آشوب ِشہر /محمد اسحاق

میری پیدائش میانوالی کے ایک دور افتادہ گاؤں کی ہے 4مئی 1992 کو میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی ابتداء کے لئے پاک فضائیہ کو چنا اور ابتدائی تربیت کے بعد میری پہلی تقرری میانوالی فضائی بیس پر ہوئی ،میں نے عمر عزیز کے دس سال اس بیس پر بِتائے ہیں ،سرد و گرم موسموں کی شدت سے ماوراء مادر وطن کی محبت میں یہاں کے طیاروں کو اڑان کے قابل بنانے کے لیے اپنا تن من دھن قربان کیا ہے دسمبر کی یخ بستہ راتوں کو جاگ کر اس کی حفاظت کی ہے کہ اس فضائی بیس کی مضبوطی فضائیہ کی اور پھر وطن عزیز کی مضبوطی گردانی جائے گی ، فضائیہ کا یہ بیس کئی سال تک حفاظتی باڑ کے بغیر ہی وطن کے دفاع میں پیش پیش رہا ، پاک فضائیہ کے پائلٹ یہاں سے تربیت پاکر دنیا پہ اپنی پیشہ ورانہ عظمت کی دھاک بٹھاتے رہے۔

دشمن نے 65 اور 71کی جنگ میں اس فضائی ٹھکانے پہ آتش و آہن کی بارش برسائی تھی مگر یہ بیس اپنی مستقل مزاجی سے ڈٹا رہا ، مقامی لوگوں نے کبھی بھی ریاست کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھایا، وار اِن ٹیرر کی خون آشام جنگ میں بھی دہشت گردوں کے ناپاک قدم اس تک نہ پہنچ سکے، وجہ اسکی مقامی آبادی میں دہشت گردوں کے اثر ورسوخ کا نہ پنپنا ہے ، فضائیہ کا یہ بیس چہار اطراف سے ملک دشمنوں کی آسان رسائی میں ہونے کے باوجود محفوظ رہا کہ یہاں کے لوگوں نے ایسے دشمنوں کا آلہ کار بننے سے ہمیشہ انکار کیا جو اس ملک کی سالمیت کے درپے تھے ۔

یہ بیس مجھے ہمیشہ سے مسحور کُن لگا کہ اس کے ساتھ ماضی کی کئی یادیں وابستہ ہیں ۔ میں جب بھی اس کے گردو نواح سے گزرتا ہوں تو آنکھیں اور دل اس کے احترام میں جھک جاتے ہیں لیکن 9 مئی 2023 کو آخر کیا قیامت آ گئی تھی کہ یہاں کے پُر امن لوگ اپنے شاندار ماضی کے برعکس ڈنڈے سوٹوں سے اس فضائی مستقر پر حملہ آور ہو گئے تھے ان کے رستے میں جو کچھ آیا غیض و غضب کا نشانہ بن گیا۔ میں نے اپنے گھر کے  ٹی وی پر جب اس بیس پہ لوگوں کے ہجوم کو حملہ آور دیکھا تو انکھوں سے آنسو نکل پڑے، یہ حملہ مجھے اپنے قلب پہ محسوس ہُوا، میرے بدن میں وطن کی محبت نے جوش مارا میں چشم تصور میں اسکی حفاظت کے لیے اپنے ہی ہجوم کے سامنے آن کھڑا ہوا، میں میانوالی بیس کے گارڈ روم کے اندر بپھرے ہوئے ہجوم کے درمیان کھڑا بلوائیوں کو روک رہا تھا۔

میرے اطراف ڈیوٹی پر متعین جوان بھی ان بندوں کو روک رہے تھے سب نے منت ترلوں سے حملہ آور ہجوم کو سمجھایا مگر میرے ہم وطنوں کی شناسا آنکھوں پہ آج اجنبی خون سوار تھا چند سرپھرے نوجوانوں کے مسلح ہاتھ میری جانب لپکے اور اگلے لمحے میں اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں مار کھا رہا تھا۔ میرے علاقے کے یہ لوگ میری علاقائی زبان میں ہم نفسان وطن کو گالیاں دے رہے تھے اور یہ گالیاں میری روح تک کو گھائل کر رہی تھیں.یہ سب چہرے میرے شناسا تھے، میرے اپنے تھے ان میں سے کسی نے بھی ہاتھوں پہ دستانے نہیں پہنے ہوئے تھے۔ میں جس جگہ کھڑا تھا وہاں اندر کلمہ گو دفاع وطن کی راہ میں سر بکف رہتے ہیں اور باہر سے حملہ آور بھی نعرہ تکبیر کی گونج میں میرے زخمی بدن کو رگیدتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ۔ میں لیٹے لیٹے ایک بورڈ دیکھ رہا ہوں جس پہ علامہ صاحب کا یہ شعر درج ہے
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

لیکن آج یہاں حق و باطل کا کوئی معرکہ درپیش نہیں تھا مشتعل ہجوم شعلہ فشانی کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا ان میں نرمی کے کوئی آثار نہیں تھے حملہ آور آج ہر چیز بھسم کرنا چاہ رہے تھے ، یہ جگہ جو دشمن کی سرحد سے سینکڑوں میل کی دوری پر ہے۔ غیر ملکی دہشت گردوں کے ناپاک قدم اس جگہ تک کبھی نہ پہنچ پائے لیکن آج یہ مضبوط مستقر بغیر کسی مزاحمت کے خاکم بدہن فتح ہو رہا تھا فاتح لشکر کے لوگ میرے اپنے خون سے تعلق رکھتے تھے اور مزاحمت پہ میں اکیلا ہی کھڑا رہا ، میرے ناتواں جسم نے کچھ دیر ہی مزاحمت کی ہوگی پھر ایک زبردست وار سے میں دھڑام سے نیچے آن گرا، لوگ مجھے روندتے ہوئے اور فتح کے نعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ اچانک میرا زخمی کاسہء  سر جب ایک ٹھوکر سے دوسری طرف گھوما تو مجھے زمین میں گڑا یادگاری جہاز جلتا ہوا نظر آیا وہ جہاز جو غم روزگار کی راہ میں میری پہلی محبت تھی ۔ وہ جہاز جس نے دفاع وطن کی راہ میں کم و بیش تین نسلوں کی تربیت کی تھی آ ج شعلوں میں گِھرا جل رہا تھا ، آگ کے شعلوں کی تپش میرے زخمی بدن تک محسوس ہو رہی تھی ، احساس ندامت کا ایک خنجر تھا جو میرے سینے میں پیوست تھا ،مجھے یاد نہیں کب میں بے ہوش ہوا اس کے بعد کہاں رہا کس حال میں حلقہ یاراں میں رہا یا حلقہ عدو میں قیدی کی حیثیت سے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج اچانک ایک شناسا آواز نے میری گھائل روح کو طویل بے ہوشی سے جگا دیا ،ایک مہربان دوست دوسرے دوست سے میرے بارے میں پوچھ رہا تھا ” آجکل اسحاق بھائی کہاں ہیں کس حال میں ہیں نظر نہیں آ رہے” ۔ ہزار برس ہوتے ہیں جب اسی طرح کا بپھرا ہوا ہجوم منصور حلاج کو بغداد کی گلیوں میں پتھر مار رہا تھا اور منصور حلاج مسکرائے جا رہا تھا کہ شبلی جیسے دوست نے منصور کی طرف پھول پھینکا تو منصور حلاج پھوٹ پھوٹ کر رو دیا، وہ جانتا تھا کہ لوگ تو ثواب حاصل کرنے کے لئے پتھر مار رہے تھے لیکن منصور حلاج کو دوست کے پھول مارنے سے جھٹکا لگا اور وہ بولا “شبلی تم تو حقیقت جانتے ہو ۔۔ ۔۔ تم بھی ” میرے کانوں میں میرے وسیب کے باسیوں کی دشمنام طرازیاں گونج رہی تھیں وہ باسی جن کے بزرگوں نے اس بیس کے لئے اپنی زمینیں دی تھیں اپنے دامن کو وسیع کیا تھا مگر ان کی اولاد آج اس فضائی ٹھکانے پہ تلواریں سونت کر حملہ آور تھی۔ مستقبل کے قومی منظر پر جب بھی اس آشوب شہر کا تذکرہ ہو گا، میرے وسیب کے حصے میں مزید رسوائیاں آئیں گی۔ مئی میں فضائیہ میں آنکھ کھولنے والے ایک مزدور پیشہ سپاہی کے لئے میانوالی فضائی بیس پر مئی کا سورج زندگی کی تمازت کو ہمیشہ کے لیے گُل کر گیا تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply