عشق خوباں خاکروبی/صادقہ نصیر

اُڑتی خاک کی بے رحمی کے بڑے انوکھےانداز ہوتے ہیں۔ آنکھ میں پڑ جاۓ تو ایسی رڑک ہوتی ہے کہ آنکھیں جلتا پانی بہانے لگ جاتی ہیں اور کبھی تو پورے بدن میں چبھن چھوڑ کر سب کچھ اُڑا لے جاتی ہے۔ لیکن رجو اِسی اُڑتی خاک اور دھول کے مرغولوں اور بادلوں میں پیدا ہوئی۔ زینت بی بی اور صادق مسیح بڑے جی دار تھے۔ سینہ سپر اِسی اُڑتی خاک کے کاروبار میں رجو کو پیدا کر دیا۔ وہ دونوں میاں بیوی کمیٹی کے خاکروب تھے روزانہ صبح تڑکے سائیکل پر اپنی ڈیوٹی پر پہنچ جاتے۔ میاں بیوی ہونے کی وجہ سے دونوں کو ایک ہی علاقہ میں کام کرنے کی سہولت مل گئی تھی۔ وہ دونوں سائیکل پر لڑتے جھگڑتے اور کبھی ہنستے کھیلتے اٹھکھیلیاں کرتے کام پر پہنچتے۔ صادق مسیح منزل پر پہنچتے ہی نعرہ لگاتا

“ چل دفتر آگیا”
زینت کبھی اس بات پر کھلکھلا اُٹھتی اور کبھی جل بُھن جاتی۔
اور کبھی خوشی کبھی غم کے چلن کے ساتھ۔۔
ان کی روزانہ ایک ہی منزل تھی ،جی پی او اور مال روڈ کی سرکاری عمارتوں کے سامنے والی سڑکیں۔ سڑک کے کنارے گنے کے رس والی ریڑھی کے قریب درخت کے نیچے صادق مسیح سائیکل کھڑی کرتا اور دونوں اپنی اپنی سرکاری مراعات میں ملنے والی مخصوص جھاڑو پکڑ لیتے۔

موٹی ہتھی والی تنکوں کی جھاڑو جو خاص کاریگری سے اس طرح بنائ  گئی  تھی کہ ہتھی والے حصّے کو سختی سےاس طرح باندھا جاتا کہ وہ تنکے سکڑ کر اکٹھے ہو جاتے اور ہاتھ کی گرفت میں آ جاتے اور باقی تمام تنکے نیچے سے ایسے بکھرتے کہ کسی گھگھرے کی شکل بناتے۔دونوں اس گھگھرے والی جھاڑو جسے زینت بی بی اپنی زبان میں بوکر کہتی۔ جب دونوں اس گھگھرے والی بوکر کو سڑک
پر پھیرتے تو اجلی ہوتی سڑک ہَوا کے دوش پرتمام دھول صادق اور زینت کے وجود پر انڈیل دیتی اور صادق مسیح اور زینت بی بی کے چہروں پر پڑتی کہ ان کی بھنویں تک سفید ہو جاتیں۔ صادق مسیح کو کھانسی اور زینت بی بی کو ناک میں الرجی ہوتی اور وہ ایک ہاتھ سے ناک رگڑتی رہتی اور دوسرے سے جھاڑو ہلاتی رہتی۔اس الرجی سے بچنے کے لیے  وہ اپنے سر اور منہ پر ٹھاٹھا باندھ کر رکھتے۔

انہی سڑکوں کی دھول صاف کرتے کرتے ان کی گود میں رضیہ آگئی۔ زینت بی بی کو زچگی کے لئے سرکاری چھٹی ملی تو اسے بیٹی کی پیدائش سے زیادہ چھٹی کی خوشی تھی۔مگر تین ماہ کے بعد جب رجو نشوو نما کی منزلیں طے کر   رہی تھی ان دونوں میاں بیوی کو فکر لاحق ہوئی  کہ چھٹی ختم ہونے کے بعد رضیہ جس کو اب زینت بی بی رجو کہہ کر پکارنے لگی تھی اس کو کس کے پاس چھوڑا جاۓ۔ صادق مسیح نے اپنی ماں کو گاؤں سے بلا لیا ۔ رجو کی پرورش اور دیکھ بھال کے لیے  اور کوئی راہ نہ تھی
دن گزرتے گئے ،رجو بھی اب بڑی ہو گئی۔۔

دادی مر گئی تو رجو ماں باپ کے ساتھ ان کے سڑک والے دفتر آنے لگی ۔گنے کی ریڑھی کے ساتھ ہی نیچے سڑک پر بیٹھی دال سیویاں تھال میں رکھ کر بیچنے والی اللہ رکھی کے پاس رجو کو بٹھا کر دونوں
میاں بیوی تیز تیز ہاتھ چلاتے۔ اور اب اس دھول میں رجو بھی شامل ہو گئی تھی۔ ہاتھ میں میٹھی گولیاں اور بسکٹ کے ٹکڑے چوستی اور منڈلاتی گدگداتی مکھیاں اُڑاتی رجو اَب چھ سال کی ہو گئی تھی۔

اسے مکھیاں اور اُڑتی خاک ذرا نہ بھاتی۔ مگر جو چیز اس کے ادراک کو مسحور کرتی وہ گھگھرے والی بوکر تھی جو اسے لگتا کہ   کسی پری نے گھگھرا پہنا ہے اسے ناچتی گھگھرے والی بوکر بڑی مسحور کرتی
وہ بڑے دن چرچ جانے کے لیے گھگھرا پہننے کی فرمائش کرتی مگر زینت بی بی  ہمیشہ کہتی
“ہلے توں چھوٹی ایں وڈی ہوویں گی تے پاواں گے”
ننھی رجو کہتی
اماں وڈی کدوں ہوواں گی؟”
زینت جواب دیتی
“ جدوں تیرا ویاہ ہووے گا”
اور رجو اَب اپنے ویاہ کے خواب دیکھتی
صادق اور زینت  برسوں سے ہر اتوار بڑی باقاعدگی سے چرچ جاتے تھے۔ اسی وجہ سے خدا وند نے ان کی سن لی اور چرچ میں چوکیداری کی نوکری پر لگے لڑکے کا رشتہ آگیا
رجو بہت خوش تھی کہ ٹونی اس کا ہونے والا شوہر برسر روزگار ہے اور سب سے بڑی بات کہ وہ سڑکوں کی صفائی  نہیں کرتا۔

ٹونی رجو کے دھول اور خاک میں اٹی ہوئی جوانی کے خوابوں کی تعبیر تھا۔ گہرے سانولے رنگ کا مگر دھول سے پاک چمکتا چہرہ۔ رجو کو کوئی  اعتراض نہ تھا، بس شادی کے جوڑے کے لئے اس نے ماں باپ سے ایک فرمائش کی تھی
“ اماں میرے شادی کے سفید جوڑے کو بوکر کے ڈیزائن کا گھگھرا بنانا”

ماں باپ ہنس کر قہقہہ لگاتے۔ زینت کہتی”تینوں کتھوں بوکر دے ڈیزین والا گھگھرا پسند آگیا۔”
“بس میں آپے ڈیزین بنایا اے”
زینت مسکراتی اور کہتی”وڈی فیشن ڈیزینر”

نہ جانے بچپن سے اس کے دل  کو  جھاڑو کے بکھرے تنکے ناچتی پری کا گھگھرا کیوں لگتے
ماں باپ نے اس کی خواہش کا احترام کرتے ہوۓ اس کے دلہن والے جوڑے کو درزی سے کہہ کر گھگھرے کی صورت بنوا دیا۔

رجو نے   شادی کے  سفید جوڑے میں ملبوس ہو کر پادری کے سامنے اپنا ہاتھ ٹونی کے ہاتھ میں دے دیا اور یوں رجو گرد، دھول اورخاک کے تھپیڑوں سے بچ کر نکل آئی تھی اور اسی سال بینا کو جنم دیااور بہت خوش رہنے لگی۔

پر رَجو کی خوشی ایک مہمان کی طرح تھی جو جلدی ہی اس کے گھر سے چلی گئی جب یہ پتہ چلا ٹونی نشہ کرنے لگا ہے اور  سوئے  رہنے کی عادت میں چرچ کی لگی نوکری کو چھوڑ کر گھر بیٹھ گیا ہے۔
صادق مسیح نے آنے والے وقت کی مصیبتوں کا اندازہ لگالیا تھا اور جھٹ اپنی لاڈلی رجو کو کسی کی سفارش سے ایک سرکاری محکمے کے ادارے میں خاکروبہ کی اسامی پر  نوکری   لگوا دیا اور یوں رجو نے  موٹے ہتھے والی اور پریوں کے گھگھرے جیسی جھاڑو ہاتھ میں تھام لی۔ رجو قسمت کی اس ستم ظریفی پر بہت روئی۔ وہ ماں کی طرح بوکر نہیں مارنا چاہتی تھی۔وہ تو گھر بیٹھ کر اپنی گڑیا بینا کے ساتھ کھیلنا چاہتی تھی۔پر بینا کی خاطر اس نے خاکروبہ کی نوکری قبول کر لی۔ اور چرچ جا کر خداوند کا شکر کیا اور سوچنے لگی،
“شکر ہے میری گڑیا جیسی بینا بھوکی تو نہیں رہے گی ۔ “میں اسے اچھا کھلاؤں گی اور پڑھاؤں گی۔”

رجو کے شب وروز دو حصوں میں بٹ گئے ۔ ایک حصہ گھر جہاں وہ اپنی سانولی مگر سیاہ چمکتی خوبصورت آنکھوں والی گڑیا بینا سے کھیلتی،اسے کھانا کھلاتی نہلاتی اور ننھے ننھے کپڑے پہناتی کھانا پکاتی ساس کی خدمت کرکے اس کی گالیاں اور طعنے سنتی۔ جب ساس کی مہربانیوں کا پیریڈ ختم ہوتا تو نشئ شوہر کی مغلظات،جھک جھک اور ٹانگوں اور ہاتھوں سے دھنائی  کا دور شروع  ہوتا۔ اس کا محرک ہمیشہ یہی ہوتا کہ وہ اپنے ٹونی کو پیار سے نشہ چھوڑنے کی ترغیب دیتی اور کام کرنے کا کہتی۔ ٹونی ہمیشہ مشتعل ہو جاتا اور رجو کا جسم عتاب کا نشانہ بنتا۔

اس کی زندگی کے دنوں کا دوسرا حصہ سرکاری محکمے کا وہ دفتر تھا جہاں وہ ٹونی کی مار سے پڑنے والے نشانات اور سوجے ہوۓ چہرے کو دوپٹے کی بکل سے چھپا کر روز ہی جاتی۔ اس کی کبھی غیر حاضری نہ لگتی  اور نہ وہ غیر حاضر ہونا چاہتی تھی۔ ٹونی اور ساس سے  اس کوآٹھ گھنٹے کے لیے  پناہ مل جاتی۔ وہ سویرے ہی آجاتی۔ کپڑے بدلتی اور کام میں لگ جاتی۔ افسر اور تمام عملہ اس سے خوش تھے۔ پورے دفتر کو چاۓ کے وقفے سے پہلے چمکا کر رکھ دیتی۔ اور پھر صاف کپڑے دوبارہ زیب تن کرتی ،شاپر میں سے دسترخوان میں لپٹی روٹی جس پر کبھی اچار اور کبھی رات کا بچا سالن رکھا ہوتا نکالتی اور کھاتی جاتی۔ وہ ہمیشہ فرش پر ٹانگیں پسار کر بیٹھتی۔ بڑی آن بان والی تھی۔ اسے پتہ تھا کہ اس کے بنچ پر بیٹھنے کو معیوب سمجھا جاۓ گا ۔ اسے اس بے عزتی کا بڑا خوف رہتا۔اس لیے پہلے ہی اپنی نشست کا ا ہتمام کر لیتی۔

درجہ اوّل کے دوسرے ملازمین بینچ پر بیٹھتے۔ اور خوب ہنسی مذاق کرتے۔ رجو فرش پر بیٹھے بیٹھے ان کے ہنسی مذاق اورباتوں میں شامل رہتی۔ وہ سب اپنے اپنے گھروں کے دکھ غم اور انجانے میں نعمت غیر مترقبہ کے طور پر ہونے والی اچانک خوشیوں کا ذکر کرتے، کمیٹی نکلنے کے بعد یہ بھی موضوع زیر بحث ہوتا کہ کس کو کمیٹی کی رقم کی سر دست ضرورت ہے۔ وہ التجا کر لیتا کہ مجھے دے دو۔

رجو سب کی نظر میں بہت سخی تھی وہ ہمیشہ رضا کار بن جاتی ۔ نذیر چپڑاسی کثیرالبال تھا اور اپنی خود کی پیدا کی ہوئی  مصیبتوں کی وجہ سے مقروض رہتا۔ اور اپنی باری سے پہلے کمیٹی کی رقم بھی پہلے لے لیتا۔ کوئی  دینے کو تیار نہ ہوتا تو اسے رجو کی منت کرنا پڑتی۔
“ ہاں میری کمیٹی نکلی تاں لےلئیں”
نذیر رجو کی سخاوت کے عوض اسے چاۓ بنا دیتا اور اب رجو کے لیے سب نے آہستہ آہستہ بینچ پر ساتھ بیٹھنے کی اجازت بھی دے دی۔ رجو اپنا خاص خیال رکھتی۔ دفتر کی صفائی  سے فارغ ہو کر جاپانی ریشمی سوٹ زیب تن کرتی، کنگھی کرتی, خوش بو لگاتی اور شال کو سلیقے سے کندھوں پر لپیٹ لیتی۔ خوش مزاجی, خوش لباسی اور خوش گفتاری کے علاوہ ہر وقت ہنستی مسکراتی رجو کے بغیر کسی کا دل نہ لگتا ۔ ٹونی سے پٹنے اور ساس کی بک بک کو بھی لطیفوں کی طرح سناتی جیسے ان سانحوں سے اسے کوئی  فرق نہیں پڑتا۔

اکبر چوکیدار رات کی ڈیوٹی کے باوجود دن کا سارا وقت اسی دفتر کے برآمدے میں گزارتا۔افسر کو بھی اعتراض نہ تھا۔ افسر کے اپنے گھر کے اوپر کے کام کر دیتا۔ اور اس طرح درجہ اول کے یہ تمام ملازمین اپنی اور افسروں کی مطلبی دنیا میں اپنی اپنی بقا کے چور دروازے وا رکھتے اور برآمدے میں پڑی لکڑی کی اس پتلی بینچ کو موسم کے مطابق سرکاتے رہتے۔ کبھی جاڑوں کی گلابی دھوپ میں سوکھی گھاس پر اور کبھی چلچلاتی گرمی میں بڑے درخت تلے اور دھوپ چھاؤں کھیلتے سرکاری نوکری کے دن بِتاتے رہے۔ دفتر کا کلرک بھی اگر آبیٹھتا تو سب باؤ سے اپنی اپنی پینشنوں کے کھاتے کھول کھول کر حساب لگواتے کہ اخیر عمر میں خدا نے ان کے لئے رزق کا کتنا حساب رکھا ہوا ہے۔

اسی دھوپ چھاؤں کے آتے جاتے موسموں میں رجو اور اکبر چوکیدار کی محبت پروان چڑھنے لگی۔ دونوں میں اگرچہ کوئی  قدر  مشترک نہ تھی ماسواۓ
ایک مرد اور عورت کی کشش کے۔ مذہب اور عمروں کے تفاوت کے باوجود درجہ اول کے ملازمین اس توہین پر چنداں انگشت بدنداں نہ ہوتے۔ اگرچہ سب ہی رجو کے دیوانے تھے۔ رجو سب کے روٹی کے چکروں میں الجھے ذہنوں ملگجے کپڑوں میں ملبوس زرد جسموں اور زیست کی ستم ظریفیوں میں ایک مہربانی تھی۔

مارچ کا ایسا ہی معمول کا دن تھا جس کو محکمے کے افسراعلیٰ  نے غیر معمولی بنا دیا تھا۔ اچانک دفتر کا مین گیٹ کھلا افسر اعلی جیپ سے اتر کر سرپرائز وزٹ کے لیے  اندر داخل ہوا۔ اندر داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اس کی نظر دھوپ میں رکھی پتلی سی لکڑی کی بینچ پر پڑی۔ وہ اور تیز قدم ہو گیا۔ اندر دفتر میں باقی عملہ متحرک ہو گیا۔ لیکن افسر اعلیٰ  پتلی بینچ کی جانب بڑ ھا اور رک گیا۔ جہاں رجو بینچ پر آر پار ٹانگیں لٹکاۓ بیٹھی روٹی کھا رہی تھی اور اکبر چوکیدار بھی بینچ کے دوسرے کونے میں آر پار ٹانگیں لٹکاۓ بیٹھا تھا۔ اکبر گرم گرم چاۓ کے گھونٹ بھرتا اور آہستہ سے بینچ پر کچھ دیر کو رکھتا پھر مگ اٹھا کر ہونٹوں سے لگاتا ۔ اس کے چہرے سے رجو کے ساتھ بیٹھ کر چاۓ پینے کی پُر کیف سرشاری دیکھی اور پڑھی جا سکتی تھی۔ رجو بھی نوالے منہ  میں ڈالتے کچھ ایسی ہی سرشاری میں جھوم رہی تھی کہ اچانک افسر اعلیٰ  کی کرخت آواز نے ان دونوں کو ایک زلزلے سے روشناس کرایا۔
“ اوۓ یہ کیا ہو رہا ہے”
اکبر بری طرح سے بوکھلا گیا۔اور مگ سمیت اٹھ کر کھڑا ہونے لگا تو مگ چھلک گیا اور دونوں جانب لٹکائی  ہوئی  ٹانگوں کو اکٹھا کرکے قدموں کو سنبھال کر بمشکل سیدھا ہوا اور خوف سے کانپنے لگا۔ شرمندگی سے آنکھیں اندر دھنسی لگنے لگیں۔
افسر اعلیٰ  پھر دھاڑا
“کیا ہو رہا تھا یہ “
اکبر نے جواب دیا
“سر جی چاۓ پی رہے تھے “
“ چاۓ پی رہے تھے یا فحاشی ہو رہی تھی”
نہیں سر جی”
نہیں سر جی کے بچے ایک خاکروبہ کے ساتھ بیٹھ کر رومانس لڑا رہے تھے”
” اور توں کی کردی ایں ایتھے”
روٹی کھاندی أں سر جی ”
” کم نئیں تینوں کوئی”
افسر اعلی ٰ پھر دھاڑا
رجو بلا خوف منہ  میں موجود نوالے کو مکمل حلق سے اتار کر بے اعتنائی  سے بولی
“ کم سارا مکا لیا اے تے ہن تھکے ٹوٹے پکھ لگی تے روٹی وی نہ کھائے سر جی””
اوے روٹی ایتھے بہہ  کے کھاندی ایں اووی اک مرد دے نال بہہ کے”
سر ہور کتھے بہہ کہ کھائیے؟”
” تے نال غیر مرد بٹھا کے؟”
افسر اعلی کا غصے سے لال منہ  اور غضبناک ہوا تو رجو کی بے باکی نے بھی رفتار پکڑی
بولی
“ سارے دفتراں وچ مرد عورتاں کٹھے بہہ  کہ چاء  پیندے نیں”

بکواس کرتی ہو وہ سب کولیگ ہیں۔
سر جی اسیں وی کولیگ آں۔ساڈے کول میز کرسی نئیں تے اساں بینچ تے چا روٹی رکھ کے کھانی اے۔ ”
رجو بلا خوف بولتی گئی
عشق لڑانے واسطے تمہیں یہ خاکروبہ ملی تھی؟”
اب کے افسر اعلیٰ  نے رجو کے منہ لگنا مناسب نہ سمجھا تو وہ اکبر چوکیدار سے مخاطب ہوا جو خوف سے کپکپا رہا تھا

“تم دونوں شادی شدہ ہو شرم نہیں آتی تم کو”
افسر اعلیٰ  پھر دھاڑا
سر جی دفتراں وچ سارے ای شادیاں والے نیں ”
رجو زبان درازی پر اتر آئی تھی
” کیہہ  مطلب”
افسر اعلیٰ  سمجھتے ہوۓ بھی انجان بننے لگا
“ سر جی میرا منہ نہ کھلاؤ  ۔تسیں افسراں نے وی دفتراں وچ جوڑیاں بنائیاں نیں ”

اتنے میں انچارج افسر نکلا اوربولا”کیا معاملہ ہے جناب؟”
آپ کے دفتر میں سر عام فحاشی ہو رہی ہے اور آپ کو علم نہیں۔ یہ دونوں ڈیٹنگ کر رہے ہیں۔ ان دونوں کو ایک ہفتے کے لئے تنخواہ کاٹ کر معطلی کی جاۓ۔”
افسر اعلی نے نتھنے پھلاتے ہوئے ان دونوں ملزمان کی طرف دیکھا اور بولا مسماتہ رضیہ بی بی خاکروبہ اور اکبر چوکیدار کا۔۔”
تے سر جی تسیں وے تے اپنے دفتر وچ دوجیاں عورتاں نال چا ء پیندے او۔ تسیں وی تے عشق لڑاندے او،تے تہاڈی تے کوئی  تنخواہ نئیں کٹدا۔ سر جی عشق ساڈا وی حق اے پانویں اسیں خاکروب ای سہی۔ ساڈا وی حق اے
“زبان چلاندی ایں”
“سر جی سچی گل اے”
قریب کھڑا اکبر کانپ اٹھا۔ انچارج افسر بولا
“سر آفس میں آئیں بیٹھتے ہیں”
افسر انچارج نے افسر اعلی ٰ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ افسر اعلیٰ نے بھی بھڑاس نکال لی تھی۔ خجل سا ہو کر اکبر سے مخاطب ہوا۔
“آئندہ محتاط رہنا”
اور بڑبڑاتا ہوا آفس میں چلا گیا
کچھ دیر بعد کمرے سے نکلا اور بولا,
“اوقات دیکھو عشق کرنے چلے ہیں خاکروبہ مسماتہ رضیہ اور اکبرچوکیدار۔”
“کیا خوب عشق ہے ۔عشق خوباں خاکروبی”۔

وہ طنز اور تماش بینی کے ملے جلے تاثرات لیے  مسکرایا او مسکراتا ہوا تیزی سےجیپ میں بیٹھ گیا۔
اور رجو نے بھی ایک باغیانہ قہقہ لگایا اور دونوں ہاتھوں سے تالی پیٹی

Advertisements
julia rana solicitors

اور پاؤں گھسیٹتی ہوئی بر آمدے میں داخل ہوتے ہوۓ بڑبڑائی۔
” مغروں لتھا”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply