تباہ حال/شیرانی راجا پکسے/مترجم: خلیل الرحمان

اپنے دھیان میں مگن وہ سڑک پر چلی جا رہی تھی جب اسے اپنے سامنے ایک دھماکے کی آواز سنائی دی ۔دھماکے سے مضبوط حفاظتی باڑ ٹوٹ گئ اور اس کے ٹکڑے سارے میں پھیل گئے۔وہ وہیں ٹھہر گئ کیونکہ اس کے پاس جانے کیلئے اور جگہ بھی کوئی نہیں تھی۔اس کے پاؤں فضا میں معلق تھے اور بال سڑک کی پگڈنڈی پر بکھرے ہوئے تھے۔ اس کے اردگرد روشنی کے کوندے سے چمک رہے تھے اسے اپنے سر میں مسلسل گونجدار آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ اس کے بائیں کان کے پردے میں تواتر سے زوں زوں کی آوازیں آ رہی تھیں جو کہ اس مسلسل ہوتی ہوئی چنگھاڑ میں سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ نقاہت کے عالم میں اس نے کن اکھیوں سے اپنے کان کے پردوں کو بغلی راستے پر تیزی سے گرتے ہوئے دیکھا، یوں لگا جیسے انھیں اس کے کانوں میں مسلسل گونجنے والے شور سے پرے کسی بھی جگہ کہیں دور جانے کی جلدی تھی ۔
ندیشا جانتی تھی کہ وہ زمین پر گری ہوئی تھی کیونکہ اسی دوران کوئی بہت تیزی سے دوڑتا ہوا اس کے ہاتھ کو کچل کر کسی دوسری سمت کو نکل گیا تھا۔لیکن وہ اپنے سر کے عین اوپر چمکتے ہوئے سورج اور ویساک کے تہوار کے دوران گھروں اور سڑکوں کے ساتھ روشن نیلے، سرخ، زرد اور سبز رنگوں کی بے بہا روشنیوں کی وجہ سے یہ نہ دیکھ پائی کہ وہ کون تھا۔ندیشا نے چلانے کی کوشش کی لیکن سڑک بھی اس کی آواز کی طرح تباہ حال اور کٹی پھٹی حالت میں اس کے ساتھ ہی زمین پر پڑی آہیں بھر رہی تھی۔ وہ ناں سن سکتی تھی ناں تو دیکھ سکتی تھی اور ناں ہی بول سکتی تھی۔ اس کی حالت ان تین سیانے بندروں کی سی ہو چکی تھی جو کہ ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے ہوں۔ کیا ہوا ؟
وہ ہلنے جلنے کے قابل نہ تھی۔ ندیشا نےخود کو اسی سڑک کے فرش پر گرے ہوئے محسوس کیا جو کہ کچھ عرصہ قبل تک اسے خود پر سیدھا چلائے رکھتی تھی۔ اسے کچھ محسوس ہو رہا تھا مگر وہ یہ بتانے سے قاصر تھی کہ وہ کیا تھا؟ کیا یہ اس کے ساتھ ہی پڑا ہوا اس کا اپنا بازو تھا جس پر لوگ چڑھ رہے تھے یا پھر ایک بھدے سے انداز میں بکھری پڑی اس کی ٹانگ تھی ؟ وہ حیران تھی کہ آخر کیا تھا یہ سب ؟ تبھی اسے احساس ہوا کہ وہ اب وہاں نہیں تھی۔
کسی نے سڑک پر چلنے کے لیے اسے دائیں طرف کھسکا دیا تھا۔ اس عورت نے اپنے سینے کے ساتھ بم باندھ رکھے تھے اور وہاں سے تھوڑی دور آگے کی طرف جا کر اس نے خود کو اڑا دیا۔ یہ بہت بڑا دھماکہ تھا جس کی آواز ندیشا نے سنی، بادلوں کی گڑگڑاہٹ سے بھی ہولناک اور پرشور، اور یہ پہلے والے دھماکے سے زیادہ سخت تھا۔اب وہ وہاں نہیں تھی ۔ لیکن پھر بھی ندیشا نے خود کو حرکت کرتے ہوئے محسوس کیا، وہ اس سمت میں جانا چاہ رہی تھی جہاں اسے جانا تھا۔ لیکن کیسے اور کہاں؟ اسے اپنے گرد شدید حدت سی محسوس ہوئی۔ اس کے گرد جوہڑ سا بن رہا تھا لیکن بارش تو ہوئی ہی نہیں تھی۔ روشن سورج ، گندے پیچدار سیاہی مائل دھوئیں میں سے اس پر چمک رہا تھا۔ جوہڑ ایک چھوٹا سا تالاب بنا اور پھر اس تالاب نے ایک ندی کی شکل اختیار کر لی۔پھر اس ندی نے پانچ میل کی مسافت پر واقع سمندر کی جانب چلنا شروع کر دیا ۔ اس کے جسم سے بہنے والی رطوبتیں پگڈنڈی پر سے ہوتی ہوئی سڑک پر بکھر رہی تھیں۔
بہت جلد یہ سمندر کا حصہ بن جائیں گی اور اس کو اس بات کا یقین تھا۔ اس نے بہنا شروع کر دیا اور رستے میں دوسرے لوگ بھی اس کے ساتھ شامل ہوگئے۔ چھوٹی چھوٹی ندیاں اپنے سوالوں کے جواب کی تلاش میں ایک ہی سمت میں بہتی چلی جا رہی تھیں۔ انہوں نے ایک دریا کا روپ دھار لیا تھا۔ وہ سمندر کی جانب اس طلب کے ساتھ بڑھے چلے جا رہی تھیں کہ وہ انہیں اپنے اندر شامل کر لے ۔ادھر ان کے چاروں طرف لوگ چیخیں مار مار کر آسمان کو اپنے سروں پر اٹھا رہے تھے ، وہ سب لوگ جن کے سر سلامت تھے۔ وہ دیکھ تو نہیں سکتی تھی اور سن بھی بمشکل ہی سکتی تھی لیکن محسوس سب کچھ کر رہی تھی۔ وہ مکھیوں کی طرح گر رہے تھے اور باقی لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہو رہے تھے۔ اور یہ سب اس لیے ہوا تھا کہ اس نے دہشت گردوں کو چیلنج کرنے کی جسارت کی تھی اور اس دن کام پر نکل آئی تھی۔ لیکن ایسا کرنے میں آخر کیا برائی تھی ؟
٭٭٭٭

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply