ہاں میں ثنا خوانِ تقدیس مغرب ہوں ۔۔۔۔صاحبزادہ عثمان ہاشمی

منتظمین مملکت کا اپنی رعایا سے اس قدر باخبر ہونا کہ ایک انسان تو انسان بلکہ ایک جانور کے بنیادی حقوق میں کمی یا کوتاہی پر بھی جواب دہ ہونا بحیثیت مسلم ہمارا ماضی تو ہو سکتا ہے لیکن حال قطعا ً نہیں ہے ۔۔۔۔۔ا فسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی نام نہاد اسلامی ملک میں وہ نظام حکومت قائم نہیں جو کہ دین اسلام کو حق کی جناب سے عطا ہوا تھا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ عدل و انصاف اور انسانیت پر مبنی وہ سبھی قوانین جو کہ اک زمانے میں اسلامی ریاستوں کے سر کا تاج ہوا کرتے تھے، آج یورپ کے غیر مسلم ممالک میں اپنی اصل کے ساتھ رائج ہیں اور یہاں کی عوام ان سے حاصل ہونے والے فوائد سے مستفید ہو رہی ہے اس کے برعکس اسلامی دنیا کی کیا حالت ہے اسے واضح کرنے کیلئے احتیاج تحریر نہیں ۔

آپ اک چھوٹے سے واقعے سے ہی اندازہ لگائیے کہ یہاں کی حکومتیں اپنی رعایا سے کس قدر باخبر ہیں ۔ افضل قمر صاحب میرے اچھے دوست اور ایک ادبی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں آپ جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں مقیم ہیں کچھ روز قبل ان کی صاحبزادی   کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کا نام ” کونین علی امجد ” رکھا گیا ۔۔۔۔اور یہاں کے قوانین کے مطابق متعلقہ محکمے میں جسے یہاں ” راتھ ہاؤس  ” کہا جاتا ہے درج کروا دیا گیا ۔۔اندراج کے کچھ ہی روز بعد بچے کے والدین کو ” راتھ ہاؤس ” کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس پر بچے کی پیدائش کے حوالے سے مبارکباد وغیرہ کے علاوہ مزید ایک جملہ بھی تحریر تھا یہ کہ ” آپ کو اس پر بھی مبارک دی جاتی ہے کہ آپ نے اپنے بیٹے کا جو نام رکھا ہے وہ جرمنی کی تاریخ میں پہلا نام ہے “۔۔

ریاست کا شہریوں سے اس قدر باخبر ہونا اور بلا کسی مذہبی ، نسلی اور وطنی امتیاز کے ان کے ساتھ معاملہ کرنا شاید یہاں کی عوام کیلئے تو یہ کوئی معمول کا واقعہ یا عمل ہو سکتا ہے مگر ایک پاکستانی کے لئے (کہ جس کے ملک میں ہزاروں کی تعداد میں انسانوں کو ان کا جرم بتائے بنا لاپتہ کر دیا جاتا ہو اور ستر ستر برس کے بوڑھوں کے لاشوں کو لاوارث کہہ کر سڑک کنارے پھینک دیا جاتا ہو ۔۔۔۔جہاں سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر ہمیشہ لاوارث بچوں ” جو اپنانام ،والد کا نام حتی کہ شہر تک کا نام بتاتے ہوں کی مدد اور ان کے گھر تلاش کرنے کی گزارشات کی جاتی ہوں مگر اس کے باوجود ریاست کے پاس اس کا اس قدر اندراج یا ریکارڈ نہ ہو کہ انہیں واپس پہنچا سکے ۔ ۔ ۔

جہاں ریاست کو یہ تک نہ معلوم ہو کہ ہر دن کتنے بچے بھوک پیاس کی وجہ سے مر جاتے ہیں ، جہاں ریاست کو اس امر سے بھی قطعاً  دلچسپی نہ ہو کہ تعلیم جیسے بنیادی حق سے کتنے بچے محروم ہیں ) یہ خط قطعاً  معمولی خط یا عام واقعہ نہیں تھا ۔۔رفیقم افضل قمر مجھے اس خط کی بابت بتا رہے تھے اور میں چشم تصور سے ان معصوم بچوں کے لاشے دیکھ رہا تھا کہ جو تھر سے لیکر بلدستان تک پانی اور خوراک جیسی بنیادی ضروریات سے محرومی کی وجہ سے ” بے نام ” ہی مر جاتے ہیں ۔ میں خیالوں ہی خیالوں میں ان نومولودوں کے مردہ جسم دیکھ رہا تھا کہ جنھیں ان کی ماؤں نے رکشوں، بسوں اور سڑک کنارے جنم دیا تھا کہ ہسپتال تک پہنچنے کیلئے ” امیر شہر ” کے پروٹوکول کو کراس کرنا پڑتا جو کہ ہر جرم سے بڑا جرم ہوتا ہے ۔ اپنے وطن کے حالات اور اپنے ہم وطنوں کے دکھ اور محرومیاں اور اوپر سے ذمہ داران کی بے نیازیاں وہ زخم ہیں کہ جو ہر درد دل رکھنے والے پاکستانی کے دل میں ہمیشہ ہی رہتے ہیں مگر یورپ یا کسی اور مغربی ملک میں رہتے ہوئے جب یہاں کا نظام حکومت جو کہ خالصتاً  اسلام کے قوانین انسانیت سے کشید کردہ ہے ۔

دیکھا جائے اور اس کا موازنہ بر مبنی اسلام ملک پاکستان کے ساتھ کیا جائے تو کچھ سوکھے زخموں کی کھرچنیں پھر سے ادھڑ جاتیں ہیں ۔ اور دل سے اک آہ نکلتی ہےکہ کاش ہمیں بھی ایسے حکمران نصیب ہوں جو اپنی تجوریاں بھرنے بجائے ہمارے معصوم بچوں کے پیٹ کیلئے نوالے کا بھی سوچیں، جو اپنی اولادوں کو بھلے آکسفورڈ کے پائے کے عالمی تعلیمی اداروں سے پڑھائیں مگر ہمارے جگر گوشوں کے لئے بنیادی تعلیم کا انتظام ہی کردیں ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ گو کہ بحیثیت حکمراں حاکموں کی ذمہ داریاں تو بہت کچھ ہیں مگر صرف بنیادی تعلیم اور دو وقت کی روٹی کے انتظام کیلئے ہی اگر کوئی ” نیا حاکم ” مربوط نظام مرتب کر جائے تو ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کو بھی تاریخ میں امر کر جائے گا ۔ اگر ہم اقوام مغرب سے سبق لینے  کی بجائے ان کو ملنے والی ” جہنم ” اور خود کو ملنے والی ” جنت ” کو ہی کافی سمجھتے ہوئے دنیا میں کچھ نہ کرنے کا عزم کیے بیٹھے ہیں تو واللہ غلطی پر ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

اور ہاں ! اہل مغرب کے وہ قوانین اور نظام جن کی بدولت وہ شاہراہ ترقی پر گامزن ہیں اور اپنی رعایا کا احساس اور خدمت کرنے پر جتے ہوئے ہیں کا ذکر کرتے ہوئے مجھے یہ کہتے ہوئے فخر ہے کہ ” ہاں میں ثنا خوان تقدیس مغرب ہوں ” ۔

Facebook Comments

عثمان ہاشمی
عثمان ھاشمی "علوم اسلامیہ" کے طالب علم رھے ھیں لیکن "مولوی" نھیں ھیں ،"قانون" پڑھے ھیں مگر "وکیل" نھیں ھیں صحافت کرتے ھیں مگر "صحافی" نھیں ھیں جسمانی لحاظ سے تو "جرمنی" میں پاۓ جاتے ھیں جبکہ روحانی طور پر "پاکستان" کی ھی گلیوں میں ھوتے ھیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”ہاں میں ثنا خوانِ تقدیس مغرب ہوں ۔۔۔۔صاحبزادہ عثمان ہاشمی

  1. عثمان ہاشمی! بہت اعلیٰ۔ آپ کی یہ تحریر بہت پسند آئی جوکہ مبنی برحقائق ہوتے ہوئے بیمار ذہنوں سے پرانے گڑھے قصوں والے منفی خیالات کو نکال باہر کرنے کا ببانگِ دہل اِذن دے رہی ہے۔

  2. السلام علیکم
    محترم ہاشمی صاحب بظاہر اک عام سی بات کو آپ نے جس خوبصورت اور سیریس انداز میں بیان کر کے ہمارے بلند و بالا دعوے کرنے والوں کو متوجہ کرایا قابل تحسین ہے
    برملا ایک بات کہوں گا کہ آپکی تحریر پڑھ کے مجھے ایک نام رکھنے والے رائٹر محترم اشفاق احمد “” کی وہ باتیں یاد آگئیں جو وہ اپنے ایک پروگرام( تلقین شاہ) میں کیا کرتے تھے اک عام سی بات کو اس انداز میں بیان کرنا کہ لوگ دیر تک اس میں سے اپنی پسند کے موٹی ڈھونڈتے رہیں
    خاکسار دے * کونین علی امجد* نوں رب سوہناں صحت آلی لمی حیاتی دیوے ماپیاں لئی تے خاندان لئی رحمت دا باعث ہووے تے جگ جگ جیوے آمین ثم آمین
    رب سوہناں ساریاں دی آل۔اولاد نوں سلامت رکھے آمین ثم آمین
    بہت شکریہ ہاشمی صا حب سدا ہسدے وسدے روو جی

  3. سب تنقید ہی کرتے ہیں پر عمل پر کون اترےگا بدلاو کے لے صرف عمل کی ضرورت ہے تنقید کرکے صرف اپ اپنا غصہ کم کر سکتے لیکین تبدیلی کے لے اپ میدان میں اترنا پڑیگا اور وہ کون ھو گا پتہ نہیں۔

Leave a Reply