بنکاک کی پہلی رات/ناصر خان ناصر

حاضرین بہ تمکین، قدردانوں، مہربانوں و مہر بانو نامہربانو!
ہم سچ کہتے ہیں کہ جو بھی کہیں گے خدا اور اپنی بیگم کو حاضر ناظر جان کر سچ مچ کا درست، ٹھیک، صحیح اور بالکل ٹھیک ٹھاک کہیں گے، ہاں تھوڑے بہت جھوٹ کی رنگ آمیزی، مکر و فریب کا تڑکہ تو البتہ ہمیشہ سے ہی جائز حق باہُو بے شک باہُو رہا ہے۔ آھو۔۔۔
وگرنہ
“ننگ” دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو۔۔۔

ہمیں تو اپنی بنکاک کی پہلی رات کے احوال کہنے ہیں اور اس ڈھنگ سے کہنے ہیں کہ پڑھنے والے اسے “سہاگ کی پہلی رات” سمجھ کر چٹخارے لیں۔

پہلے ہم نے اس مضمون مغموم کا عنوان “بنکاک کی پہلی رات، آم جام اور چشم بادام مادام ان حمام کے ہمراہ لکھنے کا فیصلہ کیا تھا مگر پھر سوچا  ہمارے قاری ہماری بیماری قرین بوجھے بنا قارورہ دیکھے بغیر ہی علم قیافہ و علم غیوب کے تحت معیوب سمجھ کر آگے چل پڑیں گے۔

خون، بلغم، سفرہ اور سودا جانے بغیر ہی تشخیص کر کے خبیث و خصیس پیچھے مڑ کر دیکھیں گے بھی نہیں۔

ارے۔۔۔آپ ابھی تک گالیاں کھا کر بھی بے مزہ نہیں ہوئے تو سنیے کہ سہاگ کی پہلی رات جو حجامہ کرانے اور جامہ و زیر جامہ اتروانے کے مترادف ہے، آج کل کے نوجوانوں کے لیے قوت باہ کی دوا لبوب کبیر، معجون سالم و سلاجیت اصلی بہ مقام گلگت کے مجرب نسخے بنا محرب و مقرب نہیں۔ ہمارے شہروں قصبوں گاؤں کے  حکیموں کے اشتہاروں سے کالی کی گئی  دیواریں ساری کہانی دن رات کہے دیتی ہیں کہ ایلوپیتھی، آیوروید، یوگا، نیچروپیتھی، سدھ، ہومیوپیتھی و ڈاکٹری کا نچوڑا عرق ویاگرہ ہے جس کے بنا لنگوٹ کس کر بھی کسی عام پاکستانی نوجوان کی حذاقت مآہی کا بھرم رہ جانا ممکن نہیں۔

تو خیر قصہ کوتاہ، کچھ تحریک تحلیل و تسکین کا سامان ہو جائے، ملکی و غیر ملکی دگرگوں حالات سے دل گرفتہ ہو کر ہم نے دل کی بات مانی اور دل ہی دل میں ٹھانی کہ چلتے ہو تو چین کو چلیے۔ ۔

چین جائے بنا من کو چین نہیں پڑتا مگر چینی اور نکتہ چینی پھانکے بنا چین جانا، کوچین جائے بنا چیں بہ جبیں یا مہ جبیں کرنے اور چیں چیں کرنے کے مترادف ہے۔ لہذا نگاہ دنیا کے نقشے پر پھسلی تو بنکاک پر جا کر ٹھہر گئی۔

ہم نے ترنت قشقہ کھینچا، نقشہ پکڑا اور پہلا جہاز پکڑ لینے کی ضد پکڑ لی۔
وہ عیوب الستار اور غیوب و غفار جو سب کی سنتا ہے، ہماری سن کر بھی مسکرا اٹھا۔

جہاز نے نیو اورلینز کے نئے چم چم کرتے ائیرپورٹ سے ٹیکی لی تو دھر سے ڈیلس فورٹ ورتھ ائیر پورٹ پر آن ٹپکا۔

وہاں سے اڑے تو فن لینڈ کی برفیلی وادیوں میں آن پڑے۔ ہر طرف چمکیلی برف کی سفید چادر بچھی دیکھ کر “آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا” کی کہاوت یاد آئی ۔ اتنی برف دیکھ کر تھر تھر کانپتے ہوئے اچٹتی نیند کی پھریری لی تو دس گھنٹوں نے بنکاک کے شعلوں میں پہنچا دیا۔

یہاں کا درجہ حرارت اور صنف نازک معتدل، من بھاؤنے، حراروں، نظاروں اور شراروں سے معمور، نشوں سے مخمور، الفت سے شرابور، راحت سے چور چور اور دور دور تک مشہور ہیں۔
تو بھائیو اس سے قبل کہ آپ مایوس ہو کر ہم سے اور ہماری تحریر سے مکھ موڑیں ہم اپنا حال دل کہہ ہی ڈالیں۔

امیر جمع ہیں احباب ،دردِ  دل کہہ لے
پھر التفات دلِ  دوستاں رہے نہ رہے

تو صاحبو! ہمارا مختصر سا سامان ِ سفر (انھوں نے اپنی ٹٹولتی آنکھوں کو مٹکا کر شاید یہی کچھ ہی دیکھا تھا) دیکھ کر ترچھی بادامی آنکھوں والی حسینہ نے جو ہمیں ائیر پورٹ پر ریسیور کرنے براجی تھی، ناک بھوں چڑھا کر اور منہ ٹیڑھا کر کے اپنی حیرت کا اظہار کیا جو ہمیں ہرگز ہرگز خوش نہیں آیا۔

وہ ہمارے سفری اہتمام یعنی نیکر پتلون اور انڈر وئیرز گننے والی آخر ہوتی کون ہیں؟

ہم نے دل ہی دل میں ٹپ کی مد میں پچاس فیصد کٹوتی کا فیصلہ پکے کاغذ پر لکھ لیا۔

اس حسینہ کو بغور دیکھنے پر پتہ چلا کہ سارے کا سارا میک اپ کا کمال ہے، میک اپ کے بغیر اس عصمت بی بی بےچاری کا اک پل جینا بھی محال ہے۔ اس کی آنکھیں پتہ دیتی تھیں کہ اس حسینہ مہ جبینہ نے دنیا دیکھی ہوئی  ہے اور غالباً بہت ہی زیادہ۔۔۔
شاید ہم سے بھی زیادہ۔۔

اتنا سرد گرم چکھنے کے آثار دیوار قدیمہ پر منقش ہیں اور میک اپ کی بھاری تہوں سے بھی چھپائے نہیں چھپتے۔

محترمہ شاید محرم کی پیدائش تھیں یا انھیں پیدائشی پیچش تھی، غیر محرم کو دیکھ کرنہ  مسکرانے کی قسم کھا رکھی تھی، چہچہانے پر پابندی ہے، دل لگی کی مناہی بھلے نیا شاہی فرمان ہو مگر کسی بے نوا مسکین مسافر کی بے ضرر سی، معمولی سی دلجوئی  پر تو کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ سیانے کہتے ہیں کہ ایک مسکان سو دروازے، ہزار جیبیں، لاکھوں تجوریاں اور کروڑوں زپیں کھولتی ہے۔

اس عفیفہ حذیفہ حنیفہ قتامہ کی پُراسرار سی بےزار کُن خاموشی پر ہم نے جل بھن کر مزید کٹوتی پر غور و خوض کرنا شروع کیا مگر بلبل نغمہ سنج بسیرہ کنج گلستاں و شہر خوباں نے یکلخت مہرباں ہو کر شاید ہمارے کملائے چہرے اور مرجھائے دل کی کیفیات بھانپ کر جو چہکنا شروع کیا تو ہوٹل آنے تک چہکتی، بہکتی، مہکتی، مٹکتی اور چٹکتی چلی گئیں۔ مجبورا ً ہم بھی اپنی ساری جیبیں خالی کر کر کے اپنی ساری نقدی چکدی نقد جاں سمیت اپنے دونوں ہاتھوں سے خود لٹا چکے تھے۔

بی بی نے چلتے چلتے مسکراہٹ کا آخری وار ہم پر پھینکا اور ہم اپنا کریڈٹ کارڈ و بھٹکتا دل پکڑ کر رہ گئے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اک نابکار آنسو تو ٹپک ہی پڑا۔

بلکتا سلگتا ہلکان دل اور ہلکا سا بیگ سنبھالے بھاری قدموں سے ہم ہوٹل کی سیڑھیاں یوں اوپر چڑھ گئے جیسے ماؤنٹ ایورسٹ۔

اب یہ کہنے میں کوئی  باق نہیں کہ لنچ میں ہم نے مکئی  کا بھٹا ہی کھایا، شام کو آم سونگھا اور جیب میں پڑے آخری سکے سے ایک دانہ خرید لیا۔ جام کے لیے چام بیچنے کا ارادہ فی الحال ملتوی کیا ہوا ہے۔ بنکاک میں بوڑھے گھوڑے پر داؤ  بھلا کون لگائے گا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply