیسی اور  تیسرا عوام میں  امریکہ مخالف جذبات ۔”
اریج نے اپنی رائے کا اظہار کیا ۔۔۔
“لیکن دیکھا جائے تو قیام پاکستان سے لیکر اب تک خطے میں ہر جمہوری و غیر جمہوری حکومت امریکن کیمپ کا حصہ ہی  رہی جس کی مثال پوری سرد جنگ  سے لیکر 9/11 کے بعد خطے میں  امریکی پالیسیوں کا دفاع رہا ہے۔ ”
اچانک شور اور پھر بھگڈر سے افراتفری پھیل گی ۔
“تم یہاں بیٹھے ہو جلدی سے گھروں کو نکلو ”
احمد نے بھاگتے ہوئے دونوں کو کہا ۔
حالات بگڑتے جا رہے تھے ۔جسٹس پارٹی کے تحت ریلی مختلف شہروں سے ہوتی ہوئی شہر اقتدار کی جانب گامزن تھی کچھ انہونی کے احساس سے ملک بھر میں بےچینی پھیلتی جا رہی تھی ۔
فنون لطیفہ، ادب اور غیر سماجی سرگرمیوں کی جگہ ہر خاص و عام سیاسی اتار چڑھاؤ میں دلچسپی رکھتا تھا ۔
انٹرنیٹ کی بدولت لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال نے  ہر شخص کو آکٹوپس کی طرح جکڑ رکھا تھا۔ہمیشہ کی طرح اہم تعیناتی نے ملک میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا کر رکھی تھی ۔۔۔ بلاشبہ سیاسی درجہ حرارت میں تیزی کا محور اسی سے جڑا تھا ۔
“ملک میں افراتفری، سیاسی بے چینی، مختلف طبقات میں رسہ کشی اور محلاتی سازشوں میں اضافہ  ہر دور میں اس عہدے کی تعیناتی پر کیوں ہو جاتا ہے جب یہ ایک نارمل ادارہ جاتی عمل ہے؟”
خطاب موجودہ صورتحال پر عادل سے اپنے خیالات کا اظہار کر رہا تھا ۔
“طاقت صرف شخصی محور کے گرد نہیں گھومتی،  بلکہ طاقت اقتدار کے دیگر مراکز پر مکمل گرفت رکھنے کا نام ہے ۔”
خطاب ایک گہری سوچ میں کھو گیا، تاریخ کے مختلف کردار نظروں کے سامنے آنے لگے ۔
” تمھارے کہنے کا مقصد ہے کوئی بھی بادشاہ دراصل من پسند مہرے لانا چاہتا ہے؟”
یہ ایسا سوال تھا جس کا جواب ہر دور میں حل طلب رہا ۔
” اس بات کا جواب ہاں میں بھی دیا جا سکتا ہے اور نا میں بھی”
عادل نے مبہم سی بات کی
“” وہ کیسے؟ میں سمجھا نہیں ”
خطاب کی تشنگی اب بھی باقی تھی
” اقتدار کی تاریخ یہی بتاتی ہے ریاست کے ملازم بادشاہ یا حاکم کے کم ہی وفادار رہے ہیں ۔یا تو وہ اپنے ادارے کو تحفظ دیتے ہیں یا ریاست کی بقاء کے لیے حاکم کو بھی قربان کر دیتے ہیں ۔”
نیوز چینل  پر چلتا قافلہ مختلف شہروں سے ہوتا دریائے چناب کے خطے میں داخل ہو چکا تھا پارٹی ترانوں، جوشیلے نوجوانوں کی نعرہ بازی سے گمان ہوتا لشکر فتح کا عزم لیے میدان کارزار کی طرف گامزن ہے ۔
لیڈر کی شعلہ بیانی سے چارج کارکن سروں پر کفن باندھے چل رہے ہیں ۔اچانک بھگڈر مچتی ہے گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے فضا گونج اٹھتی ہے ۔
دلخراش مناظر سے ہر محب وطن ملک کی سلامتی اور جسٹس پارٹی کے راہبر کے تحفظ کے لیے دعا گو ہوتے ہیں ۔
عادل اور خطاب گم سم سکرین پر نظر جمائے بیٹھے ہیں ۔۔
“تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اقتدار کا کھیل بڑا بے رحم ہوتا ہے ۔”
اس بے رحم کھیل کا شکار  ایک معصوم جان اپنے پھول سے بچوں کے سامنے ہوئی ۔ایک گھر کا چراغ بجھ گیا ۔پتہ نہیں کتنے ہی گھروں کے چراغ اسی کشمکش میں بجھ گئے ۔
“یار یہ لیڈروں کے بچے کیوں محفوظ رہتے ہیں؟ کیا ملک کی فلاح بہبود اور آزادی کی جدوجہد میں ان کی شمولیت لیڈر کی تحریک خود اس کی شخصیت کو عوام کی نظر میں معتبر نہیں گردان سکتی؟”
خطاب مختلف سیاسی، مذہبی اور مسلح جدوجہد میں راہنماؤں کے گھریلو کردار کو سامنے رکھ کر عادل سے گویا ہوا ۔
ایک بلند قہقہے کے ساتھ عادل نے طنزیہ انداز سے خطاب کو دیکھا ۔
” شخصیت پرستی عقل، دانش، فہم، قوت فیصلہ مردم شناسی جیسی صفات چھین لیتی ہے ۔اور راہنما سب سے پہلے یہی کرتے ہے ۔”
واقعی روز اول سے آج تک یہی ہوتا آیا ہے کسی نے صحیح کہا سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔
“تمھارے کہنے کا مقصد ہے کہ ہر گروہ اپنے حصے کے احمق لیے پھرتا ہے ”

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply