وِی وانٹ پیس/نور بدر

“Move on gentlemen and be careful”
وہ اپنے کپتان کی رہنمائی میں احتیاط سے آگے بڑھ رہے تھے۔ ملک میں ہر طرف افراتفری اور انتشار کا عالم تھا۔ اعلانِ جنگ کے بعد پچھلے پانچ روز سے یہاں جھڑپیں جاری تھیں۔ یہ ایک سرحدی علاقہ تھا جہاں چند روز پہلے صرف انسان بستے تھے مگر اب خوف، بے حسی اور بربریت بھی یہیں آن بسے تھے۔ شل ہوتے اعصاب کے ساتھ اس نے نظر گھما کر دیکھا۔ اردگرد کے بیشتر گھر مسمار ہوچکے تھے۔ قریب قریب پورا گاؤں تباہ ہو چکا تھا۔ دور تک دھوئیں کے مرغولے اٹھتے دکھائی دے رہے تھے۔ فضا میں بارود کی بُو رَچ بس گئی تھی۔ اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا جن کے چہرے شدید تھکاوٹ اور نیند کی کمی کے باعث پژمردگی کا شکار تھے۔ چند روز کی جنگ نے ان کے مضبوط اعصاب کو تھکا دیا تھا۔ ایک جگہ دشمن کے اچانک حملے کے باعث یہ پچیس کا گروہ اپنی بٹالین سے جدا ہو گیا تھا۔ اپنی بقا کی خاطر لڑتے اور دشمن پر جوابی وار کرتے کرتے وہ اس طرف آ نکلے تھے مگر اب وہ صرف دس بچے تھے۔ جنگ ان کے پندرہ ساتھیوں کو نگل گئی تھی مگر یہ حساب کتاب کا وقت نہیں تھا۔ دھوئیں کے بادلوں نے تاحد نگاہ تمام علاقے کو ڈھانپ رکھا تھا جس کی وجہ سے اجالا، نیم تاریکی میں بدلتا محسوس ہورہا تھا۔ سامنے ایک شکستہ حال مکان تھا جس کی بنیاد میں ہلکا سا شگاف دکھائی دے رہا تھا اور بائیں طرف کی دیوار میں ایک بڑی دراڑ واضح نظر آرہی تھی۔ ایک ثانیے کو سامنے کی دیوار میں کھڑکی ہلتی ہوئی محسوس ہوئی گویا کوئی انہیں چپکے سے دیکھ رہا ہو۔ چند لمحوں بعد ایک چرچراہٹ کے ساتھ گھر کا دروازہ کھلا مگر اس سے پہلے کہ آنے والا دکھائی دیتا، ان کا مستعد کپتان چیخ اٹھا، ‘فائر’۔ لاشعوری طور پر ان سب کا ہاتھ ٹریگر پر پڑا اور ایک ساتھ کئی گولیاں ادھ کھلے دروازے کی جانب لپکیں جہاں ایک دس سالہ بچہ خوف اور بے بسی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ ایک لرزتی سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے باہر نکل رہا تھا۔ شعور کے بیدار ہوتے ہی اسے اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا۔ جبکہ اس کے ساتھی مکان پر گولیاں برساتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے، وہ ہیجانی انداز میں اس بچے کی طرف لپکا جو اب تک خون میں لت پت ساکت ہو چکا تھا۔ خوفزدہ سی بے بس مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر منجمند ہو گئی تھی۔ اس کی کھلی آنکھیں جو دہشت سے پھیلی ہوئی تھیں، اسی پر مرکوز تھیں۔ وہ چاہ کر بھی ان آنکھوں کو بند نہیں کر سکا۔ اردگرد اڑتی دھول، بھاگتے قدموں اور چیخ و پکار سے بے خبر، وہ اس معصوم چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے کچھ ساتھی مکان کے اندر داخل ہو چکے تھے۔ کپتان نے ایک ملال کے ساتھ ساکت پڑے بچے کو دیکھا اور مکان کے اندر چلا گیا۔ عین دروازے کے سامنے ایک عورت دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ اس کی کھلی آنکھیں دروازے پہ ٹکی تھیں گویا کسی کا انتظار ہو۔ شاید وہ مدد کی منتظر تھی۔ تین چار ماہ کا ایک ننھا سا بچہ جنگ کے ہنگامے اور افراتفری سے بے خبر اپنی ماں کی گود سے لپٹا بھوک سے بلکتے ہوئے دودھ کے لیے تڑپ رہا تھا۔ کپتان نے آگے بڑھ کر دیکھا۔ وہ عورت کسی کی مدد کی منتظر جانے کب کی مر چکی تھی۔ کرب سے ہونٹ بھینچتے  ہوئے کپتان نے اس بچے کو اٹھایا اور دروازے سے باہر نکل گیا۔

بچے کے رونے کی آواز پر اس نے چونک کر دیکھا۔ صورتحال کو محسوس کر کے اس کا دل پگھل گیا۔ اس نے بمشکل کھینچ کر سانس لی اور خون میں ڈوبے اس مردہ بچے کے دائیں ہاتھ کو دیکھا۔ یہ ایک سفید پھول تھا جس پر خون کے چھینٹے گرنے کے باعث وہ سرخ و سفید دکھائی دے رہا تھا۔ پھول کے نیچے ایک چھوٹا سا کاغذ بند ہاتھ کی مٹھی میں دبا ہوا تھا۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے وہ کاغذ نکالا۔ اس پہ تحریر تھا۔ “We want peace”

اسے اپنے اردگرد کے مناظر دھندلائے ہوئے محسوس ہوئے۔ اَن دیکھے چہرے خوف سے سسک رہے تھے۔ نا معلوم سائے انسانیت کی دلخراش چیخیں سن کر بے تابی سے تڑپ رہے تھے۔ اسے ایک مدھم سی آواز اپنے کانوں میں پڑتی سنائی دی۔
“Dulce et decorum est pro patria mori.
اپنے وطن کی خاطر مرنا بہت قابل فخر ہے۔ اسے بار بار کا پڑھایا گیا سبق یاد آیا۔
“آپ کی وردی آپ سے یہی تقاضا کرتی ہے کہ آپ ڈٹے رہیں اور جم کر دشمن کا مقابلہ کریں۔ ایک سپاہی اپنے خون کے آخری قطرے تک لڑتا ہےاور اپنے لہو سے ہر اس آگ کو بجھاتا ہے جو اس کے لوگوں، اس کے گھر کو جلانے کے لیے لگائی جائے۔ یاد رکھیں آپ کا عزم، آپ کا حوصلہ ہی امن کا ضامن ہے اور امن قائم کرنے کے لئے لیے جنگ ناگزیر ہے۔”

اس نے بے یقینی سے پہلے اپنی خاک آلود وردی کو دیکھا پھر سرخ و سفید پھول کو۔ خوف سے پھیلی آنکھیں ابھی بھی اس پر مرکوز تھیں۔ ننھے بچے کا حلق خشک ہو چکا تھا جس کے باعث اس کی آواز گھٹنے لگی تھی۔ جنگ کا عفریت محو رقص تھا اور انسانیت اپنے خون آلود چہرے کے ساتھ بین کرتے ہوئے کہہ رہی تھی:

کہاں ہے ارض و سماء کا خالق کہ چاہتوں کی رگیں کُریدے
ہوس کی سرخی رُخِ بشر کا حسین غازہ بنی ہوئی ہے
کوئی مسیحا ادھر بھی دیکھے، کوئی تو چارہ گری کو اُترے
افق کا چہرہ لہو سے تر ہے زمین جنازہ بنی ہوئی ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

اس نے اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنی ڈبڈباتی آنکھوں کو پونچھا اور زیر لب کہا،
“We want peace.”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply