رودادِ سفر(38)۔۔شاکر ظہیر

مہمانوں کے آ جانے سے میں بھی ایک سائیڈ پر ہو گیا اور اپنی زوجہ محترمہ کو کال کر کے اپنے حالات کی رپورٹ پیش کرنے لگا ۔ وہ بھی ہر بات کی تفتیش کر رہی تھی جو اس کی عادت تھی اور میں بھی تفصیلی بتا رہا تھا کیونکہ بلوچستان پہنچنے کے بعد بہت سے علاقوں میں موبائل سگنل نہیں ہوتے اس لیے رابطہ نہیں ہو سکتا ۔
مہمانوں کے جانے کے بعد میں اور مسٹر جھن ( Chen ) دوبارہ محفل لگا کر بیٹھ گئے ۔ مسٹر وانگ مہمانوں کے ساتھ ہی باہر نکل گئے ۔
میں نے انہی دنوں یوجن تاؤ ( Hu Jintao ) کی حکومت سے معذولی اور شی جن پین ( Xi Jinping ) کے برسر اقتدار آنے کے حالات کے بارے میں بات شروع کی کہ موجودہ  صدر نے سابقہ صدر اور ان کی فیملی پر کرپشن کے شدید الزامات لگائے ۔ اس کے علاؤہ سابقہ حکومت کے کئی عہدیداروں کو کریشن کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا اور کئی ایک جان بچا کر ملک سے فرار ہو گئے ۔ مسٹر چھن نے بتایا کہ موجودہ حکومتی دھڑا ماؤ نواز سخت گیر دھڑا کہلاتا ہے ۔ اور سابقہ اعتدال پسند دھڑا جس کی ابتداء تنگ شاؤ پین ( Deng Xiaoping ) سے ہوئی اور چائنا نے انہی کے دور میں ترقی کی اور عوام نے خوشحالی دیکھی ۔ ماؤ کی وفات کے بعد یہ ترقی پسند دھڑا ہی اقتدار میں آیا ۔ ماؤ کی پالیسیوں سے قوم تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی جیسے ہم نے سابقہ نشست میں گریٹ لیپ فارورڈ کی بات کی۔

ترقی کے جو خواب انقلاب کی جدوجہد میں دیکھے دکھائے  گئے انہیں حاصل کرنے کےلیے بغیر کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساری قوم کو کام پر لگا دیا گیا ۔ لوگوں نے کھیتی باڑی چھوڑ کر فولاد کی بھٹیوں میں کام کرنا شروع کر دیا ۔ پروفیسر اور سٹوڈنٹ کو یونیورسٹیوں سے اٹھایا گیا اور ایسے ہی کاموں میں لگا دیا ۔ اس منصوبے نے قحط کی صورتحال پیدا کر دی جس سے لاکھوں لوگ ہلاک ہو گئے ۔ اسی دوران کچھ عجیب و غریب جنونی منصوبے شروع کیے گئے جس میں مکھی مچھر اور چڑیوں کا خاتمہ بھی شامل تھا ۔ ان منصوبوں کی ناکامی اور بہت بڑی تعداد میں ہلاکتوں نے ماؤ کی شخصیت اور کیمونسٹ انقلاب پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ۔ اپنی ساخت کو بحال کرنے کےلیے 1966 سے لے کر 1976 ماؤ کی وفات تک سیاسی اور سماجی تحریک چلائی گئی جسے کلچرل ریولوشن کا نام دیا گیا ۔ اس تحریک کا مقصد یہ بیان کیا گیا کہ سرمایہ دارانہ اور روایتی عناصر کو ملک سے پاک کر کے چینی کیمونزم کو بچانا اور ماؤ کے نظریات کو ملک میں نافذ کرنا ہے ۔

ماؤ کے ترقیاتی منصوبوں کی پارٹی کے اندر موجود اعتدال پسند دھڑے نے شدید مخالفت کی ۔ ماؤ نے الزام لگایا کہ کیمونسٹ مخالف عناصر حکومت اور معاشرے کے اندر گھس آئے ہیں ۔ تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ، پورے ملک کے نوجوانوں کو ریڈ گارڈ کے نام سے منظم کیا گیا جو ٹرینوں کے ذریعے دارالحکومت بیجنگ پہنچ گئے ۔ ماؤ کے اقوال کا مجموعہ ریڈ بک کے نام سے ترتیب دیا گیا اور وہ نوجوانوں کےلیے کتاب مقدس بن گئی ۔ ریڈ گارڈ نے چار پرانی چیزوں کے خاتمے کا منصوبہ پیش کیا پرانی روایات ، کلچر ، عادات اور پرانے خیالات ۔ ان ریڈ گارڈ کی پشت پر ماؤ اور ان کی پارٹی کے اندر موجود سخت گیر عناصر تھے ۔

ریڈ گارڈز نے سب سے پہلے ملک بھر میں اعتدال پسند عناصر کے خلاف ریلیاں نکالیں اور مقامی حکومتی اداروں پر قبضہ کر لیا ، انقلابی کمیٹیاں قائم کیں ۔ یہ ریڈ گارڈ اس حد تک طاقتور ہو گئے کہ کسی کے کنٹرول میں نہ رہے ۔ 1969 میں اس تحریک کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا ۔ لیکن اس کے باوجود تحریک کا فعال مرحلہ 1971 تک جاری رہا ۔ 1972 میں یہی سخت گیر گروہ جسے گینگ آف فور کہا جاتا ہے اقتدار میں آیا اور ماؤ کی 1976 میں وفات کے بعد گرفتار ہوا۔

یہ تحریک بدامنی اور تشدد سے عبارت تھی اور اس تحریک کے دوران دو لاکھ پچاس ہزار افراد کی اموات واقع ہوئی ۔ قتل عام بیجنگ سے شروع ہوا پھر اس میں گوانگشی ( Guangxi ) صوبے میں بڑا پیمانے پر نسل کشی کی گئی ، یونان ( Yunan ) صوبے کا قتل عام ، گوانگ ڈونگ ( Guangdong ) صوبے کا قتل عام ۔ ان ریڈ گارڈز نے ثقافتی اور مذہبی مقامات کی توڑ پھوڑ  کی ۔ اس قتل عام میں مخالفین کے سر قلم کیے گئے ، زندہ دفن کیا گیا ، سنگسار کیا گیا ، اعضاء  الگ کیے گئے ، دل ، جگر کو نکال دیا گیا ، بارود سے اڑا دیا گیا ۔ ایسے بہت سے وحشیانہ طریقے اختیار کیے گئے ۔ کچھ رپورٹس کے مطابق گوانشی (Guangxi ) صوبے میں 421 انسانوں کو قتل کر کے ان کا گوشت بھی کھایا گیا ، کھانے والوں میں 113 سرکاری اہلکار شامل تھے ۔ ایک شخص جو کہ صحت مند اور موٹا تھا مقامی ریڈ گارڈز نے پکڑ کر قتل کیا اور اس کا گوشت بیس لوگوں میں تقسیم کر دیا ۔ ایک خاتون ریڈ گارڈ لیڈر نے چھ افراد کے جگر کو پکا کر کھایا اور پانچ مرد افراد کے اعضاء مخصوص کو شراب میں ڈبو کر پی لیا کہ یہ اس کی صحت کےلیے مفید ہے ۔ قتل کیے جانے والوں میں کاروباری افراد یا زمیندار تھے اور انہیں انقلاب مخالف گردانا گیا ۔ بہت سے پروفیسر اور سائنس دانوں نے خودکشی کر لی ۔

ریڈ گارڈز نے یونیورسٹیوں پر قبضہ کر لیا اور تمام پروفیسر اور اسٹوڈنٹس جن کے بارے میں شک تھا کہ وہ ماؤ کے سخت گیر نظریات کی مخالفت کرتے ہیں انہیں برے طریقے پر زدوکوب کیا گیا اور انتہائی توہین آمیز سلوک کیا گیا ۔ بہت بڑی تعداد کو قتل کر دیا گیا اور بہت سے ذہین اور قابل لوگوں نے اس بے عزتی کے خوف سے خودکشی کر لی ۔ یہ جنون اس حد تک تھا کہ ایک شخص نے اپنی والدہ جو کہ یونیورسٹی میں پروفیسر تھیں اور ماؤ کی سخت گیت پالیسیوں پر تنقید کرتی تھی کو گرفتار کروایا اور ہجوم کے سامنے ذلیل و خوار کیا ۔ پھر یہ جنونی اس حد تک طاقتور ہو گئے کہ کسی بھی شخص پر انقلاب مخالف کا الزام لگا کر قتل کر دیتے ۔ آخر کار انہیں قابو کرنے کےلیے فوج بھیجنی پڑی۔

بیجنگ میں چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے ہیڈ کوارٹر میں کام کرنے والے 171 سینئر ممبران میں سے 131 کو زدوکوب کیا  گیا اور چین میں اکیڈمی کے تمام ممبران میں سے 229 کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ۔ ستمبر 1971 تک چنگھائی ( Qinghai ) میں چین کے جوہری مرکز کے عملے کے 4,000 سے زائد ارکان پر تشدد کیا گیا ۔ ان میں سے 310 سے زیادہ مستقل طور پر معذور ہو گئے ، 40 سے زیادہ لوگوں نے خودکشی کی، اور 5 کو پھانسی دے دی گئی ۔

جب تحریک نے دیہی علاقوں کا رخ کیا تو شہری علاقوں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو زرعی علاقوں میں رہنے اور کام کرنے کے لیے بھیجا گیا تاکہ کسانوں کو تعلیم دی جا سکے اور اس کے ساتھ یہ نوجوان خود ہاتھ سے کام کرنے کی اہمیت کو سمجھ سکیں ۔ ابتدائی مراحل میں زیادہ تر نوجوانوں نے رضاکارانہ طور پر حصہ لیا ۔ بعد میں حکومت نے ان میں سے بہت سے لوگوں کو ان دیہی علاقوں میں نقل مکانی پر مجبور کیا ۔ 1968 سے 1979 کے درمیان چین کے 17 ملین شہری دیہی علاقوں کو چلے گئے اور دیہی علاقوں میں رہنے کی وجہ سے وہ اعلیٰ تعلیم کے مواقع سے بھی محروم رہے ۔ اس مصیبت زدہ اور اعلیٰ تعلیم سے  محروم کیے گئے افراد کی پوری نسل کو ‘ کھوئی ہوئی نسل ‘ کہا جاتا ہے ۔ ماؤ کی وفات کے بعد کے دور میں زبردستی منتقل کیے جانے والوں میں سے بہت سے لوگوں نے اس انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی پالیسی کے خلاف آواز اٹھائی ۔

تحریک کے ابتدائی سالوں میں تمام مذاہب پر پابندی عائد کی گئی تمام مذہبی عبادت گاہوں کو بند کر دیا گیا ۔ مذہبی لٹریچر کا پاس رکھنا جرم قرار دیا گیا ۔ اس دوران تبت کے بہت سے بدھ بھکشو انڈیا کی طرف فرار ہو گئے ۔ اس دوران مساجد کی بے حرمتی کی گئی ، قرآن کے نسخے تباہ کیے گئے ، مسلمانوں کو حج کے مذہبی سفر پر جانے سے منع کیا گیا اور کمیونسٹ ریڈ گارڈز کی طرف سے تمام مذہبی عقائد کے اظہار پر پابندی لگا دی گئی ۔ یہ پابندیاں ماؤ کے انتقال تک جاری رہیں اور بعد میں ان پر کچھ نرمی کی گئی ۔

تحریک کے شروع کے دو سالوں کے عام بدترین تشدد کے بعد چھ یا سات سالوں میں ثقافتی انقلاب بنیادی طور پر چینی کمیونسٹ پارٹی کے اعلیٰ طبقوں میں اقتدار کے لیے جدوجہد کے گرد گھومتا رہا ۔ 1971 تک، ماؤ اور اس کے سیکنڈ ان کمانڈ لِن بیاو ( Lin Biao) ایک دوسرے کے خلاف قتل کی کوششیں کر رہے تھے ۔ ستمبر 1971 کو لن ( Lin Biao ) اور اس کے خاندان نے سوویت یونین جانے کی کوشش کی لیکن ان کا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ سرکاری طور پر یہ کہا گیا کہ اس میں ایندھن ختم ہو گیا تھا یا انجن میں خرابی تھی ، لیکن قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ طیارے کو چینی یا سوویت حکام نے مار گرایا تھا ۔

مسٹر چھن نے بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ ایسا  کوئی دور دوبارہ ہماری زندگیوں میں آئے ۔ لیکن اس وقت تک نائن الیون کا واقعہ پیش آ چکا تھا اور ماؤ نواز سخت دھڑا برسر اقتدار تھا ایک اور کلچر ریولوشن کی تحریک دروازے پر دستک دے رہی تھی۔

میں سوچنے لگا کہ انقلاب ایک جنون ہے جو اپنے بچے کھانا شروع کر دیتا ہے ۔ اس کلچر ریولوشن کے اثرات آج تک لوگوں کے مزاج پر اثر انداز ہیں ۔ ایسے انقلابات سوچنے کے انداز تبدیل کر دیتے ہیں اور انسان اپنے سایے سے بھی خوف کھانے لگتے ہیں ۔ اس قحط اور غیر یقینی کی کیفیت نے یہ حالت کر دی کہ کسی بھی چائنیز سے آپ ملیں وہ سب سے پہلے نی ہاؤ ما ( آپ کیسے ہیں ) پوچھے گا پھر اس کے بعد فوراً اگلی بات کھانے کے متعلق ہو گی ۔ اس گفتگو سے مجھے اس سوسائٹی کے مزاج کی وجہ سمجھ آ گئی ۔ آپ انسان پر کچھ بھی زبردستی نافذ نہیں کر سکتے یہ انتہا کا باغی ہے مجبوری اسے خاموش کر دیتی ہے لیکن بغاوت کے جذبات اسے سکون نہیں لینے دیتے اور یہ موقع کی تلاش میں رہتا ہے ۔ ظلم جب اپنی انتہاء پر پہنچ جاتا ہے تو یہ مظلوم کےلیے ضد بن جاتا ہے ۔

اسی طرح کسی حوالے سے ایک سنکیانگ کاشغر کی ایک انتہائی خوبصورت لڑکی رضیہ کے متعلق معلومات حاصل ہوئی جو ایوو ( yiwu ) شہر میں کال گرل کے طور پر کام کرتی تھی ۔ لیکن فجر سے پہلے انتہائی پیاری آواز میں قرآن کی قرات کرتی تھی ۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ اسی جبر کے دور میں ان کے علاقے کے بڑے بوڑھے اسی وقت میں فجر سے پہلے اپنے بچوں کو چھپ چھپا کر قرآن کی تعلیم دیتے تھے ۔ یہ وہ دور تھا جب آپ سے کسی مذہبی علامت کے اظہار کی سزا موت تھی ۔ نماز تو باقاعدہ گھر کے دورازے کے باہر بچوں کو کھڑا کر کے پڑھی جاتی اگر موقع  ملے تو ۔ لیکن یہ فجر سے پہلے کا وقت ایسا ہوتا کہ ظلم کو بھی نیند آ جاتی تھی اس لیے جو ممکن تھا وہ کیا گیا ۔ رضیہ نے بتایا جبر نے ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ یہ کام کرنے پر مجبور ہیں لیکن ہمارے بزرگوں نے جیسے ہو سکا اس چراغ کی روشنی کو آگے منتقل کرنے کی اپنی سی کوشش کی ، مستقبل کے حوالے سے اندھیرا ہی نظر آتا ہے ۔ یہ رضیہ کا مستقبل کو دیکھنے کا اپنا انداز ہے ۔ وہ اپنی چال چل رہے ہیں اور خدا اپنی چال چلتا ہے پھر خدا سب سے بہتر چال چلنے والا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے لیے اس سب سے حیرت کی بات یہ تھی جو ایک بہت بڑا سوال بھی تھی کہ 1949 میں بہت قربانیاں دے کر ایک حکومت حاصل کی گئی پھر جو لوگ اس جدوجہد میں ساتھ شریک تھے وہی حکومت قائم ہونے کے بعد اہم عہدوں پر موجود تھے اور کیمونسٹ پارٹی ہی کے وفادار تھے ظاہر ہے ایک نظام کےلیے انہوں نے قربانیاں دی تھیں تو اسی سے مخلص ہوں گے لیکن پھر سترہ سال بعد وہی لوگ غدار اور ناقابل اعتبار کیسے قرار دیے گئے اور تحریک انہی کے خلاف شروع کی گئی کہ ہمارے اندر کیمونسٹ نظام کے مخالف گھس آئے ہیں ۔ یعنی جب حکومتی نظام مستحکم ہو گیا تو پھر ایسی تحریک اٹھا کر ایک انتشار پیدا کر دیا گیا اور پھر انہی قربانیاں دینے والوں میں سے بہت سے تہہ تیغ کر دیے گئے اور بہت سے جان بچا کر بھاگ گئے ۔ کیا یہ کوئی خود کو خدائی کے منصب پر فائز کرنے کی کوشش تھی کہ جو بات آپ کہیں اس کی کوئی مخالفت نہ کرے یا تنقید برداشت نہیں تھی ۔ یہ انسان ہے یہ سوچے گا بھی اپنی رائے بھی دے گا اور اختلاف بھی کرے ۔ شاید یہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی ایسی ہی کوشش تھی جسے ہمارے ہاں آسان لفظوں میں دشمن کی سازش کہہ دیا جاتا ہے ۔جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply