کیا اہل مدینہ موسیقی سننے کے قائل تھے؟-تحریر/حافظ محمد زبیر

دوست کا سوال ہے کہ کیا اہل مدینہ آلات موسیقی سننے کے قائل تھے؟ جواب: فقہی ذخیرے میں عام طور اس کے لیے سماع کا لفظ استعمال ہوا ہے کہ کیا اہل مدینہ سماع کے قائل تھے۔ اب سماع مختلف معانی میں استعمال ہو جاتا ہے کہ جن میں سے ایک آلات موسیقی کا سننا بھی ہے۔ دوسرا لفظ غناء کا استعمال ہوا ہے کہ کیا اہل مدینہ غناء کے قائل تھے۔ اس میں بھی مختلف معانی ہیں کہ جن میں سے ایک کسی لونڈی کا گانا بجانا بھی ہے۔ اہل مدینہ کس قسم کے سماع اور غناء کے قائل تھے تو یہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے اور اس بارے فقہی ذخیرے میں اہل علم کی متعدد تشریحات موجود ہیں اور ہر تشریح کچھ نہ کچھ وزن رکھتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو روایتیں ملتی ہیں، ان کے راوی اور الفاظ مختلف ہیں لہذا واقعہ اور اس کی نوعیت میں بھی اختلاف ہونا لازم ٹھہرتا ہے۔
مختلف روایات کے مطالعہ سے جو بات ہمیں سمجھ آتی ہے، وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بعض خاص مواقع مثلا عیدین اور شادی وغیرہ پر عورتوں اور لونڈیوں کو دُف بجانے کی اجازت دی گئی۔ اس دُف کے بارے بعد میں اختلاف ہو گیا۔ بنیادی اختلاف یہی تھا کہ دُف مطلقا حلال ہے یا خاص مواقع میں اس کی اجازت ہے۔ اکثریت کا موقف یہ بنا کہ دُف کی اجازت خاص مواقع پر ہے لہذا عمومی طور اس کا بجانا جائز نہیں ہے۔ سنن البیہقی میں ہمیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا ایک قول ملتا ہے کہ جس کے باقاعدہ الفاظ ہی یہی ہیں کہ “الدف حرام” یعنی دُف حراف ہے۔
اب ان کا یہ فتوی جس پس منظر میں ہے، تو وہ یہی اختلاف ہے کہ دُف مطلقا حلال تھا یا اصلا حرام تھا اور بعض مواقع پر اس کا استثناء نکالا گیا۔ یہ بات اصول فقہ کا ذوق رکھنے والوں پر واضح ہے کہ شریعت میں کچھ چیزیں سدا للذریعہ حرام ہوتی ہیں یعنی حرام لغیرہ کی قبیل سے ہوتی ہیں جبکہ کچھ حرام لعینہ ہوتی ہیں۔ جو حرام لغیرہ ہو، اس سے استثناء کا ہونا عقلی جواز رکھتا ہے جبکہ فتح الذرائع کی شرائط پوری ہو رہی ہوں۔ خیر یہ اصول فقہ کا موضوع ہے، ہم تفصیل میں نہیں جانا چاہتے کہ سب کے لیے سمجھنا مشکل ہے۔
اہل مدینہ کا جو اختلاف بقیہ شہروں کے فقہاء سے ہوا تو اس کا اصل دائرہ یہی تھا۔ اس لیے جن روایتوں میں یہ عام ہے کہ اہل مدینہ سماع کے قائل تھے یا غناء کے قائل تھے تو اس سے مراد دُف کا استعمال ہی ہے۔ اور جن روایتوں میں معازف کا لفظ ہے کہ وہ کسی معزف کے بجانے کے قائل تھے تو ان سے مراد بھی دف ہی ہے جیسا کہ لسان العرب وغیرہ میں معازف کے معانی میں سب سے پہلے دُف کا ہی ذکر ہے کہ وہ بھی ایک معزف ہی ہے۔ اور جنہوں نے دُف کو حرام کہا ہے تو اسی بنیاد پر حرام کہا ہے کہ سب کے سب معازف حرام ہیں الا یہ کہ جس معزف مثلا دُف کا استثاء ہے اور جن مواقع پر ہے، بس اسی کی اجازت ہے کہ معازف کی حرمت کی بنیاد سد الذریعہ ہے لہذا استثناء جائز ہے۔
البتہ بعض روایتوں میں عُود کے الفاظ بھی آئے ہیں کہ بعض اہل مدینہ کی طرف عُود بجانے کی نسبت بھی کی گئی ہے۔ مالکیہ کی تشریح کے مطابق عُود مربع شکل کا دو طرف سے بند دُف تھا۔ بعض اہل مدینہ نے جو کہ ایک دو ہی تھے، اس کے جواز کا بھی فتوی دے دیا تھا لیکن یہ ایک شاذ قول تھا کہ جسے پذیرائی نہ ملی اور معاصر مدنی اور دیگر فقہاء نے اس کا خوب رد کر دیا تھا۔
ابو بکر الخلال نے امام مالک اور ابراہیم بن المنذر جو کہ مدینہ کے محدث ہیں، سے نقل کیا ہے کہ دونوں سے جب یہ سوال ہوا کہ اہل مدینہ غناء کی بابت رخصت کے جو قائل ہیں تو ان اہل علم کا اس بارے کیا موقف ہے۔ تو دونوں کا جواب یہی تھا کہ یہ ہمارے ہاں کے فساق وفجار کا مشغلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام مزی نے یہ لکھا ہے کہ یعقوب الماجشون وہ پہلے مہذب شخص ہیں کہ جنہوں نے اہل مدینہ میں سے باقاعدہ غناء کی تعلیم حاصل کی اور یہ بھی امام مالک کےمعاصر ہیں۔ یوسف الماجشون انہی کے بیٹے تھے۔
امام قرطبی کا کہنا ہے کہ امام مالک کے بارے یہ مروی ہے کہ انہوں نے بچپن میں موسیقی کا علم سیکھا تھا لیکن پھر اس کو چھوڑ کر علوم دینیہ کی طرف متوجہ ہو گئے تھے اور اسے حرام کہتے تھے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ امام مالک کے بارے معروف ہے کہ وہ حرام کا لفظ استعمال کرنے میں بہت محتاط تھے لیکن انہوں نے غناء کو حرام کہا کیونکہ یہ ان کا کسی زمانے کا ذاتی تجربہ تھا۔ یہ بھی منقول ہے کہ امام مالک نے بچپن میں آلات موسیقی میں سے جو سیکھا تھا، وہ مربع شکل کا دُف تھا۔ بعد میں وہ اس کی حرمت کا فتوی دیتے تھے۔ اور یہی عام طور اہل مدینہ کا موقف تھا۔
پس اہل مدینہ اور دیگر شہروں کے فقہاء میں اختلاف دو مقامات پر پیدا ہوا۔ ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود دُف کی بابت کہ اس کی اجازت مطلقا تھی یا وہ ایک استثناء تھا۔ اور دوسرا یہ کہ اس دُف کی ارتقائی صورت کا بھی وہی حکم ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے دُف کا تھا یا وہ اس میں شامل نہیں ہو گا۔ ظاہری بات ہے کہ یہ اجتہاد اور قیاس کا میدان تھا۔ جنہوں نے آلہ موسیقی ہونے کو حرمت کی اصل قرار دیا اور یہ ایک بڑی جماعت کا قول تھا تو انہوں نے دُف کو خاص مواقع کے ساتھ مستثنی قرار دیا۔ اور جنہوں نے ظاہریت اختیار کی تو انہوں نے دُف کی ارتقائی صورتوں کو بھی محض ظاہری مشابہت کی بنیاد پر جائز قرار دے دیا جیسا کہ عُود وغیرہ اور یہ لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں اور ان کا قول معروف بھی نہ ہو سکا۔
امام احمد نے یحی بن سعید القطان سے نقل کیا ہے کہ جس نے اہل مدینہ کی
اپنی بیوی سے دبر میں جماع کرنے اور غناء کی بابت جواز کے فتوی پر عمل کیا یا اہل مکہ کے متعہ کے جواز کے بارے فتوی پر عمل کیا یا اہل کوفہ کے نبیذ کے جواز کے بارے فتوی پر عمل کیا تو وہ فاسق وفاجر ہے۔ اب سب کو معلوم ہے کہ اہل مکہ میں سے کتنے متعہ کے جواز کے قائل تھے یا کتنے اہل مدینہ بیوی سے دبر میں جماع کے قائل تھے۔ یہ اتنے ہی لوگوں کا قول تھا کہ ہمارے ہاتھ انگلیاں ان سے زیادہ ہیں لہذا ایک شاذ اور مرجوح رائے تھی جو خود ان شہروں میں قبولیت حاصل نہ کر سکی۔ امام قرطبی کا کہنا ہے کہ سلف میں ابراہیم بن سعد اور عبید اللہ العنبری کے علاوہ سب کا موسیقی کی حرمت پر اجماع ہو چکا تھا۔
البتہ بعد میں آنے والے فقہاء نے ایک اور بحث پیدا کی ہے اور وہ بہت اہم ہے۔ وہ بحث یہ ہے کہ دُف کے علاوہ طبل کی خاص مواقع پر اجازت ہے یا نہیں جیسا کہ طبل جنگ یا سحری کے وقت کی اطلاع دینے یا روزہ افطار کرنے کے وقت طبل بجانا تو فقہاء کی ایک جماعت نے اس کی اجازت دی ہے۔ اور بنیاد یہ بیان کی ہے کہ اس کا مقصد لہو ولعب نہیں ہے اور یہ دل کے فساد کا سبب اور باعث بھی نہیں بنتا۔ اسی بنیاد پر ہمیں یہ سمجھ آتی ہے کہ آلات موسیقی کی بابت تین رویے ہیں۔ ایک تو جمہور فقہاء کا ہے کہ جس میں عافیت ہے کہ ہر آلہ موسیقی حرام ہے اور بعض مخصوص مواقع پر مخصوص آلات کی اجازت ہے۔ دوسرا ظاہری ایپروچ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے دُف پر بعد میں آنے والے دُف کی ارتقائی صورتوں کو محض ظاہری مشابہت کی بنیاد پر جائز قرار دے دیا گیا اور یہ نہیں دیکھا گیا کہ دونوں میں جوہری فرق کیا ہے۔ تو یہ سطحی ایپروچ ہے۔ البتہ ایک تیسری ایپروچ اجتہادی ہے کہ روایات میں جن آلات موسیقی کو جائز کہا گیا یا جن کی رخصت دی گئی، کسی علت کی بنیاد پر ان سے ملتے جلتے آلات کی اجازت ہو جبکہ غالب مقصد لہو ولعب نہ ہو بلکہ تعلیم وتربیت یا کسی حد تک تفریح ہو۔ اور جن آلات موسیقی کو روایات میں حرام قرار دیا گیا ہے تو ان کی حرمت اور علت کی بنیاد پر ان سے ملتے ارتقائی آلات کی بھی حرمت کا فتوی دیا جائے۔ ہماری سابقہ پوسٹ میں اس پر تفصیل سے بحث موجود ہے۔
ہم یہ پہلے عرض کر چکے ہیں کہ ہمیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اصلا کچھ خاص فریکوئینسی کی آوازیں حرام ہیں جو فساد قلب کا سبب اور باعث ہیں جیسا کہ بانسری اور ڈھول کی آواز وغیرہ۔ اور کچھ آوازیں جائز ہیں جو کہ فساد قلب کا باعث نہیں بنتیں جیسا کہ دف کی آواز۔ اب اگر کوئی شخص بانسری سے دف کی آواز نکال لے تو بانسری جائز ہو گی۔ اور اگر دف سے بانسری کی آواز نکال لے تو دف جائز نہ ہو گا۔ یہی حکم ووکل میوزک کا بھی ہے کہ منہ سے بانسری اور ڈھول بجانا حرام ہے۔ لہذا میوزک انڈسڑی غزل سے پوپ میوزک تک تو کل کی کل حرام ہے کہ اس کا مقصد لہو ولعب ہے اور فساد قلب کا باعث ہے۔ لیکن جہاں مقصد لہو ولعب نہ ہو یا فساد قلب کا اندیشہ نہ ہو جیسا کہ نیوز، بچوں کی رائمز اور کارٹونز وغیرہ میں بیک گراونڈ میوزک تو یہ قیاس کا دائرہ کار ہے۔
نوٹ: میں نے بہت عرصہ میوزک سنا ہے اور ہر قسم کا سنا ہے۔ اور میں یہ بات علی وجہ البصیرۃ کہتا ہوں کہ اگر شریعت میں اس کی حرمت کی کوئی دلیل نہ بھی ہوتی تو بھی اسے فساد قلب کے سبب حرام کہنے کا فتوی دیتا حالانکہ میرا یہ مزاج نہیں ہے کہ عموما حرام کا لفظ استعمال نہیں کرتا ہوں۔ میں نے بیسیوں مرتبہ اس کا تجربہ کیا کہ عبادت سے پیدا ہونے والی کیفیات میوزک کے سننے سے جاتی رہتی ہیں اور دل پر ایک غبار طاری ہو جاتا ہے جو تعلق مع اللہ میں مانع اور رکاوٹ بن جاتا ہے، بھلے وہ میوزک حارث کی سلام علیکم کا ہو۔ اور یہی فقہاء کے قول کا مفہوم بھی ہے کہ یہ ایسی بات ہے کہ جس کا تجربہ ہم میں سے اکثر کو ہوتا ہے۔ امام ابن تیمیہ نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ جو یہ سمجھتا ہے کہ میوزک سننے سے تعلق مع اللہ بہتر ہوتا ہے تو وہ زندیق ہے۔ ہم یہ بات تو نہیں کہتے لیکن اتنا ضرور کہتے ہیں کہ ایسا کہنے والا صریح غلطی پر ہے اور ایک باطل شبہے میں پڑا ہے۔ خیر اس پر ہم تفصیل سے ایک علیحدہ پوسٹ میں بھی گفتگو کر چکے ہیں۔ جزاکم اللہ خیرا

Facebook Comments

حافظ محمد زبیر
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی ہیں اور کامساٹس یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آپ تقریبا دس کتب اور ڈیڑھ سو آرٹیکلز کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply