بوڑھا جنما گیا بریڈ پٹ/تحقیق و تبصرہ : مسلم انصاری

1918 میں انگلش ایمپائر کے ایک ریلوے سٹیشن پر جب دیواری کلاک کی افتتاحی تقریب میں گھڑی پر سے پردہ ہٹایا گیا تو وہ گھڑی الٹی چل رہی تھی
بنانے والے نے کہا : ہاں میں نے یہ گھڑی جان بوجھ کر الٹی بنائی ہے ہوسکتا ہے ایسا کرنے سے ہمارے جنگ میں مارے گئے جوان واپس لوٹ آئیں وہ زندہ رہ پائیں کھیتی باڑی کرسکیں اور ہمارے بیچ جئیں!

فلم : The Curious Case of BENJAMIN BUTTON
دراصل f.Scott Fitzgerald کی ایک مختصر کہانی تھی مگر اس مختصر کہانی نے اپنے آپ میں کہانی لکھنے والوں، پڑھنے والوں، دیکھنے والوں اور فلم بنانے والوں پر ایسی چھاپ چھوڑی کہ انہیں ماننا پڑا یہ کوئی عمومی کہانی نہیں
دراصل اس سب کی ایک وجہ تھی
اس میں شامل کئے گئے بیشتر کردار ایسے تھے جو پردے کے سوا حقیقی دنیا میں بھی اسی طرح موجود تھے جیسے انہیں پیش کیا گیا

جن میں سے ایک کردار Mr.Daws فلم میں کہتا ہے :
کیا میں نے تمہیں کبھی بتایا مجھ پر سات بار آسمانی بجلی گری تھی ایک بار جب میں چھت کی مرمت کر رہا تھا ایک بار جب میں ڈاک لینے کے لئے سڑک پار کر رہا تھا ایک بار جب میں کھیت میں گائے چرا رہا تھا ایک بار جب میں ٹرک میں بیٹھ کر کہیں جارہا تھا اور اسی طرح ایک بار جب میں اپنے کتے کو ٹہلا رہا تھا
وغیرہ
درحقیقت یہ (رائے کلیولینڈ سلیوان 1983-1912) کی کہانی ہے اس انسان پر سات بار آسمانی بجلی گری وہ ہر بار زندہ بچ گیا اور اس کا نام گنیز ورلڈ ریکارڈ بک میں شامل کرلیا گیا

دوسرا کردار pygmy کا تھا
فلم میں ہوبہو نقل کی گئی عبارتوں کی طرح pygmy نامی انسان ایک بندر گھر میں پلا بڑھا 1904 میں اسے برونکس کے چڑیا گھر میں عوامی نمائش کے لئے پیش کیا گیا اس کے دانت کٹے ہوئے تھے اور وہ منہ سے ان تماش بینوں پر تیر پھینکتا تھا پہلے ہی دن اسے چڑیا گھر میں دیکھنے کے لئے 30.000 لوگ آئے
1906 میں pygmy کو غیر انسانی تصور کرتے ہوئے رہا کردیا گیا 1910 تک اسے یتیم خانے میں رکھا گیا (یتیم خانے کا منظر فلم میں شامل کیا گیا)
اس کے بعد pygmy نے حقیقی دنیا میں تمباکو کارخانے میں کام کیا پہلی جنگ عظیم کے ساتھ کی وہ سمجھ گیا کہ اب واپس کانگو نہیں جا سکے گا اور pygmy نے 1916 میں خودکشی کرلی!

ایک اور کردار کے طور پر پیش کی گئی ہمنگ برڈ چڑیا وہ حقیقی واحد پرندہ ہے جو پیچھے کی طرف الٹا اڑ سکتا ہے ہمنگ برڈ ایک سیکنڈ میں 80 دفعہ اپنے پر پھڑپھڑاتا ہے اگر اسے یہ کرنے سے دس سیکنڈز تک جبری طور پر روکا جائے تو ہمنگ برڈ مرجاتا ہے
آپ حیران ہونگے کہ فلم کو عکس بند کرنے والے اور لکھنے والے نے ہمنگ برڈ کا کتنا خوبصورت اور کیسی جگہ استعمال کیا کہ یہ واقعی سوچ میں ڈالنے والا منظر بن گیا

خیر اصل فلم کی جانب لوٹ آتے ہیں
ذرہ تصور کریں اگر آپ نارمل پیدائشی عمل کے بجائے بوڑھے پیدا کئے جائیں اور بچہ ہوکر مریں
آپ ایک ایسے اولڈ ہوم میں پلے بڑھیں جہاں کے سارے بوڑھے بوڑھیاں وہ ہیں جو اپنی پچھلی زندگی یعنی جوانی بھلا چکے ہیں اور آپ نے کبھی جوانی دیکھی ہی نہیں ہو!

بیسک اسی پلاٹ سے جڑی یہ فلم ایک ایسے ہی بچے کی کہانی ہے جس کی پیدائش پہلی جنگِ عظیم کی اختتامی رات میں بٹنز فیملی کے یہاں ہوتی ہے
70-80 سال کے بوڑھے جتنی بیماریاں لیکر پیدا ہونے والا یہ کردار بریڈ پٹ نے انجام دیا
کتنا خوبصورت و حسین امتزاج تھا کہ فلم کی ہیروئن کیٹ بلانشیٹ بچپنے سے جوانی اور بریڈ پٹ بڑھاپے سے جوانی کی طرف جاتے ہوئے زندگی کے ایک ایسے سال میں بھی ملتے ہیں جہاں دونوں کی عمریں برابر ہوتی ہیں

دراصل 1918 میں ریلوے سٹیشن پر لگائی گئی گھڑی کا الٹا چلنا اور ہمنگ برڈ کا الٹا اُڑ سکنا بریڈ پٹ کے کردار کا بڑھاپے سے جوانی اور جوانی سے بچپنے میں آنا
سمتِ مخالف کے طور پر استعمال کیا گیا گہرا استعارہ تھا
اس کہانی کے لیکھک مارک ٹوین نے کہا تھا : زندگی کا بہترین حصہ کہانی کا شروع تھا اور بدترین حصہ اختتام!

فلم BENJAMIN BUTTON پر ابتدائی کام 1994 میں شروع ہوا
فلم کی شوٹنگ دراصل بالٹی مور شہر میں ہونا تھی مگر مشہور ڈارئیکٹر ڈیوڈ فنچر اور ایرک روتھ نے بدل کر نیو اورلینز کردی
(بینجمن بٹن) ڈیوڈ فنچر کے ساتھ بریڈ پٹ کی فلم SE7EN اور فلم فائٹ کلب کے بعد یہ تیسری کہانی تھی

فلم کی کاسٹ میں چار آسکر ایوارڈ جیتنے والے لوگ شامل تھے : بریڈ پٹ، کیٹ بلانشیٹ، ٹلڈا سوئٹن اور مہر شالا علی
بریڈ پٹ نے کہا کہ کردار کے لئے درکار میک اپ کو مکمل کرنے میں ہر روز 5 گھنٹے لگتے تھے

دو گھنٹے 46 منٹ پر مشتمل پیراماؤنٹ اور وارنر برادرز کے اشتراک سے 2008 میں ریلیز ہونے والی یہ فلم اسٹیون شنائیڈر کی 1001 فلمز (جنہیں موت سے پہلے ایک بار ضرور دیکھنا چاہئے) کی فہرست میں ٹاپ پر ہے
فلم IMDb پر 6 لاکھ 65 ہزار 900 ووٹوں سے 7.8 ریٹنگ لے سکی
مذکورہ فلم 160 جگہ مختلف چھوٹے بڑے ایوارڈز کے لئے نامینیٹ ہوئی اور 83 ایوارڈز جیتے جس میں تین اکیڈمی ایوارڈ کے علاوہ تین آسکر شامل تھے
آسکر ونرز تین ایوارڈ یہ تھے
1. بیسٹ اچیومنٹ ان آرٹ ڈرائکشن
2. بیسٹ اچیومنٹ ان میک اپ
3. بیسٹ اچیومنٹ ان ویجیول ایفیکٹس

Advertisements
julia rana solicitors

بینجمن بٹن میری محدود پسندیدہ واچ لسٹ میں دوسرے نمبر پر آتی ہے
فلم کے دو پسندیدہ ڈائیلاگ : عجیب بات ہے جن لوگوں کو ہم سب سے کم یاد رکھتے ہیں (کم اہمیت دیتے ہیں) وہی لوگ سب سے زیادہ ہم پر اپنی چھاپ چھوڑتے ہیں
اور : ہمیں انہیں کھونا پڑتا ہے جنہیں ہم چاہتے ہیں تاکہ ان کی اہمیت جان سکیں

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply